انسانی زندگی کوشش اور جدوجہد سے عبارت ہے اگر سعی و کوشش کو زندگی سے نکال لیا جائے تو حیاتِ انسانی کی پوری سرگزشت ایک بے کیف اور بے مقصد داستان بن کررہ جاتی ہے۔ کائنات کی ہر شئے کسی نہ کسی مقصد کے لیے مصروف عمل ہے جب تک منزل متعین نہ ہو سفر ممکن نہیں ہو سکتا۔ سفر کسی منزل کی کوشش کے تابع ہوتا ہے اگر منزل میں دل کشی ہے تو منزل خود مسافر پیداکرئے گی گویا منزل وہی پاتا ہے اور اسی کے استقبال کے لیے منزل کی راحتیں اور بہاریں بے چین ہوتی ہیں جو چلتا ہے ، جو مصروف عمل ہوتا ہے۔ جو کاہل ہوتے ہیں جن کی نگاہیں دُوسروں کے سہارے ڈھونڈتی ہیں وہ خود اپنے لیے ایک بوجھ بن جاتے ہیں اور جو لوگ اپنی دُنیا آپ بناتے ہیں اُن کے لیے زندگی کا ہر سانس عبادت بن جاتا ہے اُن کا ہر عمل قبولیت کا شرف پاتا ہے اور وہ تاریخ کا فخر بن جاتے ہیں۔
زندگی میں اُمید و یاس ساتھ ساتھ چلتے ہیں وہ شخص جو یاس کے گھپ اندھیروں میں بھی پُراُمید رہتا ہے کوشش کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا ،ایک وقت آتا ہے کہ وہ اندھیر ے چھٹ جاتے ہیں اور صبح کا روشن مطلع اُس کے لیے اُجالوں کی گود کھول دیتا ہے اور وہ جو خود اُبھرنے سنبھلنے اور نکھرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے، اندھیرے اس کی روح کی تابانیوں کو نگل جاتے ہیں اور وہ ظلمتوں ہی میں ٹامک ٹویاں مارتا رہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ذات ہے وہ ذات انسان کی ہر حال میں مدد کرتی ہے اس کی نوازشیں ہم پر بے شمار ہیں مگر اس کی رحمت بھی اس امر کو دیکھتی ہے کہ کس دل میں اُبھرنے اور سنورنے کی تمنا ہے تمنا کا نتیجہ کوشش ہوتا ہے اور جو کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کا ساتھ دیتی ہے جو اپنی حالت خود بدلنے کی آرزو نہیں کرتا وہ رحیم و کریم ذات بھی اُسے اس کی حالت پر چھوڑ دیتی ہے ۔ بقولِ شاعر
خُدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
کوئی کام ہو اس میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے دل میں اس کام کو کرنے کا سچا اور پکا ارادہ ہو۔ و ہ ادارے کے خلوص اورنیت کی سچائی کے ساتھ حصول مقصد کے لیے سخت کوشش کرے اور جب یہ دونوں چیزیں اس میںیکجا ہو جائیں تو پھر رحمت خدا وندی اس سعی و کوشش کو قبولیت سے نوازتی اور اس کی تدبیروں کو تقدیر بنا دیتی ہے۔جو فرد یا قو م اپنی دُنیا آپ پیدا نہیں کرتی، کوشش کو شعار زندگی نہیں بناتی ، صیح سالم ہوتے ہوئے بھی چلنے کے لیے بیساکھیوں کی طلبگار رہتی ہے ۔ دُوسروں کی طرف التماس بھری نظروں سے تکتی ہے وہ فرد یا قوم غیور و معزز ہرگز نہیں ہو سکتی ۔ غیور قوموں کے عزائم بلند ہوتے ہیں وہ آسمان کی رفعتوں کی خاطر میں نہیں لاتیں اُن کی اُڑان لا انتہا ہوتی ہے۔ وہ ریگزاروں، خارزاروں اور صحراوں میں باغبانی کی بنیاد رکھتی ہیں۔وہ کانٹوں کی نوک کو اپنے لہو سے سرُخی بخشتی ہیں۔ نتیجہ معلوم کہ صحرا انہیں راستہ دیتے ہیں۔ سمندر اُن کے لیے دو نیم ہو جاتے ہیں اور پہاڑوں کا سارا شکوہ اور ساری بلندی اُن کے قدموں تلے ریت کے کنکر نظر آتی ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں حقیقی شعور بیدار ہو ہماری ایسی تربیت اور اہنمائی کیلئے ایسا پلیٹ فارم میسر آئے جو ہمیں خود اعتمادی کی قوت سے ہمکنار کرے۔ ملک بھر میں کئی ایسی تنظیمیں این جی اوز محروم طبقات میں شعور کی بیداری کیلئے کام کر رہی ہیں جسمیں “سنگی فاونڈیشن”کا کام قابل رشک ہے جو پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے ۴۵ اضلاع میں قومی سطح پر علم وتحقیق کے ذریعے اپنی مد د آپ کے جذبے کو فروغ دینے کے لیے سرکردہ ہے ۔ سنگی فاونڈیشن ایک غیر سرکاری ، غیر منافع بخش ادارہ ہے جو محروم و نظر انداز طبقات کے ساتھ ملکر اداروں اور پالیسوں کی سطح پر تبدیلی کے لیے کوشاں ہے۔ سنگی فاونڈیشن کا پروگرام “آوازسماجی بیداری” محر وم و نظر انداز طبقات میں بلاتفریق جنس، نسل، ذات اور مذہب وسائل کے منصفانہ اور مساویانہ استعمال کے لیے عوام میں جو شعور بیدار کر رہا ہے اس سے خاطر خواہ نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں درپیش مسائل کا حل اسی میں ہے کہ ہر انسان کو جستجو اور تحقیق کا مکمل اختیار تفویض کیا جائے۔ معاشرے میں مثبت تبدیلی تب ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ بقول شاعر
بقا کی فکر کر و خود ہی زندگی کے لیے
زمانہ کچھ بھی نہیں کرتا کبھی کسی کے لیے