تحریر : شاہ فیصل نعیم
پچھلے کچھ مہینو ں سے ہمارا دانہ پانی یورپ میں چل رہا ہے اور امید ہے کہ آنے والے کچھ دنوں تک یہی گلی کوچے ہمارا مسکن رہیں گے۔ یورپ کے اپنے نظارے ہیں مصروف دن اور رنگین راتیں یہاں کا معمول ہیں۔ تیسری دنیا میں بستے میرے جیسے لوگ یورپ کو بے حیائی کا اڈا خیال کرتے ہیں مگر میرا ماننا ہے کہ یہاں سے کہیں زیادہ حرام کاری میں نام نہاد مسلمان ملوث ہیں جو حرام کا ری کے ساتھ ساتھ منافقت کا بھی ارتکاب کرتے ہیں۔ یورپ کے لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ دنیا کے سامنے ہے وہ اس سے انکاری نہیں ہم سب کچھ کرتے بھی ہیں مگر اُس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ میں نے بھی سب سے پہلے منفی پہلو کا ذکر کیا ۔ آخر تیسری دنیا کی پیدائش ہوں نا اس لیے۔
میں یہاں جن جن شہروں، یونیورسٹیوں، تفریحی مقامات اور ملکوں میں گیا ہوںوہ کوئی دس ، بیس یا چالیس پچاس سال میں نہیں بن گئے۔ بتانے والوں میں سے کسی نے کہا یہاں دو سو سال قبل کیچڑ کے سوا کچھ نہیں تھا ، کسی نے کہاتین سو سال قبل کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہاں کبھی کوئی شہر بھی بسے گا اور کسی نے کہاچار سو سال قبل یہاں زندگی کا وجود تک نہیں تھا۔ مگر سینکڑوں سال پرانی یہ بے نام جگہیں آج دنیا کی نظروں میں ایک خاص مقام کی حامل ہیں۔ یہ مقامات ہر سال ملین اور بلین آف ڈالر کما رہے ہیں فقط سیاحت سے۔ اور سب سے بڑی بات یہاں کی درس گاہیں ان کے تو کیا کہنے بنانے والے گزر گئے مگر ان کا فیضان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ سو سال سے کم عمر کی درس گاہوں کی تو بات نہیں ہوتی یہاں تو چار سو، پانچ سو اور چھ سو سے اوپر کی باتیں ہیں۔
ہم اپنے ملک میں بیٹھ کر سارا سارا دن یورپ اور امریکہ کو گالیاں دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ اس کھوج میں بھی ہیں کہ کسی طرح ہماری کوئی سکیم کامیاب ہو جائے اور ہم رنگین نگری میں جا براجمان ہوں۔آج کس کا خواب نہیں کہ اُسے یورپ کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کا موقع ملے اور ان اداروں کو یہ عزت ملنی بھی چاہیے سینکڑوں سال سے خونِ جگر دے کر ان کے مالیوں نے اس چمنستانِ علم کی آبیاری کی ہے۔تبھی تو آج یہ گلشن چہک رہا ہے۔
میرے اُستاد کہتے ہیں :
“اگر آج یورپ مستقبل میں اپنی ترقی کی راہیں تلاش کر رہا ہے تو اُ س کا یہ کرنا بنتا ہے کیوںکہ اُس کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیںاُس کے ماضی میں تاریکی کے سوا کچھ نہیں مگر مسلمانوں کا سارا حسن و جمال ماضی میں پڑا ہوا ہے ان کو جب بھی رہنمائی ملے گی ١٤٠٠ سو سال قبل چمکنے والی شمعِ نبوت ۖ سے ہی ملے گی”۔ یورپ اگر ماضی میں جھانکے تو اُسے تاریکی، جنگ وجدل، تباہی و بربادی، دلدل اور گندگی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ اگر مسلمان تاریخ اُٹھا تا ہے تو اُس کا ماضی ایک روشن مستقبل کی نوید کی صورت اُس کے سامنے آجاتا ہے۔
یہاں ایک بات کہتا چلوں جو ہے تو مسلمانوں کے لیے مقامِ افسوس مگر کہنا ضروری ہے کہ اسلام اور مسلمان کا جو تعلق ہے وہ صرف خلفائے راشدین کے دور تک ہی نظر آتا ہے اُس کے بعد اس رشتے میں دوریاں بڑتی گئیں اور آج مقام یہ ہے کہ پچاس سے زیادہ اسلامی ممالک میں سے کوئی ایک بھی ایسانہیں جسے ہم دنیا کے سامنے ایک ماڈل اسلامی ریاست بنا کر پیش کر سکیں۔ آج مسلمانوں کی ترجیحات ہی بدل گئی ہیں آج آپ عرب ممالک کو دیکھیں جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں ایک پل کے لیے سوچیں کے وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیا اثاثے چھوڑجا رہے ہیں؟ تو آپ کو بڑی بڑی عمارتوں اور شاپنگ مالز کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا اب ان اُجڈ لوگوں کو کون سمجھائے کہ ترقی اور آنے والی نسلوں کی بقا تعلیمی اداروں میں مضمر ہے ۔
یورپ کی ایک اور چیز جسے دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ان لوگوں کے ہاں ترقی ہے، اچھا لائف سٹائل ہے، ضروریاتِ زندگی باخوبی پوری ہو رہی ہیں، دنیا ان کو ایک کامیاب ریاست کا درجہ دیتی ہے اور ہر سال ہزاروں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے یورپ۔ اتنی ساری ترقی کے باوجود یہاں کے لوگ ہفتے میں پانچ دن پاگلوں کی طرح کام کرتے ہیں میں سوچتا ہوں یار ناجانے یہ اب کہاں پہنچنا چاہتے ہیں؟ ایک یہ ہیں او ردوسرے ہم۔ پاگلوں کی طرح کام کرنا تو دور کی بات وہاں کام کرنے والے کو پاگل خیال کیا جاتا ہے ۔ دفتر میں جا کر بھی کام کرنے کا رواج نہیں ہے جس کا نتیجہ ایک ناکام ریاست کے صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ امریکہ اور یورپ تیل کے ذخائر ہونے کے باوجود دنیا بھر سے تیل اکٹھا کر رہے ہیں اور ان کے پاس سالوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ذخائر موجود ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں دس بیس دن کا تیل اکٹھا ہو جائے تو حکومت خاص اعلان کرتی ہے کہ بیس دن تک عوام کو تیل کی طرف سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں یہ الگ بات کے پریشانی دس دن بعد ہی شروع ہو جاتی ہے۔
تحریر : شاہ فیصل نعیم