تحریر : شاہد شکیل
فلم میکرز، شوز میکرز، ڈریس میکرز، ٹربل میکرز اور کئی میکرز دنیا بھر میں موجود ہیں لیکن رین میکرز کچھ عجیب اور اچھوتا سانام لگتا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ دور جدید میں رین میکرز یعنی بارش بنانے یا پیدا کرنے والے موجود ہیں انہی رین میکرز کی تحقیق سے متحدہ عرب امارات یعنی یو اے ای دوبئی مستفید ہونا چاہتا ہے کیونکہ یو اے ای دنیا کے کئی خشک ممالک میں سے ایک ہے جہاں بہت کم بارش ہوتی ہے لاکھوں بار کوشش کی گئی کہ ایسے کون سے سائنسی فارمولے کو استعمال کیا جائے کہ دوبئی میں بھی دیگر ممالک کی طرح پانی برسے ۔ اب جا کر یو اے ای کی مراد بر آئی کیونکہ ایک جرمن ماہر موسمیات کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو رین میکرنہیں بننا چاہتا۔
جرمن محکمہ موسمیات کے ماہر فولکر وولف مائیر جو انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر بھی ہیں کا کہنا ہے یہ پروجیکٹ میرے لئے بہت اہم ہے لیکن رین میکر کا تخلص یا ٹائٹل قطعی پسند نہیں ،ہمارا نقطہ نظر موسمیات اور سائنس سے منسلک ہے جو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ کئی عرصے سے رواں دواں ہے تاہم یو اے ای کو مایوس نہیں کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق یو اے ای کے شاہی خاندانوں نے مشترکہ طور پر فولکر کی ٹیم کو پانچ میلین ڈالرز کی آفر کی کہ وہ تحقیق کریں اس ریاست میں کیوں خشکی پائی جاتی ہے ، کیوں بارش سے محروم ہیں، اس خشک موسم کو کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے وغیرہ۔
فولکر کا کہنا ہے نہ تو دوبئی میں کوئی کسی عجوبے یا سائنسی کارنامے کا انتظار کر رہا ہے اور نہ کسی کو علم ہے کہ کون کب کیسے اور کیا تحقیق کرے گا کہ بارش کب اور کیسے پیدا ہو گی، ہمارے کونسیپٹ کے مطابق دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں اور اس لئے ہماری کوشش ہو گی کہ اس خشک ریاست میں بارش کا انتظام کیا جا سکے ۔ دوبئی کے محکمہ موسمیات کا کہنا ہے ہمیں اوسطاً سالانہ ایک سو لیٹر فی سکوائر میٹر بارش چاہئے کیونکہ دوبئی میں ہی نہیں خلیج فارس کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔
جرمن ٹیم کا کہنا ہے دوبئی کے اس مسئلے کو جزوی طور پر حل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی اس سلسلے میں طویل مدتی پروجیکٹ کے ذریعے دوبئی میں بارش کا انتظام کیا جائے گا ہماری تحقیق کے مطابق ریاست میں پہلے سے گنجائش موجود ہے اور مصنوعی بادل پیدا کئے جا سکتے ہیں جو لیزر سسٹم اور ریڈار کی مدد سے مصنوعی بارش کا انتظام کریں گے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ صحراء میں کیسے بادلوں میں مصنوعی پانی کے قطرے پیدا کئے جائیں جو طویل مدت قائم رہ سکیں ،مختلف مقامات پر اس سسٹم سے کتنی گرمائش پیدا ہو گی ،ایک مصنوعی بادل کتنے عرصے تک قائم رہ سکتا ہے ، بادلوں میں ہوا کیسے داخل کی جائے گی اور سب سے اہم بات کہ تمام خلیجی علاقے کے پہاڑوں اور سمندر پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
اس سلسلے میں جرمن ماہرین نے کَرے سپر کمپیوٹر ہیسل ہین کو پروجیکٹ ماسٹر کا نام دیا ہے جو جرمنی میں اپنی نوعیت کا سب سے طاقت ور کمپیوٹر ہے اور ہائی پرفارمنس کمپیوٹنگ سینٹر میں نصب ہے اسے زیر استعمال لایا جائے گا،فولکر کا کہنا ہے ہر مصنوعی بادل نہ تو بارش پیدا کر سکتا ہے اور نہ اضافہ البتہ یہ آئڈیا کہ مصنوعی بادلوں سے بارش پیدا کی جائے نیا نہیں بہت پرانا ہے ساٹھ سال قبل سائنسدان ایروین لینگ موئیر ، ونسینٹ شیفر اور بیرن نارڈوونے گُٹ نے جنرل الیکٹرک کنسرن لیبارٹریز میں تجزئے کئے تھے پہلے انہوں نے خشک برف سے ایک تجربہ کیا اور بعد میں سلور کے مصنوعی میٹریل پر نمک چھڑک کر تجربہ کیا فائن دھول کو بذریعہ ہیلی کاپٹر اور سپورٹس طیاروں سے بادلوں تک پہنچایا جہاں کونڈینس پیدا ہوا اور بعد میں پانی کی بوندوں کا اخراج ہوا اس تجربے سے بادلوں پر مزید وزن یا دباؤ پڑنے سے مصنوعی بارش کی ابتدا ء ہوئی۔
فولکر کا کہنا ہے تھیوریٹکل سب پرفیکٹ تھا لیکن ہر بادل کے ٹکڑے پر زیادہ دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا صرف کوشش کی جاسکتی اس دور میں امریکیوں کو یہ تیکنیک پسند آئی بالخصوص امریکن آرمی جو ویت نام میں تعینات تھی انتہائی خفیہ مشن آپریشن پوپائے میں اس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جانا تھا جس سے ہو چی منہ ٹریل کو نقصان پہنچے اس ٹیکنالوجی کو بدیگر الفاظ آسمانی چھڑکاؤ (شاور) کہا جا سکتا ہے کیونکہ دوہزار آٹھ کی اولمپک گیمز میں چین اور جاپان نے مصنوعی بارش سے چھڑکاؤ کیا تھا علاوہ ازیں جرمنی اور آسٹریا میں زراعت کے پیشے میں اس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جاتا ہے۔کمپیوٹر سسٹم سے محقیقین تلاش کرنا چاہتے ہیں کہ کس قسم کے اصلی و مصنوعی بادل کے ساتھ اس نام نہاد ویکسی نیشن کا تجربہ کیا جائے جو دلچسپ اور کارآمد ثابت ہو۔
دوبئی نے جرمنی کے علاوہ جاپان کے ساتھ بھی معاہدہ کیا ہے جاپان کے موسمیاتی تحقیق کے ادارے کو بھی کئی میلین ڈالرز کے عوض بارش پیدا کرنے کی گزارش کی ہے اس سلسلے میں جاپانی ادارے ماسا تاکا مورا کامی نے آدھے درجن بزنس طیارے بیچ کرافٹ کنگ ائر سی نائنٹی دوبئی کے شہر العین میں گراؤنڈ کئے ہیں جو اس پروجیکٹ پر تحقیق کر رہے ہیں۔اعداد وشمار کے مطابق دوبئی کے ہر رہائشی کو روزانہ پانچ سو لیٹر پانی درکار ہے جبکہ یورپ کے کئی ممالک میں فی کس ایک سو بیس لیٹر پانی روزانہ استعمال کیا جاتا ہے ،دوبئی میں پانی کی کمی سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور حکومت نے بچت کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ ریاست میں ہی نہیں بلکہ خلیج فارس کے مسائل حل ہو سکیں۔
سعودی عرب کے سرحدی علاقوں پر جنوبی کوریا کی کمپنی چار ری ایکٹروں کے ساتھ جوہری پلانٹ تعمیر کر رہی ہے جو دو ہزار سترہ میں اپنے نیٹ ورک کا آغاز کرے گی جس سے سمندری پانی کو صاف کرنے کے بعد قابل استعمال بنایا جائے گا اور صارفین کی روزمرہ زندگی میں آسانی پیدا ہو گی ۔یو اے ای نے پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے دنیا کی تین بڑی کمپنیز کو اربوں ڈالرز دے کر کنٹریکٹ کئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ امارات میں کون سی کمپنی پانی کی کمی کو پورا کرتی ہے اور کون سا رین میکر مصنوعی بارش پیدا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
دوسری طرف کئی ترقی پذیر ممالک میں سیلابوں سے ہر سال ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں پانی اور جانیں ضائع ہوتی ہیں لیکن نام نہاد حکومتوں کے سر سے جوں تک نہیں رینگتی ایک ڈیم لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بچا سکتا ہے اور توانائی کو بھی فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔
تحریر : شاہد شکیل