تحریر: حافظ طلحہ سعید
اللہ کی رحمت،نصرت اور تائید و توفیق کے ساتھ تقریبا پون صدی گزرنے کے باوجود بھی بھارت جدوجہد آزادیٔ کشمیر کو دبا نہیں سکا بلکہ اس کے برعکس اللہ کے فضل سے اہل کشمیر کا جذبۂ آزادی روزبروز افزوں تر ہی ہوتا جارہا ہے۔ اسی طرح اہل پاکستان بھی اپنی شہ رگ کشمیر کو دشمن کے پنجے سے آزاد کروانے کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت بھرپور طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں کشمیر کی تحریک آزادی میں زبردست قسم کی تیزی آئی ہے۔
کشمیری قوم کی طرف سے پاکستان سے والہانہ محبت کے نت نئے مظاہرے دیکھنے کو ملے ہیں۔اہل پاکستان کی اس عمدگی کے ساتھ تحریک آزادیٔ کشمیر کو پروان چڑھانے کی وجہ سے بھارت کو اپنے قدموں تلے سے زمین کھسکتی نظر آنے لگی ہے، اس لیے اب وہ اہل پاکستان کو اس عمدہ تحریک کی حمایت سے باز رکھنے کے لیے گھٹیا ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ کبھی بلوچستان و کراچی کی بدامنی سمیت دیگر پاکستانی مفادات کے خلاف مذموم سازشیں اور کبھی تکفیریوں اور خارجیوں کو استعمال کر کے بھارت، پاکستان سے کشمیریوں کی جدوجہد کی اصولی حمایت کا بدلہ چکانا چاہتا ہے۔ 16دسمبر 2014ء کو پشاور میں سکول کے بچوں کو خون میں نہلا کر بھارت نے سفاکیت اور ذلالت کی انتہا کردی اور اب ایک بار پھر باچا خان یونیورسٹی چار سدہ میں حملہ کر کے فرعونیت اور چانکیائی سیاست کے پیروکار ہونے کا ثبوت دیا۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ کشمیر اور اہل کشمیر کے لیے جو جذبات و احساسات پوری پاکستانی قوم نے پیش کیے وہ جذبات پاکستانی میڈیا اور سیاستدان پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں ۔بدقسمتی سے یہ بات پورے طور پر محسوس کی گئی ہے کہ جہاں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی میں اہل پاکستان نے اپنا خون اور اپنے جگر گوشے پیش کیے، وہاں پاکستان کے بعض حکومتی و غیر حکومتی سیاستدانوں اور کچھ میڈیا ہاوسز نے زمینی حقائق سے بالکل برعکس نہایت غیر ذمہ دارانہ طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی زبان بولنے کی ناکام کوشش کی۔
کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے بعدبھارت کی شروع دن سے ہی یہ کوشش رہی کہ کشمیر کی وجہ سے پاکستان کوسقوط ڈھاکہ،سانحہ پشاور اور چارسدہ جیسے سانحات سے دوچار رکھا جائے اورعالمی میڈیا پر بھارت کے حق میں ایسا پروپیگنڈہ کروایا جائے کہ اگر پاکستان کشمیر کی تحریک کو ترک کر دے تو بھارت بھی پاکستان میں تخریب کاری کے سلسلوں کو ختم کر دے گا تاکہ اہل پاکستان و اہل کشمیرکی سو فیصد حق پر مشتمل کشمیر کی عمدہ تحریک کو بھارت کے گھٹیا ہتھکنڈوں کی لائن میںیا اس کی مماثلت میں دیکھا جانے لگے۔
اس کی مثال تو بالکل یوں بنتی ہے کہ جیسے ایک گھر پرناجائز قبضے کے لیے ڈاکو حملہ آور ہوں وہ اس پر غاصبانہ قبضہ کریںاور گھر والوںکی عزت بھی برباد کریں اور پھر وہ گھر والے اگر اپنی عزت اور اپنے گھر کو بچانے کی کوشش کریں تو ڈاکو (اس گھر والوں) کو کہیں کہ تمہیں اپنا گھر اور عزت بچانے کا کوئی حق نہیں۔( گھر پر قبضہ کرنے اور عزت برباد کرنے میں) تم ہمیں کچھ نہ کہو، ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ اگر تم اپنا گھر بچانے کی کوشش کرو گے تو پھر ہم تم کو دنیا سے دہشت گرد کہلوائیں گے۔اس وقت باہر سے یا گھر والوں میں سے ہمارے سیاستدانوں جیسا کوئی شخص گھروالوںکو ہی دہشت گرد سمجھتے ہوئے اپنے گھر کا قبضہ چھڑانے سے منع کرے یا دھوکے باز صفت کے حامل دشمن سے مذاکرات کی باتیں کرے تو ایسے میں کیا کوئی بھی دانا شخص اس کو دانشمند سمجھے گا ؟؟؟ قطعا نہیں۔
