تحریر : شاہ بانو میر
مائیں جن کی نہیں ہیں اور یا جن کی مائیں ایسے خطہ ارض میں ہیں جہاں بڑی طاقتوں نے اسکو اجاڑ کر رکھ دیا تعلیمی ادارے برباد کر دیے علم حکمت کا دور دور تک نشان نہیں عورتیں گھروں میں اسیے محدود ہیں کہ سوائے کھانا پکانے اور شوہر کی خوشنودی کے علاوہ ان کی زندگی سے ہر مصروفیت چھین لی گئی۔
ایسی ہی ماں جو کم عمری میں بیاہ کر بوجھ اتار دیا جاتا ہے وہ پیدا کر رہی ہے وہ اولاد جو آک کے خود کش ہیں ماں کو شعور ہوتا تعلیم ہوتی تو بیٹے کو بتاتی کہ جنت کا یہ راستہ نہیں ہے کہ سامنے کھڑے مسلمان کو قتل کرو ذبح کرو ایک نسل ماں کے تعلیم یافتہ نہ ہونے سے دنیا کو کشت و خون کا گھر بنائے ہوئے ہے شادی بہت اہم معاملہ ہے شادی کیلئے کونسی عمر مناسب ہے ؟ بغیر تعلیم کے چھوٹی عمر کی شادی جو صرف چپاتیں بنا کرشوہر اور بچوں کو کھلا سکے اور ظالم پیدا کرے جن کو وہ شعور نہ دے سکے کہ انسانی جان کس قدر اہم ہے؟ اور یہ نہ بتا سکے کہ حوریں مسلمان کو قتل کر کے نہیں ملتیں یا مسلمان سے مقابلہ کر کے اپنی موت کو شہادت نہیں بنا سکتے ؟۔
آج کے المناک ماحول میں جو ظالمانہ انداز دکھائی دے رہا ہے وہ بلاشبہ بتا رہا ہے کہ ان کی ماں نہیں ہے یا پھر پڑہی لکھی نہیں ہے اسی وجہ سے زندگی کے شعور سے نابلد ہیں اس وقت خواتین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کیلئے پہلے خود خواندہ ہوں تا کہ وہ انہیں دوسروں کی جان کے قیمتی ہونے اور گناہ ثواب کے بارے میں سمجھا کر صلح جو معاشرہ تیار کریں بیٹی کی شادی کس عمر میں کرنی چاہیے؟ پہلے وقت سادہ تھے اتنا ہجوم اور ایسے ذہنی الجھاؤ نہیں تھے سادہ زندگی اور دین پر مکمل توجہ تھی عبادت عام تھی گھر کا ماحول ایک بچی کو بہشتی زیور کی عملی مثال لگتا تھا اور وہ چھوٹی عمر میں اپنے ہی جیسے کسی دینی گھر وداع ہو جاتی تو دیندار لوگ مشفقانہ سلوک کرتے اور وہ آسانی سے اس ماحول کو قبول کر لیتی۔
پھر وقت بدلا اور وقت کی تبدیلی نے سب سے زیادہ گھریلو ماحول کو متاثر کیا بڑوں کو اولڈ ہوم بھیجنے کی روایت شروع ہوئی تو صبح بعد از نماز فجر بزرگوں کا قرآن پڑھنا ختم ہوا گھر سے برکت اٹھ گئی بچوں کی مصروفیات نے بغاوت کی والدین انہیں سہولتیں فراہم کرنے میں مصروف ہوئے تو باہمی رابطہ کم ہوا اور یوں بڑوں کا ادب احترام اٹھ گیا اب مصنوعی مصروفیات کے ساتھ بے مقصد مصروف زندگی ہے بڑوں کی بھی اور چھوٹوں کی بھی غیر اسلامی ممالک سے ان کا کلچر ڈش کی صورت ملک پر لاگو کر کے دین کو خیر باد کہہ دیا گیا۔
اب گھر کے ہر ممبر کے ہاتھ میں اپنی زندگی کا پیکج موبائل کی صورت موجود ہے جو اسکا سب سے بڑا ہمدرد دوست غمگسار ہے ایسے تیز رفتار ماحول میں جب آپ کسی پڑہی لکھی لڑکی کی بجائے سکول میں پڑھنے والی کم عمر بچی بیاہ کر لائیں گے تو وہ مختلف مزاجوں کے بگڑے ہوئے افراد کے ساتھ اس کم عمری میں کیسے گزارہ کرے گی؟ نتیجہ وہ بیوقوف کہلائی جائے گی احمق کہلائی جائے گی شوہر کو آسانی ہو جائے گی پہلے مار پیٹ اور اس کے بعد ساس نند آزاد ہیں اسے جلانے کیلئے اسی بچی نے سال بعد گود بھر جانے کی صورت اب بچہ بھی پالنا ہے؟ وہ جو خود کھیلنے کی عمر میں تھی جیتا جاگتا گڈا کیسے 24 گھنٹے کھلائے؟ تھکاوٹ ذہنی جسمانی عدم برداشت اس کی تمام صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر اس کو زندہ درگور کر دے گی۔
