تحریر : میر افسر امان
غالب قوتوں کی بین القوامی شیطانی تہذب نے عورت کو برہنا کر کے اپنی جنسی جذبات کی تسکیم کا ذریعہ بنا دیا ہے جس سے ان کے معاشروں میں نکاح کا رواج کم سے کم ہوتا گیا اور بوائے فرینڈ کا رواج عام ہو گیا ہے۔ اس سے مغرب کا خاندانی نظام تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ اب ان کے شیطانی معاشرے میں نوجوان بیٹی اپنے باپ سے کہتی ہے او کے ڈیڈ میرا بوائے فرینڈ آ گیا ہے میں اُس کے ساتھ انجوائے کرنے جا رہی ہوں۔ بے حیائی کا کھلا ارتکاب کرتے ہوئے باپ ، ماں،بیٹا، بیٹی سب ایک ہی پانی کے تالاب میں نیم عریاں لباس پہن کر نہاتے ہیں۔کلبوں کے اندر ڈانس کے بعد روشنیاں بند کر دی جاتی ہیں اور پھر جس کی بیوی اندھیرے میں جس کے ہاتھ لگی وہ اُس کی ہو گئی۔ فعل قوم لوط کو عام کیا گیا ہے بلکہ بعض ملکوں میں اِسے آئین کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس کے تحت مرد مرد کے ساتھ شادی رچاتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل پاکستان میں امریکی سفارت خانے جو مغربی تہذیب کا سرخیل ہے میں پاکستان کے ہم جنس جمع ہوئے اور اس قبیح فعل کو عام کرنے کی کوشش کی تھی جس کو پاکستانی معاشرے نے قبول نہیں کیا اور اس پر ہر طبقے نے شدید تنقید کی تھی۔ مغربی معاشرے میں ان کے ہی سروے کے مطابق چالیس فی صد حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں۔ بوائے فرینڈ کے ساتھ ساتھ ایک مذید بُری رسم بچیوں اور بچوں کو ایک ایسے شیطانی چکر میںپھنسانے کے لیے اور بے حیائی کی ابتدا کے طور پر مغرب میں ویلنٹائن ڈے کی شکل میں ہر سال میں ١٤ فروری کو ویلنٹائن ڈے کے نام سے ایک دن منانے کے رواج عام کر دیا گیاہے۔
اس کا اثر ہمارے مغرب زدہ نقال لوگوں پر بھی ہوا ہے اور وہ بھی اس بُری رسم کو اب عام مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں میں پھیلانے کی کوششوں میں لگ گئے ہیں۔ ہمارے خود غرض کاروباری لوگ بھی اپنی دکانوں پر ویلنٹائن ڈے کی نسبت سے اپنی دکانوں پر ویلنٹائن ڈے کے تحائف رکھنے شروع کر دیے ہیں۔ ہوٹلوں اور کلبوں میں بھی ویلنٹائن ڈے کے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں ۔اس کی ابتدا کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو پھولوں کے تحفے دے کر محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کا رواج پاکستان کے مغرب زدہ نکال لوگوں نے یہاں بھی کوششیں شروع کر دیں ہیں۔
پہلے ہی مغرب کی نکالی میں پاکستان میں بھی کچھ حلقے عورت کو کاروباری دنیا میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ مغرب کا کوئی مال(پروڈکٹ) فروخت نہیں ہو سکتا جب تک اس مال کو مقبول بنانے کے لیے ایک نیم عریاں عورت کونہ پیش کیاجائے۔ویلنٹائن ڈے کی کہانی بھی مغرب نے اپنی آبائی رسم کے مطابق مذہب کے لبادے میں لپیٹ کر عوام کے سامنے پیش کی گئی ہے تاکہ اس کو کوئی اختیار کرنے میںمذہب کی سند مل جائے ۔صاحبو ! مغربی تہذیب والوں کے جد امجد،بنی اسرائیل نے اپنے ذاتی اور ناجائزخواہشات کو اپنی عوام میں سند کے طور پر پیش کرنے کے لیے، اللہ کے برگذیدہ بندوں پیغمبروں پر زنا کی تہمت لگائی تھی اور پھر اس کوڈھال بنا کر معاشرے میں زنا کو عام کیا تھا۔ ان کی مقدس کتاب میں درج ہے کہ فلاںپیغمبر نے( نعوذ باللہ) فلاں کے ساتھ زنا کیا اور فلاں پیدا ہوا۔
