تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
جب پاکستان میں اکلوتا پی ٹی وی ہوا کرتا تھا تو ہم اس کے قسط وار ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ یہ ڈرامے ہفتہ وار ہوتے تھے اور ہم پورا ہفتہ بڑی بے چینی سے اگلی قسط کے منتظر رہتے۔ اب تو تفریحی چینلز کی بھرمار ہو گئی ہے اِس لیے ڈراموں میں وہ کشش باقی نہیں رہی۔ شاید انہی ڈراموں سے متاثر ہو کر محترم عمران خاں نے بھی اپنی قسط وار سیاست کا آغاز کیا ۔2011ء میں اُن کے مینارِ پاکستان میں کیے گئے سیاسی ڈرامے کی پہلی قسط اتنی زبردست تھی کہ باقی سیاسی اداکاروں کے چھکے چھوٹ گئے اور ہر کوئی اپنے سیاسی تھیٹر بند ہو جانے کے خوف میں مبتلاء ہو گیا۔ اس وقت صرف ہم ہی نہیں پورا ملک ہی خاں صاحب کے ڈرامے کی اگلی قسط دیکھنے کے لیے بے چین رہتا۔ نیوز چینلز کو تو ریٹنگ چاہیے، خواہ وہ کہیں سے بھی ملے اس لیے وہ گھنٹوں بلکہ پہروں خاں صاحب کے اِس سیاسی ڈرامے کی قسطیں دکھاتے رہتے۔
طلسماتی شخصیت محترم عمران خاںکا یہ ڈرامہ اتنا مقبول ہوا کہ گھرگھر اِس پر تبصرے ہونے لگے ۔اِس ڈرامے کی خصوصیت یہ تھی کی اِس میںموسیقی بھی تھی ،ماردھاڑ اوربڑھکیں بھی لیکن آہستہ آہستہ یہ ڈرامہ اپنی کشش کھوتا چلاگیا اور اُس وقت تو اِس ڈرامے میں بالکل ہی جان باقی نہ بچی جب ایک کہنہ مشق فنکار نے ”اندرکھاتے” ہی میدان مارلیا ۔کچھ عرصے کے لیے تو سارے سیاسی تھیٹربند ہوگئے لیکن پھر عمران خاںنے ”دھرنا” نامی ایک ایسی قسط پیش کی کہ سارے سیاسی تھیٹروںکے دَر آہستہ آہستہ وا ہونا ہونے لگے اور پھر ایک وقت ایسابھی آیا کہ ایک طرف اکیلے عمران خاں اوردوسری طرف سارے سیاسی تھیٹرمالکان ۔ شنید ہے کہ اب خاںصاحب دھرناپارٹ ٹو کاآغاز کرنے جارہے ہیں۔
ہم توخوش تھے کہ چلو ہمارے سیاسی تھیٹروںکی رونقیں ایک دفعہ پھربحال ہوجائیں گی اور سونامیوں نے بھی دھوم دھڑکے کے لیے ”لنگوٹ” کَس لیے تھے لیکن بُراہو پی آئی اے کے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کاجس نے ہڑتال ختم کرکے فلائٹ آپریشن بحال کردیا حالانکہ اُسے حکومت کی جانب سے ملا ”کَکھ” بھی نہیں ۔جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے چیئرمین نے تویہ کہہ دیا کہ معاملات سلجھ گئے اِس لیے احتجاج کاجواز باقی نہیں رہا لیکن حقیقت یہی ہی کہ حکومت ڈَٹی رہی اورہڑتالیوں کوہی ”نیویں نیویں” ہوکر گھر لَوٹنا پڑاجس سے خاںصاحب کے دھرنا پارٹ ٹو کو بھی یقیناََ بہت بڑا دھچکا لگا ہو گا۔ وہ تو ہڑتالیوں کے ساتھ ڈَٹ کر کھڑے ہوگئے تھے حالانکہ اُن کے اپنے منشورمیں بھی پی آئی اے کی نِجکاری شامل تھی لیکن اُنہوںنے دھرنا پارٹ ٹوکو کامیاب بنانے کے لیے ایک دفعہ پھر یوٹرن لے لیا۔
یہ پی آئی اے والے بھی عجیب ہیں کہ جب اُنہیں بہت کچھ مل رہاتھا اور وزیرِاعظم صاحب نے ملازمین کے مکمل تحفظ کے ساتھ اگلے چھ ماہ تک نجکاری پروگرام کو ”فریز” کرنے کی گارنٹی بھی دے دی تھی تاکہ پی آئی اے اپنی کارکردگی دکھاسکے ، اُس وقت یہ ”ھِل مَن مذید” کے نعرے لگاتے رہے لیکن جب حکومت ڈَٹ گئی تویہ پیچھے ہَٹ گئے۔
