پیرس (زاہد مصطفی اعوان سے) سویڈن میں مہاجر کے ہاتھوں لڑکی کے قتل کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں گزشتہ جمعے کی شب تقریباً پچاس سے ايک سو کے درمیان افراد نے چہروں پر ماسک پہن کر بظاہر غیر ملکی دکھنے والے افراد کو مارا پیٹا اور پرچے تقسیم کیے جن پر لکھا ہوا تھا، شمالی افریقہ میں سڑکوں پر رہنے والے بچوں کے ليے ایسی سزا جس کے وہ حقدار ہیں۔
یہ واقعہ شہر کے مرکزی علاقے سرگلز ٹورگ پلازہ پر پیش آیا۔ان ’’نسل پرست‘‘ حملوں کی ویڈیوز پر بہت سے مقامی شہری حیرت زدہ رہ گئے۔ چند دیگر يورپی ریاستوں کی طرح سویڈن کو بھی ریکارڈ تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد کے سبب ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔ مقامی افراد میں ایک طرف تو انسانی ہمدردی کا جذبہ اور مستحق پناہ گزینوں کی مدد کی خواہش پائی جاتی ہے۔
جبکہ دوسری جانب یہ احساس بھی موجود ہے کہ ملک کا بنیادی ڈھانچہ فی کس آمدنی کے لحاظ سے يورپی يونین میں کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے کے قابل بھی رہ سکے گا۔ عنوان تلے رپورٹ میں متعدد مسائل کا ذکر کیا گيا ہے، جن میں مہاجر کیمپوں کو نذر آتش کیے جانے کے واقعات کے علاوہ معاشرتی اور مذہبی کشیدگی کے واقعات شامل ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ نے زیادہ تر مسائل کا ذمہ دار سوشل ڈیموکریٹ وزیر اعظم اسٹیفان لووین کو قرار دیا ہے۔ میڈیا کے مطابق حکومت نے پناہ گزینوں سے منسلک مسائل کو کم کر کے بیان کیا ہے۔ 26 جنوری کے روز چھپنے والے ایک ايڈیٹوریل میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ جرائم میں ملوث پناہ گزینوں کو ملک بدر کر دیا جائے۔
يہ تجويز 22 سالہ الیکزينڈرا میژر کے قتل کے ايک روز بعد چھاپی گئی تھی۔ میژر لبنانی نژاد ايک سماجی کارکن تھیں، جنہیں مولنڈال شہر کے ایک مہاجر کیمپ میں ايک پندرہ سالہ پناہ گزین نے اس وقت ہلاک کر دیا، جب انہوں نے نابالغوں کے اس مرکز میں لڑائی رکوانے کی کوشش کی۔ سویڈش حکام کو پہلے ہی سے بہت سے مسائل کا سامنا ہے، جن میں ريئل اسٹیٹ کی آسمان کو چھوتی قیمتیں، رہائش کے لیے مکانوں کی کمی، اساتذہ اور نرسوں کی انتہائی کم آمدنیاں اور نرسنگ ہومز کی قلت شامل ہیں۔ ریکارڈ تعداد میں مہاجرین کی آمد کے سبب یہ مسائل اور بھی گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