سوچیئے شادی کیلئے بچی کی اتنی عمرتو ہو کہ وہ 3 خاندانوں کو شعور کے ساتھ کامیابی سے چلا سکے ایک وہ جو میکہ ہے دوسرا سسرال تیسری اسکی نسل سمجھدار دور اندیش لڑکی ہر خاندان کی ضرورت ہے اس نے ان کے خاندان کی نسل کو آگے چلانا ہے عمل کی پختگی اور طاقتور سوچ کی ضرورت ہر خاندان کو چاہیے وہ اتنا تو علم رکھتی ہو کہ نئے ماحول نئے لوگوں کے ساتھ مطابقت اختیارکر سکے چھوٹی عمر کی وجہ سے معاملات کو نہ سمجھتے ہوئے شدید ذہنی کوفت اور دباؤ میں آکر اپنے لئے اور ان کیلئے مسائل پیدا کرے گی جس کا بالعموم نتیجہ خاوند کی طرف سے تشدد کی صورت دکھائی دیتا ہے۔
50 سالہ ساس ننھی بچی سے اپنی عمر کی پختگی والے عمل کو دیکھنا چاہتی ہے 30 سالہ نند معصوم کم عمر بچی کو اپنے گھاگ رویئے سے اذیت دیتی اور پٹواتی ہے بچے ایسے ماحول میں عدم تحفظ کا شکار ہو کر ماں کی عزت نہیں کرتے اور اپنی ذات کی تذلیل سے لڑکی مزید ذہنی طور پے پست ہو جاتی ہے معاملات کو سمجھنے سلیقے سے زندگی گزارنے کیلئے مناسب عمر کی شادی موزوں ہے لڑکی جسے آپ لا رہے ہیں خاندان میں اسکا وجود اکیلا نہیں اس نے اسکی اولاد کی صورت ہمیشہ آپ کے ساتھ رہنا ہے تو پھر کیسی اولاد کی خواہش ہے آپکو؟۔
اس ماں کی اولاد جسے اپنے وجود کی اہمیت کا خود اپنا شعور نہیں وہ کیا دے گی آپ کے خاندان کی نسل کو؟ ؟ ہمیں اس حقیقت کو تسلیلم کرنا ہوگا ہر طبقے ہر گوٹھ ہر گاؤں ہر شہر ہر صوبے میں لڑکی کیلئے تعلیم کا حصول خود آپ کے خاندان کی عزت میں اضافہ ہے آپ کی نسل کوکامیابی سے پڑہی لکھی باشعور ماں مستقبل کے شاندار نظام کیلئے تیار کر کے سامنے لائے اگر آپکو ایسے بچے چاہیئے جو یونیورسٹیز میں ہیں توعلم ہوتے ہوئے بھی اسلام سے بے بہرہ سیاست میں ہیں تو اسلامی ریاستی حاکم کی ذمہ داریوں سے عاری تاجر ہیں تو صرف منافع حصول نظر اسلام کا کہیں شائبہ نہیں۔
عالم ہیں تو میڈیا پے جانے کا تشہیر کا شوق صحافی ہے تو کیسے کامیاب ہونا ہے بہت کمانا ہے انکا نصب العین ڈاکٹر ہے تو مہنگی فیس انسانیت سوچ سے غائب وکیل ہے تو غنڈہ گردی کی علامت جج ہے تواعلیٰ منصب اور اتنی ہی بڑی ان کی “” خدمت”” ایسی نسل مستقبل کیلئے نہیں چاہیے اس لئے معیاری مستقبل کیلئے معیاری ماں تعلیم یافتہ ماں اور باشعور ماں چاہیے جسے مناسب دنیا داری اور دین کا علم ہوتا کہ وہ اولاد کے نام پر وجود پیدا نہ کرے بلکہ پیدا کرنے والوں کو اپنی تربیت سے انسان اور پھر مومن بنائے جو کل کے پاکستان کی اولین ضرورت ہے اس کے لئے بہت ضرورت ہے۔
تعلیم دین اور تعلیم دنیا کامیاب پاکستان اور بہترین خاندان کیلئے لیکن عورت کل بھی بے بس تھی آج بھی بے بس ہے کل بھی ارباب اختیار اس کی ذات کے فیصلے کرتے تھے آج بھی وہی رواج ہے کاش کوئی سمجھ سکے کہ خود عورت سے بھی پوچھ لیا جائے کہ اسکی کیا خواہش ہے؟ وہ تعلیم سے محروم صرف اس لئے کر دی جاتی ہے کہ ابھی تک اس کی ذات سے جڑا ہے بوجھ کا تصور جسے باوجود جدت کے تبدیل نہیں کیا جا سکا کاش کوئی تو اس درد کا درماں بنے کوئی تو اسے جینے دے جیسے اس کی ذات چاہتی ہے یہ دکھ ہر عورت کا ہے جسے وہ کہاں کس کے آگے بیان کرے کہ شنوائی ہو؟ مائیں نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال۔
تحریر : شاہ بانو میر