حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔ ان کا اصل نام عبدالشمس تھا۔ سورج کا بندہ، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبدالرحمن رکھا لیکن شہرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کے نام سے ہوئی۔ یہ سن سات ہجری میں ایمان لے کر آئے ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔ ان کا اصل نام عبدالشمس تھا۔ سورج کا بندہ، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبدالرحمن رکھا لیکن شہرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کے نام سے ہوئی۔ یہ سن سات ہجری میں ایمان لے کر آئے ہیں یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے سے تین سال قبل۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غزو خیبر میں تشریف لے گئے تھے، اس وقت یہ ایک وفد کے ساتھ مدینہ منوّرہ اسلام قبول کرنے آئے تھے۔ انہیں پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غزو خیبر کے لیے تشریف لے گئے ہیں تو یہ بھی وہاں پہنچ گئے اور وہاں پہنچ کر انہوں نے اسلام قبول کیا ہے۔
دو قسم کے بندے:
جب اللہ پاک نے دین کا کام کسی بندے سے لینا ہوتا ہے تو اللہ پاک خود اس کے اسباب پیدا فرما دیتے ہیں۔ اللہ پاک کا معاملہ اپنے بندوں کے ساتھ دوقسم کا ہے۔ ایک تو یہ کہ بندہ خود اللہ پاک کی طرف آئے اور دوسرا یہ کہ اللہ پاک خود بندہ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، چاہے وہ محنت کرے یا نہ کرے ۔ جب اللہ پاک کو اس سے دین کا کام لینا ہوتا ہے تو اسباب خود بخود بنتے چلے جاتے ہیں۔ اللہ پاک اس کی طبیعت اور مزاج ہی ایسا بنادیتے ہیں کہ وہ دین کا کام کرتا ہی کرتاہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ‘ بھی انہیں اشخاص میں سے ہیں جن سے اللہ پاک نے اپنے دین کا کام لیناتھا۔
۴۷۳۵ احادیث یاد تھیں:
عجیب بات یہ ہے کہ صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) ایسے بھی ہیں جو مکہ مکرمہ میں اسلام لے کر آئے ، جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ‘ اسلام قبول کرنے کے بعد تیرہ سال مکے میں رہے ، مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں بھی دس سال اسلام کی حالت میں رہے۔ اتنے عرصے میں ان کی احادیث چند سو ہیں یعنی بہت کم احادیث انہوں نے نقل کی ہیں لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ‘ نے سن سات ہجری میں اسلام قبول کیا ہے اور پانچ ہزار تین سو چوہتر احادیث ان سے مروی ہیں۔ اتنی احادیث کسی بھی صحابی سے مروی نہیں البتہ یہ بات تو خود فرمایا کرتے تھے کہ کسی کومجھ سے ز یادہ احادیث یادنہیں تھیں ، البتہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو مجھ سے زیادہ یاد تھیں وہ لکھ لیا کرتے تھے میں لکھا نہیں کرتا تھا اور مجھ سے زیادہ ان کے علاوہ اور کسی کو بھی یاد نہیں تھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی احادیث کتابوں میں اتنی ملتی ہی نہیں ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی احادیث کتابوں میں اتنی ملتی ہیں کہ کوئی حدوحساب ہی نہیں۔ اس کی وجہ علمائے کرام نے یہ لکھی ہے کہ اصل میں اللہ پاک نے ان سے یہ کام لینا تھا، اس لیے مدینہ منورہ میں جو علم کا مرکز تھا وہیں انہوں نے قیام کیا اور وہیں بیٹھ گئے۔ دنیا بھر سے لوگ آتے اور علم دین حاصل کرتے اور دنیا کے ہر خطے میں پہنچتے اور پہنچاتے۔البتہ حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ جو تھے ان کو اللہ پاک نے مصر پہنچادیا ، مصر میں احادیث حاصل کرنے کے لیے کوئی جاتا ہی نہیں تھااس لیے ان کی احادیث لوگوں تک اتنی نہیں پہنچی ہیں۔
کثرت روایت کی دو وجہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی کثرت روایت کی دو وجہ تھیں۔ ایک وجہ اختیاری تھی اور دوسری وجہ غیر اختیاری تھی۔
