counter easy hit

گھروں کو گھر رہنے دیں

House

House

تحریر: ممتاز ملک۔ پیرس
جانے کیا بات ہے ہم ایشین لوگ اپنے گھروں کو بڑے ہی فوجی انداز میں منظم کرنے کے چکر میں نہ صرف اپنے گھروں کا سکون غارت کرنے کا باعث بن جاتے ہیں بلکہ اپنی دانست میں ہم جن گھر والوں کو حفاظت یا پروٹیکشن مہیا کر رہے ہوتے ہیں ان کی محبتوں کے بجاۓ انہیں کی نفرتوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں ۔کسی اکیڈمی یا انسیٹیوٹ کے لیۓ تو یہ بات نہایت موزوں نظر آتی ہے کہ ہم ایک خاص وقت کا تعین کر دیں کہ کتنے بجے جاگنا ہے ،کتنے بجے اٹھنا ہے ،کب برش کرنا ہو گا، کتنے بجے ناشتے کی میز پر موجود ہونا لازمی ہے، کتنے بجے کے بعد ناشتہ نہیں ملے گا۔ آج آپ کو سوٹ ہی پہننا ہے ۔ آج کون سے جوتے پہننے لازمی ہیں کھانے میں فلاں فلاں دن بس فلاں مخصوص چیز ہی پکے گی ، اتنے بج کر اتنے منٹ پر یہ کرنا ہے اتنے بج کر اتنے منٹ پر وہ کرنا ہے ۔ اور اتنے بجے تک آپ کو ہر قیمت پر آنکھوں کو حکم دینا ہے کہ نندیا آجا ری آجا۔

اف خدایا !یہ بھی کوئ گھر میں اپلائ کیۓ جانے والے رولز ہیں ہاں کچھ قواعد و ضوابط گھروں کے لیۓ بھی ہوتے ہیں ۔ ہونے بھی چاہیئں مگر اس حد تک کہ انسان خاص طور پر بچے اپنے گھر سے یا ماں باپ سے نہ صرف بیزار ہو جائیں بلکہ خدانخواستہ باقاعدہ باغی بھی ہوتے دیکھے گۓ ہیں ۔ گھروں کو دنیا کے دکھوں سے پاک ایک محبت بھرا جاۓ پناہ ہونا چاہیۓ ۔نہ کہ جیل ۔ ٹائمنگز تو جیلوں میں ہوا کرتی ہیں ۔ ماں باپ اور بہن بھائیوں والے گھر تو ایک دوسرے سے شرارتیں کرتے ،چھیڑ چھاڑ کرتے ،قہقہے بکھیرتے ،ایک دوسرے سے اپنی پریشانیاں اور غم بانٹتے ،ایک دوسرے کی خوشیوں میں دل سے خوش ہوتے ہوۓ ہی اچھے لگتے ہیں ۔ گھر چاہے امیر کا محل ہو یا غریب کی جھونپڑی ،گھر تو گھر ہوتا ہے محبت کی دال روٹی میں جو سکون ہوتا ہے وہ نفرت اور طعنوں کے بیچ دیۓ گۓ مرغ مسلّم میں بھی کبھی نہیں ہوسکتا۔

Parents

Parents

اولاد کے لیۓ ماں باپ کی گود کی گرمی اور سینے کی لپٹ میں وہ سکون اور حفاظت کاوہ احساس ہوتا ہے جو دنیا کو کوئ بڑے سے بڑا ڈیفنس سسٹم بھی نہیں دے سکتا ۔ ہم کہیں بھی جائیں جب لوٹ کر اپنے گھر آتے ہیں ، چاہے وہ کیسا بھی کیوں نہ ہوں ہمیشہ شکر کا کلمہ ادا کرتے ہیں کہ یا اللہ شکر ہے کہ ہم اپنے گھر خیر سے پہنچے ۔

اسی لیۓ کہ گھروں کی قیمت اس کے اینٹ گارے یا اس میں رکھے فرنیچر کے قیمتی ہونے سے کبھی نہیں لگائ جاتی بلکہ اس کی اصل قیمت کا اندازہ تو اس گھر کے سکون اور محبت سے لگایا جاتا ہے ۔ کئ لوگ گھروں میں انگریزوں کی دیکھا دیکھی ٹائمنگ اور مینجمنٹ دکھانے کے لیۓ اس حد تک سختی پر اتر آتے ہیں کہ وہ بچوں پر ذہنی یا جسمانی تشدد تک کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔

اس سے ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر والدین اپنی بات منوا بھی لیتے ہیں لیکن کیوں کہ اس بچے کو آپ نے اپنی زبان سے دلائل سے قائل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تو گویا اس بچے نے وقتی طور پر آپ کی مار سے بچنے کے لیۓ وہ بات مان تو لی لیکن صرف اس وقت تک جب تک کہ وہ آپ کا محتاج ہے یا جب تک وہ با اختیار نہیں ہو جاتا ۔ جیسے ہی اسے اپنے رہنے اور زندگی گزارنے کے لیۓ آپ کا کوئ نعم البدل ملے گا وہ پُھر سے آپ کی شاخ سے اڑ جاۓ گا ۔ اور آپ کو مڑ کر دیکھنا بھی اسے تکلیف دہ لگے گا۔ کیوں کہ آپ کی ذات سے اس کی کوئ نہ کوئ ذخمی یاد ہی جڑی ہو گی۔ جسے وہ تازہ نہیں کرنا چاہے گا۔

School Events

School Events

اس صورتحال سے بچنے کے لیۓ ضروری ہے کہ بچوں کو مذہب اور اخلاق کے دائروں میں رہتے ہوۓ سانس لینے کی ، زندگی گزارنے کی ، اپنا کیریئر چننے کی آزادی دی جاے ۔ اپنے سکول کالج کے دنوں کی جائز تقریبات میں حصہ لینے کی اجازت دی جاۓ۔

کبھی ان کا دل اپنی روٹین سے ہٹ کر کچھ کرنے کو چاہ رہا ہے اور اس سے کسی کا کوئ نقصان بھی نہیں ہے تو انہیں کرنے دیا جاۓ ۔ان کے پسندیدہ کھیل کھیلنے یا دیکھنے کی آزادی دی جاۓ۔ دیکھیۓ گا کہ آپ کے گھر میں کس قدر سکون اور خوشی شامل ہو جاۓ گی ۔ یاد رکھیۓ ماں باپ اور بہن بھائ بھی ہمیشہ اکٹھے یا ایک ہی چھت کے نیچے تو نہیں رہتے ۔لیکن یہ ساتھ گزارے ہوۓ دن اگر محبت بھرے ہوں ۔خوشگوار ہوں تو زندگی کی کئ چوٹوں کو سہنے کا حوصلہ ضرور دے جاتے ہیں۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر: ممتاز ملک۔ پیرس