تحریر : واٹسن سلیم گل
مجھے دشمن کے بچوں کا پڑھانا ہے پہلی بار اس گیت کے بول جب میرے کانوں تک پہنچے تو میں اس گیت کی شاعری، دھن، میوزک اور آواز سے بہت متاثر ہوا۔ یہ سوچ واقعئ بہت بُلند اور وسیع ہے ۔ کہ آپ اس شخص سے جو آپ سے دشمنی کرتا ہے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور آپ اس کے بچوں کو علم کی روشنی سے آراستہ کر کے اُسے جہالت کے اندھیروں سے نکالنے کے لئے اپنا قدم بڑھتے ہیں۔ چونکہ دنیا میں عمومی طور پر ایسا نہی ہوتا اس لئے اس طرح کے گیت زیادہ توجہ حاصل کرتے ہیں ۔مگر ایک بات غور طلب ہے کہ اگر تو دشمن کے بچوں کا پڑھانے سے مراد ملک سے دہشتگردی ختم کرنا ہے اور یہ کہ دہشتگردی اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ دہشتگرد غیر تعلیم یافتہ ہیں اس لئے جلد بہک جاتے ہیں تو آج کل جو یونیورسٹی کے پروفیسرز ، ڈاکٹرز اور انجینئرز دہشتگردی کر رہے ہیں ان کو آپ اور کتنا پڑھاہیں گے؟۔ دُنیا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے لے کر جتنے بڑے بھی دہشتگردی کے واقعات رونما ہوئے ان کے زمہ دار سب اعلی تعلیم یافتہ تھے۔
پاکستان میں بھی صفورہ گوٹھ سمیت بڑی وارداتوں میں اعلی تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ ان کا نہ تو کوئ دین ہے نہ کوئ ایمان یہ صرف خوف اور دہشت پھیلا کر دنیا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ ان دہشتگردوں کی سب سے بڑی رکاوٹ ہماری بہادر افواج ہیں جو ان کو کامیاب نہی ہونے د ہتی۔ ہم اپنے بچوں کو پڑھانے اور ان کے روشن مستقبل کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ دنیا میں کتنے لوگ ہونگے جو اپنے بچوں کو لاواث اور بے سہارا چھوڑ کر اپنے دشمن کے بچوں کو پڑھاتے ہوں۔ حالانکہ یہ بہت بڑی قربانی ہے مگر قابل عمل نہی ہے۔ آج کل پاکستان میں بھی پڑھنے اور پڑھانے کا شعور بہت ہے مگر حکومتی اقدامات کم از کم میری سمجھ سے تو بالا ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔
آپ ٹی وی دیکھیں یا ریڈیو سُنے تو ہر روز آپ کو یہ سُننے کو ملتا ہے کہ مجھے دُشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے ۔ یعنی دنیا میں شائد ہی کوئ ہمای جیسی قوم ہوں کہ ہم نے اپنے بچوں کو تو پڑھانا لکھانا بند کر دیا ہے مگر اب ہم صرف دشمن کے بچوں کو پڑھاہیں گے۔ پہلے تو یہ دہشتگرد ہمارے معصوم بچوں پر حملہ کر کے سیکنڑوں بچوں کو شہد کرتے ہیں اور ہمارے تعلیمی اداروں کو برباد کرتے ہیں ۔ پھر ہمارے حکمران ان بچوں کے ماں باپ کو یہ لالی پاپ دے کر چُپ کرا دیتے ہیں کہ آپ کے بچے شہید ہیں۔ اب ان سے کوئ پوچھے کہ بھائ ان ماں باپ نے اپنے بچوں کو اسکول بیجھا تھا نہ کہ میدان جنگ میں ۔ اور اگر ملک میں دہشتگردی ہو رہی ہے تب بھی ان پھول سے بچوں کی حفاظت کی زمہ داری تو حکومت اور قانون نافز کرنے والے اداروں کی ہے۔ ہمارے یہ بچے بزدل نہیں ہیں تب ہی تو اتنے بڑے سانحات کے باوجود یہ دوبارہ اسکول پہنچ کر ان دہشتگردوں کو چیلنج کرتے ہیں اور یہ پیغام دیتے ہیں کہ ” تم ہمیں تعلیم حاصل کرنے سے نہی روک سکتے ۔ اور ہم تعلیم حاصل کر کے معاشرے کو امن کا گہوارا بناہیں گے ۔ مگر تمہاری طرح ہتھیار نہی اٹھاہیں گے”۔
ان بزدل دہشتگردوں نے بہت سے اسکولوں اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا کر ہمارے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنا چاہا مگر یہ ناکام رہے ۔ مگر حیرت انگیز طور پر جو کام یہ دہشتگرد نہ کر سکے وہ کام اب ہماری موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ اور اگر جلد ہی اس حکومت نے عقل کے ناخن نہ لئے تو ہمارے ملک میں ناخواندگی میں اضافہ ہو گا ۔ اور دہشتگرد اپنے عزائم میں کامیاب ہوجاہیں گے۔ چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کے بعد پنجاب میں تمام اسکول غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیے گئے۔ حکومت کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی عوام کی جان ؤ مال کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔ اسکولوں کو اس طرح بند کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ دہشتگرد دہشت بھیلانے میں کامیاب رہے ۔ دوسری طرف جب اسکول دوبارہ کھولنے کا حکم ہوا تو اس کے ساتھ ہی ایک نوٹیفیکیشن کی صورت میں ایک بم غریبوں پر پھینکا گیا ۔ نوٹیفیکشن میں تمام صوبوں کے سکولوں کو ہدایت جاری کی گئ ۔ کہ اسکولوں کی بیرونی دیواروں کو اونچا کیا جائے ۔ اور پھر اس پر خاردار تار کی دو فٹ اونچی باڑ لگائ جائے ۔ ہر اسکول کم از کم دو سیکیورٹی گارڈز بھرتی کرے ۔ ایک سیکیورٹی گارڈ کے لئے اسکول کی چھت پر ایک مورچہ قائم کیا جائے ۔ اسکولوں میں سی سی ٹی کیمرے لگائے جاہیں۔
بات یہاں ختم نہی ہوئ بلکہ اسکولوں کو اپنے گارڈز کو ٹرینینگ کی ہدایات جاری کی گئ ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام لوازمات کا بوجھ کون اٹھائے گا۔ ظاہر ہے یہ بوجھ غریب کے کاندھے پر آئے گا۔ یعنی ایک طرف دہشتگرد اور دوسری طرف حکومت کا نوٹیفیکشن ۔ اب امیروں کے بچے جو کُل آبادی کا دو فیصد سے بھی کم ہیں ان پر تو اس نوٹیفیکیشن کا کوئ اثر نہی پڑے گا ۔ مگر کتنے ہزار یا لاکھ بچے اس بوجھ کو برداشت نہ کرتے ہوئے تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو جاہیں گے۔ حکومت کو تو یہ بھی معلوم نہی ہے کہ صرف سندھ میں 62 ہزار اسکول ہیں جن میں 27 ہزار سے زیادہ ایسے اسکول ہیں جن کی دیواریں ہی نہی ہیں۔ وہ اس نوٹیفیکیشن کا کیا کریں گے۔ پنجاب میں 40 فیصد سے زائد اسکول ایسے ہیں جن میں بچُوں کے لئے نہ پینے کا پانی دستیاب ہے اور نہ ہی رفع حاجت کے لئے کوئ انتظام ہے۔
وفاقی حکومت کی ترجیحات کیا ہیں یہ سمجھ سے باہر ہے۔ اس وفاقی حکومت کے پاس پنجاب کے لئے تو اربوں روپئے ہیں جن سے وہ میٹرو ، اورنج ٹرین ، نندی پور پروجیکٹ جیسے بیمار منصوبے بنا رہی ہے مگر معصوم بچوں کی تعلیمی سہولیات کے لئے کچھ نہی ہے۔ یہ پنجاب میں چار دانش اسکول بنا کر خوش ہوتے ہیں ان کو یہ تک معلوم نہی کہ ان چار دانش اسکولوں کے اخراجات سے غریب بچوں کے چار سو اسکول کھولے جا سکتے ہیں۔ ہزاروں لیپ ٹاپ بانٹنے کے بجائے صرف 200 لیپ ٹاپ کی قیمت سے غریب بچوں کے لئے ایک اسکول کی عمارت بنا سکتے ہیں جس میں 4 سے پانچ سو بچے پڑھ سکتے ہیں۔ اب تو ہمارے تعلیمی اداروں میں درس ؤ تدریس کی تعلیم کم اور دہشتگردوں سے بچنے کے لئے ہتھیار چلانے ی تعلیم زیادہ سُننے میں آرہی ہے۔
تحریر : واٹسن سلیم گل