تحریر: امتیاز علی شاکر، لاہور
چھاتی کے سرطان کے حوالے سے اکتوبر کے مہینے میں چلائی جانے والی آگاہی مہم ناکافی اور سست رفتار ہے، جس تیزی کے ساتھ یہ مرض پھیل رہاہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے آگاہی مہم کادائرہ بڑھانے ،رفتار تیز کرنے کی شدید ضرورت ہے۔محکمہ صحت کی جانب سے چلائی جانے والی مہم صرف شہری علاقوں تک محدودہے اس لئے دیہی خواتین اس مہم سے بالکل بے خبرہیں ۔خواتین شہری ہوں یادیہی خاص طورپرمسلم خواتین شرم وحیاء کے غلاف میں لپٹی پاکیزہ نعمت کی مانند ہیں۔چھاتی خواتین کیلئے شرم وحیا کامقام ہے اس لئے زیادہ تر خواتین تکلیف برداشت کرتیں رہتی ہیں ،ڈاکٹر تودورکی بات ہے اکثراپنی فیملی ممبرخواتین کے ساتھ بھی شیئرنہیں کرتیں۔
خواتین کو اس مرض کے حوالے سے مکمل آگاہی دی جائے تو اس خطرناک مرض کو کنٹرول جاسکتا ہے ۔ماہرین صحت کے مطابق دیگرکئی امراض کی طرح چھاتی کے سرطان کو ابتدائی دنوںمیں تشخیص کر لیا جائے تو مریض کے صحت مند ہونے کے امکان بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اس مرض کی تشخیص بہت آسان ہے ۔خواتین چھاتی میں تکلیف محسوس کریں،کوئی ایسا زخم ہو جس میں خون یا پانی جیسامادہ رسنا بند نہ ہو، ایک چھاتی کا سائز بہت بڑا ہوجائے، گلٹی محسوس ہو،سوجن ہو، چھاتی کا رنگ اور ساخت بدل جائے،اس میں درد ہو،.نپل میں درد تکلیف، خارش، یا زخم ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر کو دکھائیں، چھاتی میں بننے والی اکثر گلٹیاں درد نہیں کرتی اس لئے جس وقت کینسر کا پتہ چلتا ہے تب تک مرض بہت حد تک پھیل چکا ہوتا ہے۔
پاکستانی خواتین میں اس مرض کے تیزی کے ساتھ پھیلنے کی وجہ صرف شرم وحیا نہیں بلکہ صحت کے حوالے سے نامناسب انتظامات ،طبی سہولیات کی کمی اوربنیادی تعلیم کی کمی بھی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔ واشنگٹن کی پنک ربن’ نامی ایک تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 90 ہزار خواتین چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہو جاتی ہیں، جِن میں سے 40 ہزار موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر خواتین چھاتی کے سرطان کی بیماری اور علاج کے بارے میں معلومات کے فقدان کا شکار ہیں۔ اس لیے، زیادہ تر واقعات میں مریضوں میں بیماری کی تشخیص ایسے مرحلے پر ہوتی ہے جب اِس مرض کا علاج ممکن نہیں رہتا، خواتین کی اکثریت اِس بیماری کودوسروںسے چھپا کرمسلسل تکلیف برداشت کرتی رہتی ہیںجس کے باعث بروقت علاج شروع نہیں ہوپاتا۔چھاتی کے سرطان کے متعلق آگاہی مہم مزید موثر ہونی چاہئے تاکہ خواتین اس بیماری کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں۔
ہربیماری اور مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے اس لئے مشکل وقت میں پریشان ہونے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بیماری اورمصیبت کاڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس حقیقت سے توہم اچھی طرح آگاہ ہیں کہ ہمیں آخرکارموت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ راقم کاچھاتی کے سرطان جیسے اہم موضوع پرقلم اُٹھانے کامقصد آگاہی مہم میں اپناموثرکرداراداکرتے ہوئے اپنی مائوں،بہنوں اوربیٹیوں کویہ پیغام دیناہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ، اُوپربیان کردہ علامات میں سے کوئی ایک یا زیادہ ظاہرہوں تو فوری طورپراپنی ماں، بہن، بیٹی، بھابی یاکسی بھی بااعتماد رشتے کے ساتھ شیئر کریں ،اچھے معالج سے رابطہ کریں،اللہ نہ کرے آپ اس مرض میں مبتلاء ہوجائیں تو پریشان ہو کر رونے کی بجائے حوصلہ رکھیں اورسوچ کو مثبت رکھتے ہوئے اپنے اندرمشکل کاسامناکرنے کی قوت پیدا کریں۔
یری جو مائیں بہنیں، بیٹیاں چھاتی کے سرطان کا علاج کروارہی ہیں ، وہ یہ بات اپنے دل ودماغ میں بیٹھالیں کے اس مرض کو شکست دینا ممکن ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ آپ مکمل اعتماد سے اِس کا مقابلہ کریں، مثبت رویہ اور سوچ رکھیں اور ہروقت یہ سوچیں کہ آپ کا ہرقدم تندرستی کی طرف ایک اور قدم ہے، مسلمان مریض اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگیں ،نماز، تلاوت قرآن کریم ،اللہ تعالی کی حمد وثنا، رسول اللہ کی خدمت میں درودسلام کے نذرانے پیش کرتی رہیں اوراچھے معالج سے علاج جاری رکھیں ۔حکومت بھی زیادہ موثرکردار ادا کرے، خواتین میں اس مرض کی آگاہی کے لئے ضروری معلومات لیڈی ہیلتھ ورکرز، طبی مراکزصحت پر مہیا کرے۔
اس مرض کی تشخیص اور علاج کو عام آدمی کی پہنچ تک لائے ، اس کے علاج کے خرچ کو حکومت اس حد تک کم کرے کہ غریب لوگ بھی اس بیماری کاباآسانی علاج کرواسکیں، ایک صحت مند عورت ہی صحت معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے اس لئے باپ، بھائی اور شوہر حضرات بھی خواتین کی صحت کا خیال رکھیں، مالج سے چھاتی کے سرطان کے حوالے سے آگاہی حاصل کر گھر کی خواتین کو آگاہ کریں۔ اللہ پاک ہم سب پر اپنا رحم فرمائے، چھاتی کے سرطان اور دیگر امراض اور پریشانیوں میں مبتلا مخلوق کو جلد اور مکمل صحت اور پریشانیوں سے نجات عطافرمائے (آمین)۔
تحریر: امتیازعلی شاکر، لاہور
مرکزی نائب صدرکالمسٹ کونسل آف پاکستان(ccp)
imtiazali470@gmail.com