اللہ کا دین بھی ایسے طرزعمل کی شدید مذمت کرتا ہے کیونکہ جو قوم غیرت سے عاری ہونے کو پسند کرتی جاتی ہے اللہ کو یہ بات اتنی نا پسند ہے کہ پھر اللہ تعالی بھی عذاب کے طور پر ان کے دشمن کو ان پر مزید تسلط دیتا رہتا ہے ۔فرمایا : ان اللہ لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما بانفسھم ۔۔۔(الرعد آیت ١١) چنانچہ اسلام و پاکستان دشمنوں سے متاثرہوئے اس قسم کے لوگوں کو یہ بات کبھی سمجھ نہیں آ سکتی کہ پاکستان کی شہ رگ کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقصد درحقیقت پاکستان کو کمزور کرنا اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے۔
فی الحقیقت اسلام و پاکستان دشمن قوتوں نے یہ بھانپ لیا ہے کہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی سے نظریہ پاکستان یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو تقویت مل سکتی ہے۔ جس سے یہود و نصاریٰ و ہندو بت پرستوں کے ایجنڈے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ آج جب کشمیر کے لال چوک میں یہ نعرہ لگتا ہے کہ ”کشمیریوں سے رشتہ کیا… لا الہ الا اللہ” تو آج بھی انھی انگریزوں اور ہندوؤں کو موت پڑتی ہے جن کو تحریک پاکستان کے نتیجے میںپاکستان کے معرض وجود میں آنے پر شدید تکلیف ہوئی تھی، اسی لیے آج بھی وہی انگریز اور ہندو، نظریہ پاکستان اور کشمیر کی تحریک آزادی میں ایک تعلق محسوس کر کے دونوں کو سبوتاژ کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے تحریک پاکستان کے نتیجے میں مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے آزاد کر کے پاکستان میں لا بسایا اور پھر شروع دن ہی سے پاکستان کی سا لمیت اور معاشی خوشحالی کو” کشمیر ”کے ساتھ منسلک کر دیا ۔ اس اعتبار سے پاکستانی قوم کی مثال بنی اسرائیل کی قوم سے بہت زیادہ ملتی ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ظلم و ستم سے آزاد کر کے ایک خاص علاقے میں لا بسایا تھا اور ساتھ کی بستی والوں سے ضروری وجوہات کی بنیاد پر جہاد و قتال کا حکم دیا تھا لیکن انھوں نے مختلف انداز کی تاویلیں پیش کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم (جہاد فی سبیل اللہ) کا انکار کر دیا تھا۔قرآن مجید کی سورہ مائدہ آیت نمبر21 تا 26 تک ان کے متعلقہ احوال بیان کیے گئے ہیں۔ وہ حضرت موسیٰu سے کہنے لگے: (فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ) ”کہ اے موسی(u) آپ اور آپ کا رب دونوں جا کر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔”
چنانچہ جب حضرت موسیٰu کی نافرمان قوم نے اس بستی والوں سے جہاد کرنے سے انکار کر دیا تو پھر سورۂ بقرہ اور قرآن مجید کی دیگر سورتوں کے مطابق حضرت موسیu کی قوم پر اللہ تعالی کی طرف سے مختلف انواع و اقسام کے عذابات سزا کے طور پر مسلط ہوئے۔ ان پر طوفان بھی آئے، زلزلے بھی آئے، آپس میں باہمی لڑائیوں، فسادات اور قتل و قتال میں ہزاروں کی تعداد میں انسان قتل ہوئے۔ یہ سب کچھ ان پر اس وجہ سے ہوا کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے اعراض کیا تھا۔
مندرجہ بالا قرآن پاک کے حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ دشمنان اسلام و پاکستان کی پیروی میں اللہ تعالی کے نازل کردہ آئین کی مخالفت کرنے اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت کر کے اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کی بجائے کشمیر کی تحریک سے وفاداری کا ثبوت پیش کیا جائے تاکہ وطن عزیز پاکستان کی حفاظت اور دفاع اللہ تعالیٰ خود فرمائے اور پاکستان پر اللہ رب ذوالجلال و الاکرام کی رحمتیں نازل ہوں۔
تحریر: حافظ طلحہ سعید