ہم تو ہمیشہ پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف رہے ہیں اوراب بھی ہیں کیونکہ ہمارا نظریہ تویہ ہے کہ گھرکا سامان بیچنے سے گھربستے نہیں ،اُجڑ جاتے ہیں ۔ہم نے انہی کالموںمیں عرض کیاتھا کہ پی آئی اے کو بھی خواجہ سعدرفیق جیسا کوئی پُرعزم وزیرمِل جائے توایک دفعہ پھرپی آئی اے لاجواب لوگوں کی باکمال سروس بن سکتی ہے ۔ہوسکتا ہے کہ حکومت کے ذہن میں بھی کوئی ایسی ہی پلاننگ موجودہو لیکن ہڑتال نے سب کچھ ملیامیٹ کرکے رکھ دیا۔
یہ ہڑتال شایدایک آدھ دِن بعدہی ختم ہوجاتی لیکن سیاسی جماعتوںکی” مہربانیاں ” جلتی پرتیل کاکام کرتی رہیں اورکپتان صاحب کی توآنکھوں کی چمک دوگنی ہوگئی ۔وہ پی آئی اے ملازمین کے ساتھ اظہارِیکجہتی کے لیے ہفتے کواحتجاج میں شامل بھی ہوئے اوراپنے 5 نکات پرمشتمل مطالبات بھی پیش کردیئے ۔پتہ نہیں اُنہوںنے شیخ مجیب الرحمٰن کی طرح 6 نکات پیش کیوںنہیں کیے ۔شاید اُن کے ذہن میں ہوکہ 6 نکات بہت بدنام ہوچکے اِس لیے چلو ایک کم نکتے پرہی اکتفا کر لیتے ہیں۔
خاںصاحب نے 2011ء میں اپنے آپ کو ”تھرڈآپشن” کے طورپر پیش کیا اور اِس میںک وئی شک نہیں کہ اِس میں اُنہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی کیونکہ وہ پیپلزپارٹی کو پیچھے چھوڑکر آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کی حکومت بھی لے اُڑے لیکن وہ اسی پراکتفا کرنے کی بجائے سڑکوںپر نکل آئے کیونکہ اُنہیں وزیرِاعظم بننے کی جلدی ہی بہت ہے۔
اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیاخاں صاحب مضبوط ترین پوزیشن پرموجود میاں نواز شریف صاحب کی حکومت کا مقابلہ کرپائیں گے؟۔۔۔۔ یہ بجاکہ 2014ء کے دھرنے نے میاںصاحب کو دفاعی پوزیشن اختیارکرنے پرمجبور کردیا تھا لیکن اب صورتِ حال یکسر مختلف ہے ۔اب خاںصاحب نہ تواُتنے ہر دلعزیز رہے جتنے وہ 2011ء سے 2013ء کے دَوران تھے اورنہ ہی تحریکِ انصاف میں وہ اتحاد نظر آتاہے جو پہلے تھا۔
اُنہوں نے مطالبات منظورنہ ہونے کی صورت میں احتجاجی تحریک شروع کرنے اوردھرنا دینے کااعلان توکر دیالیکن اب اُن کے اندازمیں وہ قطعیت نظرنہیں آتی جو کبھی ہواکرتی تھی ۔یوںتو پیپلزپارٹی نے ”اندر کھاتے” اپنی بھرپور حمایت کایقین دلارکھا ہے لیکن خاں صاحب تذبذب میں کیونکہ اُن کے ساتھ پہلے بھی ”ہَتھ” ہوچکا ہے۔ وہ امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کاانتظار کرتے ہی رہ گئے اورامپائر کی انگلی توکجا ،پوراامپائر ہی”پھُر” ہو گیا۔ ویسے بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ ہاتھ ملانے میں تحریک ِانصاف میںٹوٹ پھوٹ کاخدشہ ہے کیونکہ سونامیے تو”ہتھ جوڑی” کے قائل ہیں ہاتھ ملانے کے نہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ابھی تک نہ توخاں صاحب نے دھرناپارٹ ٹو کے لیے کسی حتمی تاریخ کا اعلان کیا اورنہ ہی احتجاجی تحریک کاحالانکہ اُن کی اتحادی جماعت اسلامی 23 مارچ کو احتجاجی تحریک کااعلان کر بھی چکی۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر