تحریر: نسیم الحق زاہدی
تھر میں قحط پڑ چکا ہے لوگ افلاس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن رہے ہیں نمونیا معصوم بچوں کو بڑی بے دردی اور تیزی سے نگل رہا ہے کوئی پرسان حال نہیں حاکم وقت سردی کے باعث نرم گرم بستر پر خواب خرگوش کی نیند کے مزے لوٹ رہا ہے حال ہی میں بلاول بھٹو کے پروٹوکول نے بسمہ کو نگل لیا تھا جس پر سینئر وزیر سندھ نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ بلاول کی حفاظت زیادہ اہم اور مقدم تھی پاکستان پیپلز پارٹی کے بقول پیپلز پارٹی واحد غریبوں کی نمائندہ جماعت ہے جس کا عزم وعدہ، دعویٰ، روٹی ،کپڑااور مکان کا ہے مگر ان کی رعایا ان تینوں بنیادی ضروریات سے محروم ہیں میں اپنے کالمز میں جب بھی کسی خلفائے راشدین کی دورحکومت کی مثال دیتا ہوں تو میرے احباب فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ آج کے حکمران ان مقدس ہستیوں کی خاک پا جیسے بھی نہیں۔
اسی بات کا تو رونا ہے وہ عظیم اور مقرب ہستیاں ہونے کے باوجود ان کے اندر خوف الٰہی موجود تھا مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے چوری اوپر سے سینہ زوری۔ تھر جو اس وقت انسانی بے حسی کی تصویر بنا ہوا ہے اس کے متعلق ماہرین کا خیال ہے کہ اگر پاکستان کے جغرافیائی اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو صرف سندھ میں تھر کے مقام پر کوئلے کے اتنے وسیع ذخائرموجود ہیں کہ جن سے کم و بیش ملک میں 150سال تک اسی کوئلے سے 50ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے آدھی دنیا پر حکومت کرنے والے حضرت عمر فاروق کا مشہور قول ہے کہ اگر میری دور حکومت میں دریائے فرات کے کنارے ایک کتابھی بھوک سے مرگیا تو قیامت کے دن عمر کو اس کا بھی حساب دینا ہوگا۔
تھر کے مقام پر بھوک سے کتے نہیں انسان مرتے ہیں خوراک کی قلت کی بدولت خواتین کا وزن 40سے 45کلوہوتا ہے اور پیدا ہونے والا بچہ 1سے ڈیڑھ کلوتک کا ہوتا ہے کھانے کو، پہننے کو اور پینے کو کچھ نہیں آج کہاں ہیں وہ انسانی حقوق کا ڈنڈورا پیٹنے والی NGO’sجو ایک کتے کے مرنے پر واویلہ کرتی ہیں وہ متحرک میڈیا جو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت آسمان سر پر اٹھالیتا ہے آج انسانوں کی اذیت ناک اموات پر خاموش کیوں ہیں؟روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے آج کہاں چھپ گئے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک مرتبہ اپنی بچیوں سے ملنے گئے تو دیکھا کہ جو بچی ان سے بات کرتی وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیتی ہے سبب دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ان بچیوں نے آج صرف دال اور پیاز کھائی ہے روکر عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ تم انواع اقسام کے کھانے کھائو اور تمہارا باپ جہنم میں جائے؟۔
یہ سن کر وہ بھی روپڑیں اس وقت آپ جب روح زمین کی سب سے بڑی سلطنت کے حکمران تھے ان کی ذاتی ملکیت کا یہ حال تھا کہ باوجود شوق حج خرچ ان کے پاس نہ تھا ۔ نوکر سے جو ان کا سچا رفیق تھا پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے ؟ اس نے کہا کہ 10/12 دینار کہ اس میں حج کیسے ہوسکتا ہے؟اس کے بعد ایک بڑی خاندانی مالیت آئی تو خادم نے مبارکباد دی اور کہا کہ حج کا سامان آگیا آپ نے فرمایا ہم نے اس مال سے بہت دنوں فائدہ اٹھایا ہے اب یہ مسلمانوں کا حق ہے یہ کہہ کر اس مال کو بیت المال میں داخل کردیا۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنی عمارت کے کم ترین عرصہ میں اس قدر کوشش کی کہ مظلوموں کو ان کا حق دلوایا ہر حق دار کو انصاف دلوایا اور ہرروز یہ اعلان کیا جاتا تھا مقروض، شادی کرنے والے ، مسکین اور یتیم کہاں ہیں لیکن ہر آدمی مال سے بے پرواہ ہوچکا تھا۔
یہ چیزیں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ خلافت میں برکت کی دلیل ہیں یہ تھے حکمران۔ مسلمان خلافت کا حامی ہے جمہوریت یہود کا نظام حکومت ہے اور موجودہ جمہوریت کو ذاتی امتیازات، ترجیحات کی بناء پر خالص مغربی جمہوریت بھی نہیں کہہ سکتے۔ جمہوریت تو لوگوں کی حکومت کو کہتے ہیں جو لوگوں کے ذریعے لوگوں کی خاطر ہو مگر یہاں تو چند لوگ خاندان ہی معتبر ٹھہرے ہوئے ہیں ایک طرف تو پروٹوکول پر لاکھوں روپے خرچ ہورہے ہیں دوسری طرف لوگ ایک وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں یہ ہے اسلامی جمہوریہ ریاست کی رعایا؟ کیا حاکم ایسے ہوتے ہیں؟ آج پاکستان کو اس حالت میں لانے والا یہ وڈیرہ جاگیردارانہ نظام ہے جس نے اس ملک کی جڑوں کو کاٹ کر رکھ دیا ہے جس دن اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہوگیا۔
اس دن یہ ملک دنیا کے کامیاب ترین ممالک کی نمائندگی کرے گا مگر یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب قیادت بے لوث ہوگی پاکستان دنیا کی تاریخ میں وہ واحد ملک ہے جو کہ محض سات سال کی مختصر مدت میں معرض وجود میں آیا وجہ قیادت بے لوث تھی اس قیادت میں آج کی طرح اقتدار کے پجاری لوٹے ، کڑچھے ، چمچے نہیں تھے۔ فرمان علی ہے کہ ”کفر پر قائم معاشرہ چل سکتا ہے مگر ناانصافی پر قائم نہیں”۔ آج ہمارا پورا نظام ہی ناانصافی، ظلم و بربریت، تشدد، اجارہ داری کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اسلام نے اسی امتیازات، ترجیحات، خواہشات کا خاتمہ کیا تھا مگر افسوس کہ ہم نے اسلام کے نام پر ملک تو حاصل کرلیا مگر اسلام کو نافذ نہ کرسکے اگر یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوتا تو یہاں انسان تودور کی بات ایک کتا بھی بھوک سے نہ مرتا۔
گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب
بچی کسی مزدور کی فاقوں سے مرگئی
تحریر: نسیم الحق زاہدی