تحریر: ایم سرور صدیقی
یہ خبر تو سب نے پڑھی یا سنی ہوگی قومی اسمبلی میں ایک سوال پر بتایا گیا ہے کہ ایک سال کے دوران قریباً 2 لاکھ گدھوں اور 70 ہزار گھوڑوں کی کھالیں بیرون ممالک فروخت کی گئیں ان جانوروںکا گوشت کہاں گیا کوئی نہیں جانتا ۔۔۔سنا تھا کہ دولت کی ہوس انسان کو اندھا بنا دیتی ہے لیکن اس قدر اندھا کہ گونگا۔ بہرہ کہ ہر احساس سے عاری ہو جائے یہ کہاں کی آدمیت ہے؟ ۔۔جائز نا جائز،حلال حرام اور اچھے برے کی تمیز ختم ہو جائے تو معاشرہ میں ایسی ہی کہانیاں جنم لیتی ہیں ہمارے ملک کا ماحول تو ویسے ہی ایسا ہے کہ یہاں مجرم ذہنیت کے لوگوںکو بال تک بیکا نہیں ہوتا اسی وجہ سے نت نئے جرائم جنم لیتے رہتے ہیںلوگوںکو یاد ہوگا کافی عرصہ یہلے ایک امریکی عہدیدار نے کہا تھا پاکستانی تو دولت کیلئے ماں تک بیچ دیتے ہیں یعنی ہماری ریپوٹیشن ایسی ہے کہ جوجس کے منہ میں آئے بک دے اورہم کھیسانے سے ہوکر دم سادھ لیںجس ملک کے حکمران ڈالروں کے عوض اپنے شہری امریکہ کو دیدیںوہاں حالات پر کیا تبصرہ کی جا سکتاہے۔۔
دولت کی محبت نے ہم سے تمام تر اخلاقی اقدار کو چھین لیاہے جانوروں کی انٹریوں اور فضلات سے کوکنک آئل کی تیاری، مردہ ،لاغر، بیمار جانوروں کے گوشت کی دھڑلے سے فروخت ، دودھ میں پانی کی ملاوٹ ، ٹماٹو کیچپ اور جام جیلی کے نام پر سٹارچ کا محلول،چوہوں کے گوشت سے فاسٹ فوڈکی فروخت، مرچ، صابن الغرض ہر چیزمیں ملاوٹ نے
ہرشہری کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ الہی !یہ مسلمانوںکو آخر ہو کیا گیا ہے۔۔۔ مسلمانوںکیلئے صفائی نصف ایمان کی علامت ہے ۔۔۔۔ ملاوٹ کرنے والوں کے متعلق پیارے نبی ۖ نے فرمایا وہ ہم میں سے نہیں۔۔۔ سود کو اللہ تعالیٰ سے جنگ قرا ردیا۔۔ جھوٹ کو سماجی و اخلاقی مسائل کی بنیاد کہا گیا لیکن دولت کیلئے ہر ذلت گوارا کرلینا ۔۔کہاں کی مسلمانی ؟ کہاں کی انسانیت؟ اور کہاں کا انصاف ہے؟
آگے آتی تھی حال ِ دل پر ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
مجموعی طور پریہ صورت ِ حال ایک خطر ناک رحجان کی عکاسی کرتی ہے کہ ہم ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے جارہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کہیں بھی حکومت کی رٹ نہیں ہے جس کے باعث کسی کو قانون کا خوف نہیں رہاسب انصاف ،قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کو موم کی ناک سمجھتے ہیں احتساب اور قانون صرف ان مجبور،بے بس اور غریبوں کیلئے ہے جو بااثرہیں کوئی ان کا چھ نہیں بگاڑ سکتا شاید اسی بناء پر پاکستان جرائم پیشہ لوگوںکی جنت بن گیاہے ۔کیا یہ سب کچھ پاکستان کا مقدر بن گیا ہے؟۔۔۔ اصلاح ِ احوال کیلئے کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا؟۔۔۔ کیا عام آدمی حکومت سے مایوس ہو جائیں؟ ۔۔نرمی ،تر غیبات، آسائشیں اور مراعات قانون شکنوں کیلئے نہیں صرف اور صرف ان کیلئے ہونی چاہییں ۔۔۔جو حکومت کی رٹ مانتے ہوں۔۔۔قانون کا احترام دل سے کریں۔۔۔اورسماج کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں میرے خیال میں وہ وقت قریب آن پہنچاہے جب حکمرانوںنے یہ فیصلہ کرناہے کہ اس ملک کو نظام درست کرناہے یا قوم کو یونہی شتر بے مہار آزادی دئیے رکھنی ہے۔۔ہم نے اپنے ملک کی بقاء کیلئے کام کرناہے یا پھر ڈنگ ٹپائو پالیسیاں بناکر اپنے آپ کے ساتھ منافقت کرنی ہے۔۔۔۔
یہ سسٹم ایسے ہی چلتا رہا تو اخلاقی اقدار، اخلاقیات اور یگانگت کا جنازہ روز سر بارار اٹھے گا اور ہمارے ارد گرد وحشت،بے شرمی اور بے حیائی ناچ رہی ہوگی اور ہم کچھ کرنا بھی چاہیں تو کچھ نہیں کر پائیں گے۔یاد رکھیں اگر قدرت ہمیں مہلت پہ مہلت دئیے جارہی ہے تو اس سے فائدہ اٹھایا چاہیے ہمیں اس بات کا بھی قلق ہے کہ پاکستان کو اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں کہیںفرقہ واریت،لسانی جھگڑے معمول بن گئے ہیں کہیں جمہوریت۔۔۔کہیں خلافت اور کہیں اسلام کے نام پراپنے ہم مذہب بھائیوںکے گلے کاٹے جارہے ہیں ۔۔۔ کہیںمعاشی استحصال ہورہاہے یاان کے حقوق غصب کئے جاتے ہیں خودکش حملے، بم دھماکے،ٹارگٹ کلنگ ایک الگ مسائل ہیں جنہوںنے پوری قوم کا جینا حرام کررکھاہے اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کو اللہ نے بے شمار وسائل سے نوازاہے لیکن یہ دولت فلاح ِ انسانیت کیلئے خرچ ہونی چاہیے ۔۔۔عوام کی حالت بہتربنانے پر صرف کی جانی چاہیے۔۔غربت کے خاتمہ کیلئے منصوبہ بندی کیلئے ٹھوس اقدامات متقاضی ہیں جرم، ناانصافی اور سماجی برائیوں کے قلع قمع کے لئے کام کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے ۔۔۔
پو ری دنیا میںشاید سب سے زیادہ پروٹوکول پاکستانی حکمرانوں کاہے جن کی آمدورفت کے موقعہ پر گھنٹوں ٹریفک جام رکھنا عام سی بات ہے اس دوران ایمبو لینسوںمیںمریضوںکی موت واقع ہو جائے،طالبعلم کو تعلیمی داروں اور ملازمین کودفاتر سے دیر بھی ہو جائے تو حکمرانوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔۔ ۔ہماری اشرافیہ نے ان کے مقدرمیں محرومیاں اور مایوسیاں لکھ دی ہیں اور جب مایوسیاں حدسے زیادہ بڑھ جائیں انسان کو اپنی ذات سے بھی محبت ختم ہو جاتی ہے ۔۔۔ اس ملک میں امیر امیر تر ۔۔غریب غریب ترین ہوتا جارہا ہے دعا ہے کہ یہ نظام بھی بدلنا چاہیے ۔۔ہم پاکستانی ایک ملک میں رہنے کے باوجودمگر آج بھی سندھی ،بلوچی،پٹھان اور پنجابی کی تفریق سے باہر نہیں نکلے۔۔۔پاکستان کا آج جو بھی حال ہے اس کیلئے حکمران۔اشرافیہ ۔۔قوم پرست۔۔کرپٹ سب ذمہ دارہیں ہمیں اس خول سے باہر نکلناہوگا۔
نہ جا اس کی سخت گیری پر
کہ بے ڈھب ہے گرفت اس کی
حکمرانوںکو زمین پر بادشاہی دینے والے کی خوشنودی کیلئے اب اقدامات کرنا ہوگا ۔یہ سوچنے کا وقت ہے۔۔۔ عمل کی گھڑی ہے اور غور وفکرکا مقام ہے۔۔ کیا ہمارے ارباب ِ اختیار کے پاس کچھ وقت اس کام کیلئے بھی ہے یا نہیں اس سے پہلے توبہ کا درورازہ بند ہو جائے کچھ کرنا ہوگا۔۔۔دل سے ایک ہوک اٹھتی ہے ایک آرزو مچلتی ہے، دل ہی دل میں ایک دعا ہونٹوں تک آجاتی ہے ۔۔۔ایک حسرت ہے ۔۔۔ایک خواہش ۔۔۔ یہ چلن اب بدلنا چاہیے۔۔۔غریبوںکی قسمت بھی بدلنی چاہیے یہ نظام۔۔۔یہ سسٹم ۔۔یہ ماحول تبدیل ہونا چاہیے۔جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچنے چاہییں معلوم نہیں عوام کی اکثریت اس اندازسے سوچتی بھی ہے یا نہیں جو ہر انتخابات میں ازمائے ہوئے لوگوںکو پھر ووٹ دے دیتے ہیں اس کا نتیجہ وہی نکلنا یقینی ہے جو ہمارے سامنے ہے جس ملک میں سیاسی جماعتیں مسلک بن جائیں وہاں اس سے بھی زیادہ خوفناک صورت ِ حال پیداہو سکتی ہے عوام کا شکوہ،غصہ،ناراضگیاں،شکوے اور شکائتیں کیسی؟یہ اٹل حقیقت ہے انسان جو بوتاہے وہی فصل کاٹنا پڑتی ہے اگر جاہل،مطلب پرست،طوطا چشم اورکرپٹ لیڈر ہی ہمارا انتخاب ہے تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔
تحریر: ایم سرور صدیقی