اس غلط مفروضے کو عوام میں پھیلا کر شیطان کے چیلوں نے شیطان کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے بے حیائی کو اپنے معاشرے میں عام کیا۔ ویلنٹائن ڈے منانے کے بہانے کے لیے ایک قصہ مشہور کیا گیاکہ ویلنٹائن ایک پادری تھا۔ اس کو ایک رہبہ سے محبت ہو گئی تھی۔ پھر اس سے آگے دیو ملائی بے حیائی کی کہانیاں کی لمبی داستان ہے۔ہمارے معاشرے میں اس بُری رسم کی کوئی بھی جگہ نہیں بلکہ اس سے نفرت کرنا مسلمان معاشرے کا فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنی مقدس قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ ” بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیل جائے ان کے لیے دنیا اور آخرت میںدرد ناک عذاب ہے(النور ١٩) اس سے معلوم ہوا کہ فحاشی اور عریانی اور بے حیائی کی اشاعت و تبلیغ منع ہے اس سے جنسی بے راہ روی اور اخلاق باختگی کے دروازے کھلتے ہیں۔مغرب مکمل شیطان کے نرغے میں ہے۔ ان کے معاشروں میں آزادی کے نام پراصلاح کی کوششوں کے بجائے بے راہ روی کرنے والوں کی حوصلہ افضائی کی جاتی ہے جس سے اخلاقی بُرائیاں عام ہو گئیں ہیں۔لہٰذا ہمیں ویلنٹائن ڈے منانے کے بجائے حیاء ڈے منانا چاہیے۔ اس سے اسلامی تعلیمات عام ہو نگی۔
حکومت نے ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی لگا کر ایک اچھا کام کیا ہے۔ جیسے پہلے بھی جماعت اسلامی نے تعلیمی اداروں کے نوجوانوں میں اسلام کی روح پھیلانے کا کام کیا تھا ۔ بے حیائی کے سامنے پل باندھا تھا۔ پاکستان میں سرخ سویرے کو قدم جمانے نہیں دیے تھے۔ایشیا ء سرخ ہے کے نعرے کے مقابل ایشیا سبز کا نعرہ دیا تھا۔
اب بھی اللہ بھلا کرے جماعت اسلامی کاکہ ِاس نے ویلنٹائن ڈے کے مقابل حیاء ڈے منانے کا اعلان کیاہے پورے پاکستان میں احیاء ڈے منانے کے پروگرام ہورہے ہیں ۔عوام کومغربی تہذیب کی غلط کاریوں سے آگاہ کیا جارہا ہے۔ پورے ملک میںپاکستان کے نوجوان بچوں اور بچیوں کو اسلامی تہذیب کو اپنانے کی ترکیب دی جارہی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان کی تمام مساجد میں جمعہ کے دن اس بات پر تقاریر کی جائیں اور مسلمان جوانوں کو مغرب کے بجائے اپنے دین پر عمل کرنے کی ترکیب دلائی جائے۔مغرب تہذہب کی غلط باتوں کو اُجاگر کر کے اس عمل پر بغیر سوچے سمجھے عمل کرنے سے منع کیا جائے اور اسلامی تہذیب پر عمل کرنے پر اُبھارا جائے۔ ہر مسلمان کی دعا ہونی چاہیے کہ اللہ مسلمان معاشرے کو ان بُرائیوں سے پاک رکھے آمین۔
تحریر : میر افسر امان