محسنِ انسانیت ﷺ کی سیرت طیّبہ، آپؐ کا مثالی اسوۂ حسنہ اور آپؐ کی ذاتِ گرامی اہلِ ایمان کے لیے سرچشمۂ ہدایت ہے اور مرکزِِ عشق و محبّت بھی۔ مسلمانوں کا دینی، تہذیبی، سیاسی، معاشرتی نظام اور ضابطۂ حیات لازماً آپؐ ہی کے اسوۂ حسنہ پر قائم اور احکامات پر استوارہونا چاہیے۔ اﷲ رب العزت نے اپنے حبیب محسنِ انسانیتؐ کو آخری رسول اور کامل اسوۂ حسنہ بناکر مبعوث فرمایا۔ آپؐ کے ہر فیصلے اور حکم کو ماننا ایمان کی بنیادی شرط قرار دیا گیا ہے، جس کے بغیر ایمان کا تصور مشکل ہی نہیں بل کہ ناممکن ہے۔
ہدایت کے ہر متلاشی کے لیے آپؐ کی سیرت طیّبہ اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ ہدایت کا نمونہ اور نجات کا ذریعہ ہے۔ معلم انسانیت، پیغمبر رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم انسانِ کامل اورہادی اعظم ہیں۔ آپؐ کی سیرت و کردار کا ہر پہلو امتِ مسلمہ کے لیے روشن اور کامل نمونہ ہے۔ آپؐ عام زندگی اورمعاشرت میں انسانِ کامل تھے۔
آپؐ بیٹے، باپ، شوہر، بھائی اور بزرگ بھی تھے۔ آپؐ نے دینی، روحانی، سیاسی، معاشی، سماجی، معاشرتی اور عائلی زندگی میں ہر حیثیت سے شاہ راہ حیات پر ایسے نقوش ثبت کیے، جو تاقیامت امتِ مسلمہ کے لیے روشن نمونہ اور معیارِِ عمل بنے رہیں گے۔ آپؐ کی مثالی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ ہر عہد اور ہر دور میں مسلمانوں کی قوت و رفعت کا سر چشمہ اور ان کی قومی و ملی سیرت کی تشکیل و تعمیر کا بنیادی عنصر رہے ہیں۔ آپؐ نے زندگی کے ہر شعبے اور بندگی کے ہر گوشے میں انسانیت کی مکمل راہ نمائی فرمائی ہے۔ آپؐ کا عطاکردہ نظام، کامل، اکمل اور مینارۂ نور ہے۔
’’بہ حیثیتِ شوہر‘‘ اور سربراہ خاندان آپؐ نے جو اسوۂ حسنہ امت کے لیے پیش فرمایا وہ اسلامی تاریخ کا گراں بہا سرمایہ اور سیرتِ طیّبہ کا روشن باب ہے۔ آپؐ کی خانگی زندگی بہ حیثیت شوہر اور سربراہ خاندان، آپؐ کی سیرت و کردار امت کے لیے ایک روشن مثال اور رفیقِِ حیات کی حیثیت سے سیرت و کردار ہر شوہر اور سربراہِ خانہ کے لیے لائق تقلید ہے۔
آپؐ نے فرمایا ’’تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں، جو اپنے اہل خانہ اور بیویوں کے لیے اچّھے ہوں‘‘ (ترمذی شریف)
قرآن مجید نے اس حوالے سے جو اسلوب اختیار کیا وہ نہایت منفرد، جامع اور نصیحت آموز ہے۔ ترجمہ ’’ ان کے ساتھ معاشرت، معاملات، طرز زندگی اور برتاؤ معروف طریقے سے کرو، ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔‘‘ قرآن کریم کی اگر اسی آیت کو سامنے رکھا جائے اور اسی کے مطابق عمل کیا جائے تو خواتین پر ظلم و ستم کا خاتمہ ہوجائے اور ان سے حسن سلوک کی روش عام ہوجائے۔
رسول اکرمؐ امّت کے معلّم و مربّی ہیں۔ آپؐ کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ نکاح کے بندھن میں بندھنے والے میاں بیوی باہمی خیر خواہی اور خیر سگالی کے جذبات سے سرشار اور ایک دوسرے کے لیے فرحت و سکینت کا باعث ہوں۔
قرآن کریم نے اس رشتے کی لطافتوں اور نزاکتوں کو نہایت بلیغ انداز میں بیان کیا ’’وہ عورتیں تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو‘‘ (البقرہ) رسول اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے ’’ تم میں سے ہر ایک اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی نسبت بازپرس ہوگی، مرد اپنے بیوی بچوں کا رکھوالا ہے اور بیوی اپنے شوہر کے گھر کی ملکہ ہے، ان سے اس بارے میں بازپرس ہوگی‘‘ (صحیح بخاری شریف)
حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا ’’دنیا تمام سامان زندگی ہے اور دنیا کا بہترین سامانِ زندگی نیک صالح عورت ہے۔‘‘
محسن انسانیتؐ سے سوال کیا گیا کہ ہم میں کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ’’جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ اور جب تم نیا لباس بنواؤ تو اس کا لباس بھی بنواؤ۔‘‘ (سنن ابوداؤد)
آپؐ کی سیرت طیبہ حسنِ معاشرت اور خانگی زندگی کا وہ کامل ترین نمونہ ہے، جو آپؐ کی علاوہ کسی کی زندگی میں نظر آتا۔ زمانۂ جاہلیت کی معاشرتی زندگی اور عالمی تہذیب و تمدن کی جانب نگاہ ڈالیے۔ تاریخ کے اس تاریک دور میں عورت کا کیا مقام و مرتبہ تھا، بہ حیثیت بیوی، عورت کو کیا حقوق حاصل تھے۔
روما کی تاریخ میں ’’عورت‘‘ کو بدی کا سرچشمہ اور لعنت کہا جارہا تھا، تہذیب و تمدن کے مرکز یونان اور فارس میں عورت کو مرد کے دامن پر بدنما داغ سمجھا جاتا تھا۔ مشرق و مغرب میں مرد و عورت کا ازدواجی رشتہ، مرد کی روحانی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔
تاریکی کے اس عالم میں قرآن کریم نے عورت کو عزت و عظمت کا مرکزی نشان بنایا اور اس حقیقت کو آپؐ کی حیاتِ مبارک کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش فرمایا۔ اگر آپؐ کا حسنِ معاشرت پر مبنی عملی نقشہ عالم انسانیت کے سامنے نہ ہوتا تو صدیوں کا بگڑا ہوا سماج اور عالمی تہذیب، عورت کو باعزت مقام و مرتبہ دینے پر ہرگز آمادہ نہ ہوتی۔
ایک موقع پر رسالتِ مآب ﷺ نے فرمایا کہ ’’میں تم سب میں سے اپنی بیویوں کے ساتھ، سب سے بہتر ہوں۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے کسی نے دریافت کیا رسول اکرمؐ کی گھریلو زندگی کیسی تھی، آپؐ نے گھریلو معمولات کیا تھے؟ آپؓ نے جواب دیا کہ ’’ آپؐ آدمیوں میں سے ایک آدمی تھے، آپؐ اپنے کپڑوں کی دیکھ بھال خود فرمالیتے، بکری کا دودھ خود دوہتے، اپنی ضرورتیں خود ہی پوری کرلیتے، اپنے کپڑوں کو خود ہی پیوند لگاتے، اپنے جوتے کی مرمت خود ہی کرلیتے، پانی کے ڈول کو ٹانکے لگاتے، بوجھ اٹھاتے، جانوروں کو چارہ ڈالتے، کوئی خادم ہوتا تو اس کے ساتھ مل کر کام کرتے۔ مثلاً اسے آٹا پسوا دیتے، اکیلے ہی محنت و مشقت کے کام کرلیتے، بازار جانے میں عار نہ تھا، سودا سلف خود ہی لاتے۔ اور ضرورت کی چیزیں ایک کپڑے میں باندھ کر خود اٹھا لاتے۔‘‘
لوگوں نے دریافت کیا کہ آپؐ گھر میں کیسے رہتے تھے؟
آپؓ نے فرمایا ’’سب سے زیادہ نرم دل، نرم خُو، ہمیشہ مسکرانے والے، خندہ جبیں اور نرم خوئی کی شان یہ تھی کہ کبھی کسی خادم کو جھڑکا نہیں، حق یہ کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی بھی اپنے اہل و عیال کے لیے شفیق نہ تھا۔‘‘ (صحیح مسلم شریف)
آپؐ کی زندگی کے درخشاں پہلوؤں اور دل کش سیرت میں ایک یہ رنگ بھی نظر آتا ہے کہ آپؐ امہات المومنینؓ کی دل بستگی، تفریحِ طبع، راحت اور مسرّت کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔ آپؐ نے اپنی ازواجِ مطہرات کو جو مقام عطا فرمایا، اس کی کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ آپؐ نے بہ حیثیتِ شوہر اور سربراہ خاندان امت کے لیے جو روشن اور مثالی اسوہ حسنہ پیش فرمایا اس کی اتباع میں ہمارے لیے رشد و ہدایت کا سامان موجود ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں آپؐ کے اسوہ حسنہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی بیویوں کے حقوق ادا کرنے والا بنائے۔ آمین
Special Thanks Express News
Original Link= http://www.express.pk/story/449907/