تحریر : فاطمہ خان
غلام حسین صحراے تھر کی تحصیل مٹھ میں رہنے والا ایک عام سا آدمی ہے. ویسے تو مٹھی میں رہنے والے تمام لوگ ہی عام سے اور نہ نظر آنے والے لوگ ہیں جن کے مرنے اور جینے سے ہمارے بہت خاص حکمرانوں کو بالکل بھی فرق نہیں پڑتا ہاں کبھی کبھار مُٹھی والوں کے لئے وہ اکھٹے ہوجاتے ہیں اور انواع اقسام کے کھانے کھا کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں, بس اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کر سکتے,خیر ہمارے اس غلام حسین کی ایک خاص بات ہے وہ خواب بہت دیکھتا ہے.اپنے علاقے کی ترقی کے خواب,اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے خواب,اپنی گھر والی کے لئے سونے کے کنگن لینے کے خواب, آگے اور بہت آگے جانے کے ڈھیر سارے خواب…..خوابوں کی فہرست بہت طویل تھی جس میں وقتاً وقتاً وہ اضافہ کرتا رہتا تھا۔
مگر کسی قسم کی کمی بیشی کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا.اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے وہ محنت بھی بہت کرتا تھا.اس کے خوابوں کو پہلا دھچکا تب لگا جب ایک ایک کر کے اس کے سارے مویشی طویل خشک سالی کے نتیجے میں اس کی آنکھوں کے سامنے موت کے منہ میں چلے گئے اور وہ سواے آنسو بہانے کے ان کے لئے کچھ بھی نہیں کرسکا,اس کے مویشی اس کی روزی تھے اور ان کے جانے کا مطلب تھا اب وہ خالی ہاتھ ہے اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہا۔
ابھی وہ اس صدمے سے سنبھل نہیں پایا تھا.کہ قحط سالی نے اس کے گھر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر وہی ہوا جو مُٹھی کے اکثر گھروں میں ہو رہا ہے اس کے دونوں بچے خوراک کی کمی کے باعث اپنی جانوں کی بازی ہار گئے.پے در پے صدمات نے غلام حسین اور اس کی گھر والی کو بالکل توڑ کے رکھ دیا تھا.ان سب کے باوجود غلام حسین نے خواب دیکھنا نہیں چھوڑے,وہ اب مُٹھی میں موجود ایک سماجی تنظیم کے ساتھ کام کر رہا ہے, یہ خالی اس کی کہانی نہیں ہے یہ مُٹھی کے اکثر گھروں کی کہانی ہے جہاں غربت اور بیماری ڈیرے ڈال کر بیٹھی ہے مگر ہمارے حکمرانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
تھرپارکر کے مختلف علاقوں میں خودکشی کا رجھان بھی بڑھتا جا رہا ہے.پانی اور خوراک کی کمی کے باعث جو بچے مر رہے ہیں ان کے آنسو کسی کو نظر نہیں آتے.حکومت نے جتنا کام یہاں کیا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے.جو لوگ صاحب استطاعت ہیں انہیں اپنے اپنے طور پر اس علاقے کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے اور کچھ نہیں تو وہاں پانی کی فراہمی کے لئے زیادہ سے زیادہ واٹر ٹینکرز اور واٹر فلڑیشن پلانٹ کا انتظام کرنا چاہیے۔
باقی مٹھی کے بیمار بچوں کے لئے ادویات کی فراہمی کا انتظام بھی کرنا چاہیے,مگر یہ مسلہُ اتنا بڑا ہے کہ حکومت کی مدد کے بغیر حل نہیں ہو سکتا,مُٹھی میں اس وقت غیرسرکاری تنظیمیں کام کر رہی ہیں مگر بچوں کی ہلاکتوں میں کوئی کمی نہیں آ رہی.اس مسلےُ پر حکومتی بےحسی اپنے عروج پر ہے.تھر کے آنسو کسی کو دکھائی نہیں دیتے چند درد مند دل رکھنے والے لوگ اس ملک میں موجود ہیں جن کی وجہ سے وہاں کا نظام چل رہا ہے اے کاش تھر کے آنسو,صحرا کے یہ دکھ ہمارے حکمرانوں کو بھی دکھائی دے جائیں.اے کاش۔
تحریر : فاطمہ خان