تحریر:ابنِ نیاز
کمال کا سوشل میڈیا ہے۔ حکومت نے اعلان کیا یا نہیں کیا، لیکن سوشل میڈیا پر دہشت گردوں کی پہچان کے بارے میں کچھ جملے یوں وائرل ہوئے جیسے گھر گھر کسی کے گھر کے اجڑنے کی خبر پھیلتی ہے۔ میں وہ پہچان پڑھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ کیونکہ شاید ہر دوسرا نہیں تو تیسرا مسلمان ان نشانیوں پر سو فیصد پورا اترتا ہے، تو کیا ڈیڑھ بلین سے زیادہ مسلمانوں میں سے ایک تہائی مسلمان دہشت گرد ہیں؟ افسوس ہوا اور بہت افسوس ہوا اس سوشل میڈیا پر، خاص طور اس کے شیئر کرنے والے پر۔ اور پھر سونے پہ سہاگہ والی بات کہ بنا سوچے سمجھے اس کو ہر دوسرا تیسرا فرد شیئر کرنے لگ گیا۔ کسی نے نہیں سوچا کہ یہود، ہنود یا قادیانی سازش ہو سکتی ہے؟ کسی نے غور نہیں کیا کہ سب سے زیادہ دہشت گردی کون کر رہا ہے۔ ان کی کوئی نشانی بھی نہیں۔ کیونکہ ان کی نشانی بتانا کارِ سرکار میں مداخلت ہوگی۔
شام میں معصوم مسلمانوں پر دن رات بم برسائے جا رہے ہیں، انہیں گولیوں سے اڑیا جا رہا ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ یہ دہشت گردی مسلمان کر رہے ہیں۔ نائیجیریا میں ایک تنظیم بوکو حرام نے تباہی مچا کر رکھی ہوئی ہے جو بظاہر مسلمان نظر آتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دہشت گرد مسلمان ہیں۔ اگر بوکو حرام مسلمان ہوتی تو کیا مسلمانوں کو نشانہ بناتی۔داعش نے ایک مسجد پر خودکش حملہ کروایا۔ ان سے پوچھا گیا کہ مسجد ہی کیوں؟ جواب تھا کہ ہم نے مسلمانوں پر حملہ نہیں کیا بلکہ وہاں غیر مسلم سیاح آتے تھے ان پر حملہ کیا۔ کمال کی بات ہے۔ اسی مسجد سے پانچ سو میٹرکے فاصلے پر ایک عدد سابقہ چرچ اور موجودہ سیاحت کا مقام ہے، جہاں سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے۔اس مسجد کی دوسری طرف پر ایک عدد کلب بنا ہوا ہے، جس میں سیاحوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اس مسجد سے کوئی ایک کلومیٹر کے فاصلے کے اندر ایک عدد قحبہ خانہ بنا ہوا ہے، وہاں اگر سیاح نہیں ہوں گے تو کون آئیں گے۔ لیکن داعش کو مسجد ہی نظر آئی سیاحوں کو اڑانے کے لیے۔اور پھر وہ کہتے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔نشانیاں کیا تھیں؟ آپ بھی پڑھ لیں۔ وہ دہشت گرد سترہ سے بیس سال کی عمر کا ہو گا۔ اس کے ہونٹ مسلسل ہل رہے ہوں گے۔ اسکا رنگ زردی مائل ہو گا۔ اس کے ہاتھ اس کے جسم سے فاصلے پر ہوں گے۔ اس کی داڑھی ہو گی۔ہے نا افسوس کا مقام۔
ہر اچھے گھر میں جہاں بے شک مومنانہ صفات کے والدین نہ رہتے ہوں لیکن مسلمان ہوں، نماز روزہ حج زکٰوة کی پابندی ہو۔ دین کے دیگر احکامات کی بھی پابندی کی جاتی ہو۔ بے شک دنیا دار ہوں تو اس گھر میں جو سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان ہو گا اس کو ذکر کی عادت ہو گی۔ تو ذکر تو چیز ہی ایسی ہے کہ بندہ اٹھتے بیٹھتے کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ کا ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ بے شک اٹھتے بیٹھے چلتے پھرتے دائیں کروٹ یا بائیں کروٹ اللہ کا ذکر کیا کرو۔ اور یہ تذکرہ ہے ایمان والوں کا۔ تو جو اللہ کا بندہ پانچ وقت کی نماز باجماعت پڑھے، رمضان المبارک کے روزے تواتر کے ساتھ اور اچھی طرح سے رکھے۔ اڑھائی فیصد زکوٰة باقاعدگی سے ادا کرے اور جب استطاعت ہو تو حج بیت اللہ ادا کرے۔ جب کوئی یہ سب کرے گا تو اللہ کا ذکر کیسے نہ کرے گا۔ ایسے گھرانے میں پیدا ہونے والے افراد بھی ظاہر ہے اسلامی تعلیمات کے پابند ہی ہوں گے۔ تو کوئی بتائے کہ وہ نوجوان سترہ اٹھارہ سال کا کیا دہشت گرد ہو گا۔ واہ!کیا معیار ہے دہشت گرد کی پہچان کا۔ جب ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔ یا پھر کہا گیا کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون دو۔ تو ذکر کرنے والا بآوازبلند ذکر تو کسی محفل میں ہی کر سکتا ہے جہاں سب ذکر کر رہے ہوں۔ انفرادی حیثیت میں تو وہ ذکر خاموشی سے ہی کرے گا۔ذکر کرتے ہوئے ہونٹ تو ہلتے ہی ہیں۔ تو پھر یہ کون ہوتے ہیں ذکر کرنے والو ں کو دہشت گرد کہنے والے؟
جس طرح صحت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اسی طرح بیماری بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ خدا نخواستہ بندہ کسی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔اس کا خون نکلتا ہے۔ علاج کرانے پر لازمی تو نہیں کہ اس کو اسی طرح کی صحت و تندرستی اسی طرح سے ایک دم مل جائے جیسے وہ حادثہ سے پہلے تھا۔ تو کیا خیال ہے اس کے چہرے کی رنگت زردی مائل نہ ہو گی۔ وہی بندہ جو اللہ کا ذکر بھی کرتا ہے بنا کسی حادثے کے بھی کسی وجہ سے زردی مائل ہو سکتا ہے، تو کیاخیال ہے وہ دہشت گرد ہو گا۔ کیا کیا باتیں لوگوں کے ذہنوں میں آتی ہیں۔ ان لوگوں کے ذہنوں میں جو فارغ بیٹھے ہوتے ہیں۔ کیونکہ خالی دماغ کو شیطان کا کارخانہ کہاگیا ہے۔ اور شیطان کے کارخانے میں بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے تو کچھ بھی نہیں۔ سراسر شر ہی شر ہے۔تو یہ شیطان ہی تو ہے جو انسان کو دینِ حق کی راہ سے بھٹکا کر کبھی خودکش دھماکے کرواتا ہے، چاہے وہ دشمنانِ اسلام کو مارنے کے لیے ہی کیوں نہ ہوں۔ غزوۂ احد میں ایک شخص مسلمانوں کی طرف سے لڑتے ہوئے شدید زخمی ہو گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ۖ کے سامنے اس کی بہت تعریف کی۔تو اللہ کے حکم سے آپ ۖ نے فرمایا کہ وہ شخص جہنمی ہے۔ صحابہ کرام بڑے پریشان بھی ہوئے اور حیران بھی۔ دوڑے دوڑے اس مقام پر پہنچے جہان وہ زخمی شخص پڑا تھا۔ دیکھا تو اس نے اپنی ایک رگ کو اپنے ہی ہاتھ سے کاٹ لیا اور یوں وہ فوت ہو گیا۔ اگر ایک شخص باوجود مسلمانوں کی طرف سے لڑنے کے، جب جنگ ختم بھی ہو چکی ہے اپنے آپ کو مار کر جہنم کا حقدار بنا لیتا ہے تو پھر یہ خودکش حملہ آور کیسے جنتی ہوں گے۔ جو رسول پاک ۖ کے واضح احکامات کے باوجود بچوں کو، بوڑھوں کو، خواتین کو ہلاک کرنے میں پیش پیش ہوں گے۔ جواس جگہ جا کر خود کو دھماکے سے اڑائیں گے جہاں پر لوگ اللہ کے ذکر میں مصروف ہوں گے۔ تو اللہ کے ذکر سے روکنے والوں کو جہنم کی خبر سنائی گئی ہے نہ کہ جنت کی۔
اب بات ہو جائے داڑھی کی۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم الانبیاء حضرت محمد ۖ تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام آئے۔ سب کا چہرہ مبارک داڑھی سے مزیّن تھا۔سب کے جو جو ساتھی تھے، سب کی داڑھی تھی۔ اب بات آتی ہے قرون ِ آخر کے لوگوں کی۔ تو جو لوگ رسول پاک ۖ کی تعلیمات کو اپناتے ہیں یاان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کا دل کرتا ہے کہ ان کا چہرہ بھی داڑھی سے مزین ہو۔ چاہے چھوٹی ہو یا بڑی۔ ایک مشت ہو یا ایک بالشت۔اس سے فرق نہیں پڑتا۔ لیکن چہرے پر داڑھی ہونا تو سنتِ رسول ۖ ہے۔ پچھلے دنوں تاجکستان میں دینی شعائر میں سے تین پر پابندی لگائی گئی۔ جن میں حج ،حجاب اور داڑھی شامل ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ حکمران کس کے حکم کی پیروی کررہے ہیں۔ لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اللہ کے دربار میں ان کے اعمال جب تولے جائیں گے تو جن جن کی داڑھیاں زبردستی منڈوائی گئیں، وہ اللہ سے کہیں گے کہ انھوں نے تو اللہ کے رسول ۖ کی سنت سے اپنے چہرے کو سجایا تھا۔ اس بدبخت نے ان کے چہرے کو اتنا خراب کر دیا کہ وہ آج قیامت کے دن رسول پاک ۖ کو چہرہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ داڑھی تو شعائر ِ اسلام میں سے ہے۔ فرض ہے، واجب ہے یا سنت۔ یہ علمائے حق جانیں، مفتیان کرام جانیں۔ مجھے تو یہ معلوم ہے کہ رسول پاک ۖ نے اپنے چہرہ انور پر سجائی تھی۔ تو میں اسکا ادنیٰ امتی ہونے کے ناطے اپنے چہرے پر کیوں نہ سجائوں۔ تو کیا ہر داڑھی رکھنے والا دہشت گرد ہو گا؟ ساتھ میں اگر وہ اللہ کا ذکر بھی کر رہا ہو، اور اسکی صحت بھی کمزور ہو کہ اس کی رنگت زردی مائل بھی ہو اور بدقسمتی سے اس کی عمر بھی سترہ سے بیس سال کے درمیان ہو۔
ہر گز نہیں ۔ دہشت گردی مسلمان ہر گز نہیں کرتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام کے غدار ہیں۔ جنہیں احادیث میں خوارج کہا گیا ہے۔”وہ کم سن لڑکے ہوں گے” ۔ ”دماغی طور پر ناپختہ ہوں گے” ۔ ”گھنی داڑھی رکھیںگے”۔ ”ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا”۔ ”وہ عبادت اور دین میں بہت متشدد اور انتہا پسند ہوں گے”۔ ”وہ لوگوں کو قرآن کی طرف بلائیں گے لیکن قرآن کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا”۔ ” وہ بظاہر بڑی اچھی باتیں کریں گے ”۔ ”ان کے نعرے اور ظاہری باتیں دوسرے لوگوں سے اچھی ہوں گی اور متاثر کرنے والی ہوں گی”۔ ”مگر وہ کردار کے لحاظ سے بڑے ظالم، خونخوار اور گھنائونے لوگ ہوں گے”۔ وہ حکومت وقت یا حکمرانوں کے خلاف خوب طعنہ زنی کریں گے اور ان پر ضلالت و گمراہی کا فتویٰ لگائیں گے ”۔ ” وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے”۔ ”وہ ناحق خون بہائیں گے۔”۔۔ یہ چند معمولی سی نشانیاں میں نے لکھیں۔ احادیث میں تفصیل سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ تو بتائے پھر دہشت گرد کون ہوا؟ ہر تیسرا مسلمان یا یہ لوگ حدیث کے مطابق تمام مخلوق میں سے بدترین لوگ ہیں؟
تحریر:ابنِ نیاز