تحریر : انجینئر افتخار چودھری
ویسے مزہ آ گیا نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ پیپلز پارٹی نے اکثریت کے بل بوتے پر بدنام زمانہ ترمیمی بل پاس کروا لیا۔حکومے کسی بھی نامز ملزم کو اپنی صوابدید پر رہا کروا سکتی ہے۔سندھ میں کسی زمانے میں بہت چوریاں ہوا کرتی تھیں کھوجیوں کی موجیں ہوتی تھیں دور دراز سے نام ور ککھوجی چورکی تلاش میں لائے جاتے تھے جو پائوں کے نشانات سے بتا دیتا تھا کہ چور کدھر سے آیا کدھر گیا۔لگتا ہے کھوجیوں نے پیپلز پارٹی کو بتا دیا ہے ڈاکٹر عاصم تو اک بہانہ ہے اصل ملزم کوئی اور ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ ملزم کوئی بھی ہو اسے اپنی تحویل میں لے لیں۔ہم نے سنا تھا کہ ایک زمانے میں انگلستان کے چور اور ڈاکو قانون سے بھاگ کر دور دراز کے ملکوں میں چلے جایا کرتے تھے جن میں کچھ امریکہ اور کچھ آسٹریلیا پہنچ گئے ہمارے ساتھ بھی ایک عرب ریاست ہے جہاں خطے کے لٹیرے جا کر پناہ لے لیتے ہیں ۔پاکستان کا مال شیر مادر سمجھ کر پی جانے والے کچھ جدہ چلے گئے کچھ دبئی۔ڈالر گرل ایان کو پکڑ تو لیا گیا۔
مگر اسے قانونی طریقہ ء کار کی عدم موجودگی کی وجہ سے آئے روز عدالتوں میں جانا پڑتا تھا اس سے حکمرانوں کی سبکی ہوتی تھی۔لوگ سر جوڑ کر بیٹھے انہوں نے فیصلہ کیا کون روز روز عدالتوں کے چکر کاٹے ایک ایسا ترمیمی بل پاس کرتے ہیں جس سے کوئی عدالت کسی کو سزا نہ دے سکے سو انہوں نے کئی ایان اور کئی اصم بچانے کے لئے یہ بل پاس کر دیا۔اس بل کی ٹائمینگ دیکھئے مرکز میں ایک اور بل پاس کیا جاتا ہے اور وہ ایمنسٹی ان لوگوں کو سہولت جنہوں نے مال لوٹا انہیں کہہ دیا گیا کہ آپ کچھ برائے نام حکومت کو دو ٹیکس کے نام پر اور حلال ہے باقی سارا مال۔ جمہوری دور میں سب سے بڑا مزاح یہی ہے۔
ایسی جمہوری حکومتیں اگر ملک عزیز کو اس قسم کے قوانین دیں گی تو پھر لوٹنے والے کو آزادی مل جائے گی۔اور وہ لوگ جو رزق حلال کما رہے ہیں جنہیں بجلی گیس کی گرانی نے سخت محنت کرنے کے بعد کمانے کا موقع ملا وہ کیوں نہیں ٹیکس چوری کریں گے۔یہ عجیب منطق ہے کہ اس طرح بینکوں میں پیسے آئیں گے۔میں یہاں دین اسلام کا ذکر کروں جو حرام کی رتی بھی حلال کے ڈھیر میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا تو شائد دوست کہیں کہ ملا کی آواز ہے۔
مگر یہ بات تو سچ ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہیں جہاں کوئی بھی قوانین اسلام کی روح کے خلاف بنایا نہیں جا سکتا۔تو سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا یہ دونوں قوانین اسلام کی روح کے خلاف نہیں ہیں؟اگر ہیںتو پھر عدالت عظمی انہیں رد کر دے۔آج اسمبلی میں جب شاہد خاقان عباسی سے شیریں مزاری یہ پوچھتی ہیں کہ ایل این جی کی قیمت بتا دی جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ قطر سے خریدنے کے اس سودے میں سیف الرحمن کا کیا ہاتھ ہے تو موصوف عمران خان پر پھٹ پڑتے ہیں انہیں کنٹینر یاد آ جاتا ہے۔
بھائی جان!آپ پٹرولیم منسٹر ہیں آپ اس کا جواب دیں اس میں کنٹینر کہاں سے آ گیا؟کدھر سے آپ کو پرانے زخم یاد آئے۔ پاکستانی قوم کے لئے کنٹینر ہی بہتر تھا کم از پٹرولیم کی قیمتیں تو کم کرا دی تھیں اس دھرنے نے۔ شاہد خاقان عباسی ہوں یا کوئی اور وزیر ایوان کو مچھلی منڈی بنانے کا ہنر آپ ہی کو آتا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت ایل این جی سودے کو سامنے لائے ایکسیس آف انفارمیشن اگر کے پی کے میں حاصل ہے تو ادھر مرکز میں کیوں نہیں۔
کچھ لوگ پرویز خٹک کے اخراجات پر سیخ پاء ہیں خوش آمدید لیکن کیا جو اخراجات شہباز شریف کرتے ہیں ان کی کسی کو خبر ہے؟ یہ گیس کیا اس ریٹ پر مل رہی ہے جس پر بنگلہ دیش نے لی ہے؟جس پر انڈیا نے خریدی ہے؟دال میں کچھ کالا تو سن رکھا تھا پوری نون لیگی دال کو کال ہم دیکھتے ہیں۔کسی بھی پراجیکٹ میں شفافیت نہیں نندی پور جو اب۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری