تحریر: میر افسرامان
جب سے ہمارے ملک میں نئے ٹی وی چینلز کھلنے شروع ہوئے ہیں ٹی وی اینکرز کی بھر مار ہو گئی ہے ۔ اس میں کچھ پرنٹ میڈیا سے منسک حضرات تھے جو ٹی وی اینکر بنے اور کئی نئے داخل ہونے والے حضرات ہیں۔ کچھ کے پاس پہلے سے عالمی حالات، ملکی معاملات اور تاریخ سے واقفیت اور تجربہ ہے اور کچھ ِادھر ُادھر سے کچھ نہ کچھ دھونڈ ڈھانڈ کے کام چلاتے رہتے ہیں۔ ہر ٹی وی چینل کی اپنی پالیسی ہوتی ہے وہ اینکرز سے اپنی پالیسی کے مطابق کام کرواتے ہیں۔ دوسری طرف اپنے اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے ترقی یافتہ ممالک دنیا کے میڈیا کے لیے فنڈ مختص کرتے ہیں۔وہ اس فنڈ کو ترقی یافتہ ممالک خاص کر اسلامی ممالک کے میڈیا کو فنڈنگ کرتے رہتے ہیں۔امریکہ نے ١١٩ کے بعد اسلام کے خلاف صلیبی جنگ چھیڑتے ہوئے جارحانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔اپنے اور اپنے زر خرید میڈیا کے زور پر پوری دنیا میں اسلام کو دہشت گرد قرار دے دیا گیاہے۔اسلامی ملکوں میں مذہب بیزار، روش خیال اور لبرل صحافیوں کو آلہ کار بنایا جاتا ہے۔ اخباری خبروں کے مطابق اس پالیسی کے تحت امریکہ پاکستان کے نجی ٹی وی چینل قائم کرنے والے مالکان اور اور میڈیا میں کام کرنے والے ،خصوصاً اینکر پرسن کو بھی فنڈنگ کی جاتی ہے تاکہ ان سے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام لیا جاسکے۔
آج کل ایک نجی ٹی وی چینل جو پہلے بھی ملک کی محب وطن مایا ناز خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر اپنے ایک اینکر پر قاتلانہ حملے کا الزام ثابت کرنے کے لیے آئی ایس آئی کے سربراہ کو آٹھ گھنٹے تک بغیر ثبوت کے قاتل ظاہر کرتی رہی۔ بھارت سے مل کر پاکستان کے خلاف امن کی آشا پروگرام نشر کرتی رہی۔ ایک کوئس پروگرام”قرارداد پاکستان کے حوالے کیا پاکستان لبرل ہونا چاہیے یااسلامی” میں عوام کی رائے کو الٹا بتا کر خیانت کر چکی ہے۔ اپنے ہی کروائے گئے سروے کے نتائج کو غلط جھوٹی شرانگیز سرخی لگا کر پیش کرنا نہ تو صحافتی انصاف ہے بلکہ بہت ہی بڑا مغالطہ بھی ہے۔حوالہ طارق جان کی لکھی ہوئی کتاب” سیکولزم مباحثے مغالطے”۔ وہی نجی ٹی وی آج کل ایک پروگرام”رپورٹ کارڈ” کے نام سے شوکررہا ہے ۔جس میں ٹی اینکرز کے سامنے پاکستان کا ایک مسئلہ رکھا جاتا ہے اور اینکرز سے اس مسئلہ پر رائے لیکر نمبرز کے ذریعے اس مسئلے پر کوئی نہ کوئی رائے ناظرین کے سامنے رکھی جاتی ہے۔پچھلے پروگرام میں ایک مختلف رنگ بدلنے والے اینکر جو پہلے بھی شہید کون کے معاملے پر ایک بڑی دینی جماعت کے امیر کو بدنام کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔اس پروگرام میں دہشت گردی کے مسئلہ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے معاملے میں اگر پاکستان کی دینی جماعتیں خصوصاً، منصورا،مریدکے لوگ جہاد کے فلسفے کو عام نہ کرتے تو موجودہ مذہبی دہشت گردی نہ ہوتی۔اس سوچ کو دوسرے لبرل، مذہب بیزار اورروشن خیال اینکر جس نے اسی نجی ٹی میں ایک فاحشہ عورت جو اپنے برہنہ جسم پر آئی ایس آئی لکھوانے والی ہے کا انٹرویو کیا تھا ،نے ا س سوچ کی تائید کی۔یہ دونوں اینکر ز حضرات یا تو تاریخ سے نابلد ہیں یا پھر کسی خاص ایجنڈے پر کام کرتے ہیں ۔
روس ایک بڑتی ہوئی قوت تھی جدید روس کے بانی پیٹر اعظم (ایڈورڈ) نے اپنی قوم کو وصیت کی تھی کہ جو قوم خلیج پر تسلط قائم کر لے گی وہ ہی دنیا کی سپر پاور ہو گی. حوالہ ” کتاب ترکستان میں مسلم مذاحمت” زیر احتمام انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد مصنف آباد شاہ اور” ہفت روزہ زندگی”لاہور18تا22 جنوری 1980 مقالہ برگیڈئیر گلزار احمد 300 سال پرانا روسی منصوبہ ص18 وصیت نمبر9”۔ اس ڈاکڑائن پر عمل کرتے ہوئے زار روس اور کیمونسٹ روس نے وسط ایشیا کی مسلمان ریاستیں ترکی سے چین تک تقریباً تین سوسال میں ترکوںسے لڑ کر حاصل کی تھی اور آگے بڑھتے ہوئے افغانستان کی سرحد کے قریب دریائے آمو تک پہنچ گیا تھا۔افغانستان میں اپنے پٹھوظاہر شاہ، دائوداور دوسرے حکمرانوں کے ذریعہ قبضے کی پلاننگ کے تحت ببرک کارمل کو روسی ٹینکوں پر بیٹھا کر روس میں داخل کر دیا۔سرحدی گاندھی کے پیرواور عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکر ٹیری اجمل خٹک نے اسی ضم میں مبتلا ہو کر پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ ہم روسی ٹینکوں پر چڑھ کر پاکستان میں داخل ہو نگے۔ اسی دوران روس کی افغانستان میں مداخلت کی بُوسونگ کر کچھ افغانی پاکستان کے حکمران بھٹو کے پاس آئے تھے اور سارا قصہ بیان کیا تھا۔ بھٹو ایک ذہین اور تاریخ سے واقف شخص تھا وہ روس کے عزائم سے بھی باخبر تھا۔
بھٹو نے افغانیوںکی مدد پاکستانی اسلحے کے بجائے درے کا اسلحہ خرید کر کی تھی۔ افغانیوں نے روس کے خلاف اپنے ملک کو بچانے کے لیے مذاحمت شروع کی۔ اس دوران افغانستان کے حکمران دائود نے بھی پاکستان کا دورا کیا تھا۔اس پر ناراض ہو کر روس نے اسے قتل کرادیا تھااور افغانستان میں اپنے فوجیں داخل کر دیں تھیں۔ سرحدی گاندھی کے سرخ پوش پیروں کاروں، کیمونسٹ،لبرل بھارت اور روس کے ایجنٹوں نے پاکستان کے لوگوں کو روس سے ڈرایا تھا کہ وہ وہ جہاں داخل ہوتا ہے وہاں سے واپس نہیںجاتا اور میں سرخ ٹینکوںپر بیٹھ پاکستان میں بھی داخل ہو نگا جبکہ ایک اخباری خبر کے مطابق وہ گدھے پر سوار اور
چھپ کر افغانستان سے پاکستان آیا تھا ۔ سیکرلر عناصر نے سرخ پوشوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو روس کا غلام بنانے میں پوری کوشش کی تھی ۔ بھٹو کے بعد پاکستان میں ڈکٹیٹر ضیاء پاکستان کے حکمران بن بیٹھے۔ ضیاء نے افغانستان کے متعلق بھٹو کی پالیسی پر ہی عمل کیااور افغانستان کی بھر پور مدد کی۔علماء نے اسی اسلامی جہاد کہا ۔ منصورہ اور مریدکے اور پاکستان تمام مسلمان اور مسلم دنیا کے عوام شریک ہوئے تھے۔ تین سال تک افغان مجاہد روس کی اسی درے کے اسلحے سے مزاحمت کرتے رہے۔مسلمانوںنے اسلامی جہاد کے تحت افغانستان کے مسلمانوں کی مدد کی تھی۔مخالفت میں اسی نجی ٹی وی کے یہ اینکرز اور ان کے ہم خیال، مذہب بیزار، لبرل،روشن خیال،روس نواز اور بھارت نواز سرخ پوش لوگ شامل تھے اور کہتے تھے یہ جہاد نہیں فساد ہے۔ یہ روس اور بھارت سے اس کام کے پیسے وصول کرتے تھے۔ گھر کے بیدی نیشنل عوامی پارٹی کے ایک منحرف کارکن کی کتاب”فریب ناتمام”جو کہ ایک سرخ پوش جمعہ خان صوفی نے لکھی ہے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پھر تین سال بعد امریکا اپنے مقاصد کے لیے افغان جہاد میں شریک ہو گیا۔ امریکا کے جدید اسلحہ خاص کر اسٹنگر میزائل نے کام کر دکھایا اور دنیا کی سب سے بڑی مشین روس کو افغانستان کے مجاہدین نے شکست سے دوچار کیا ۔ اس سے روس کے گرم پانیوں براستہ پاکستان آنے کے خواب چکنا چور کیا اور پاکستان کو ممکنہ روسی غلامی سے بچا لیا گیا۔ روس کوواپس دریائے آموں تک دکھیل دیا گیا۔
وسط ایشیاکی ترک مسلمانوںسے چھینی گئیںچھ اسلامی ریاستیںقازقستان،کرغیز ستان،اُزبکستان،تر کمانستان، آزربا ئیجان،اور تاجکستان کی شکل میں آزاد ہوئیں۔ مشرقی یورپ بھی روس کی گرفت سے آزادہوا۔ دیوار برلن گرا دی گئی۔بھٹو کی ترتیب دی ہوئی پالیسی اور ڈکٹیٹرضیاء اور ہماری فوج کے اسلام سے محبت رکھنے والے جرنیلوں اور آئی ایس آئی کی کامیاب پالیسی ، منصورہ ، مریدکے اور عام مسلمانوں کی مدد کی وجہ سے پاکستان بچ گیا۔ کیا ان لبرل اینکرز کے مطابق اس پالیسی پرپاکستانی قوم کو شرمندگی ہونی چاہیے یا ایک مسلمان کی سوچ کے مطابق فخر کرنا چاہیے؟ تھالی کے بیگن ،لبرل، روشن خیال اور کیمونسٹ جو روس اور بھارت کی بولیاں بولتے تھے روس کے زوال کے بعد امریکا کی گود میں ڈالر کے لیے جا کربیٹھ گئے ہیں۔
اس کا ثبوت بیگم نسیم ولی خان نے اپنے پریس کانفرنسوں میں بیا ن کیا ہے۔ اب یہ نجی ٹی وی کے اینکرز پرسن پھر سرخ پوشوں کی ہاں میں ہاں ملا کر پہلے جیسی ہی مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ بھارت اور امریکا کی بولیاں بولنا شروع کر دی ہیں۔اب بھی فاقہ مست افغانوں نے امریکا کو شکست دے دی ہے جیسے روس کو دی تھی۔امریکا افغان جنگ کو پاکستان میں لے آیا ہے۔اب بھارت اور امریکا سرخپوشوںکے حامی طالبان کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغانستان کے سرحدی علاقوں سے استعمال کر رہا ہے۔ سیکولر عناصر اور نجی ٹی وی کے اینکرز اپنے تبصروں کے ذریعے سرحدی گاندھی کے ان سرخ پوشو ں کی مدد کر رہے ہیں جو پاکستان کے خلاف پہلے کی طرح اب بھی سازشوں میں مصروف ہے۔ افغانستان کے طالبان اپنے ملک کو امریکا سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کر رہے ہیں جو ان کا حق ہے۔جیسے امریکا نے داعش کو بنایا ہے اسی طرح پاکستانی طالبان کو بھی امریکا نے بنایا تھا۔ا س کا اعلان امریکا کے سابق وزیر دفاع اپنی سینیٹ کی تقریر کے دوران وضاحت کر چکے ہیں۔ پاکستان کے عوام ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہیں ضرب عضب کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام تاریخ سے نابلد نجی ٹی وی اینکر پرسن کی عوام کی سوچ کو بدلنے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہیں۔
تحریر: میر افسرامان