پہلی وجہ اختیاری وجہ تو یہ بیان کرتے تھے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اکثر کام کاج کرتے تھے، بازاروں میں جاتے تھے، کھیتوں میں کام کرتے تھے اور میں بھوکا آدمی مسجد نبوی میں پڑا رہتا تھا ، کئی کئی دن فاقے میں گزرجاتے ، اس حال میں میں نے حدیث شریف کا علم حاصل کیا ہے۔ جب انسان کو کوئی کام کاج نہ ہو اور اس کو علم ہی حاصل کرنا ہوتو اللہ پاک اس کوپھرعلم عطا فرمائیں گے۔ آپ عام طور پر دیکھتے ہوں گے کہ علماء کام کاج نہیں کرتے اور لوگ اکثرعلماء پر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جی! یہ مولوی تو مفت خورے ہیں ، ان کو کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔ لیکن اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اصل میں اللہ پاک نے جن لوگوں سے دین کا کام لینا ہوتا ہے ان کو یکسوئی عطا فرماتے ہیں، یکسوئی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ دنیا کا کام کاج نہ کرے۔ اسی لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ‘ دنیا کے کام کاج میں نہیں لگے کہ انہیں علم دین حاصل کرنا مقصود تھا اور بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسے تھے جن کا کام ہی علم دین حاصل کرنا تھا۔وہ دنیا کا کام کاج کوئی نہیں کرتے تھے بس لوگ ہی ان کے کھانے اورپینے کا انتظام کیا کرتے تھے، کوئی اپنا کھجور کا خوشہ توڑ کر لے آیا اور مسجد نبوی میں لٹکادیا۔ان بے چاروں نے اسے کھا کر اپنا گزارا کرلیا ،کھانا ان کو ملتانہیں تھا مہینوں گزر جاتے دو تین کھجور کھاکر پانی پی کر۔ بس اسی طرح ان کا گزارا ہوا کرتا تھا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ان سے یہ نہیں کہا تھا کہ تم ہڈ حرام بن کر بیٹھے ہوئے ہو ، کوئی کام کاج نہیں کرتے جاوٴ جا کر کوئی کام وغیرہ کرو۔
جو حضرات بازاروں میں تجارت کرنے والے تھے وہ تو تجارت کیا ہی کرتے تھے یہ حضرات جنہوں نے اپنے آپ کو دین کے حصول کے لیے وقف کردیا تھا ان کو کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی باتیں نہیں کہیں بلکہ اللہ پاک کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو جنت کی بشارتیں سنایا کرتے تھے۔ احادیث کی کتابوں میںآ تا ہے کہ یہ غریب قسم کے لوگ تھے ان کے پاس پہننے کو کپڑا نہیں ہوا کرتا تھا، یعنی ایک چادر ہے وہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک آرہی ہے باقی سارا جسم ان کا ننگا ہے۔ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ ہم مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضورﷺتشریف لائے ہم ایک دوسرے کے اندر اس طرح گھس کر بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارا ستر تو چھپا ہوا تھا مگر باقی جسم جو ہے وہ بھی نظر نہ آئے کیونکہ اس حالت میں شرم سی آتی ہے تو اس طرح ایک دوسرے سے خود کوچھپا رکھا تھا تاکہ لوگوں کو نظر نہ آئے۔ حضور ﷺنے ہمیں دیکھا توفرمایا :کہ دائرہ بنالو جب ہم نے دائرہ بنالیا تو ہم سب کے جسم نظر آنے لگے ستر تو چھپا تھا لیکن باقی جسم نظر آنے لگا۔جب حضورﷺ نے ان کی یہ حالت دیکھی تو آپ wنے یہ بھی نہیں کہا کہ جاوٴبازار میں جاکر کماوٴ بلکہ فرمایا: اللہ پاک تمہیں جنت عطا فرمائیں گے اور دنیا کے مال داروں سے پانچ سو سال پہلے تم لوگ جنت میں جاوٴ گے۔ معلوم ہوا کہ علم یکسوئی چاہتا ہے۔
دوسری وجہ غیر اختیاری:
ایک وجہ یہ تھی ان کی علم کے حاصل ہونے کی دوسری وجہ تھی اللہ پاک کے نبیﷺ کی دعا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ جو یاد کرتا ہوں بھول جاتا ہوں، آپ کی حدیث سینے سے نکل جاتی ہے۔ حضورﷺنے فرمایا: اچھا ایسا کرو کپڑا بچھاوٴ! میں نے کپڑا بچھا دیا اور حضور ﷺنے کچھ پڑھا اور کپڑے کو ہاتھ لگایا اور فرمایا: اس چادر کو اپنے سینے سے لگالو، میں نے ایسا ہی کیا۔ فرماتے ہیں:اس دن کے بعد سے میں کبھی حدیث نہیں بھولا۔ معلوم ہوا کہ یہ چیز تھی غیر اختیاری ،ہر آدمی اپنی کوشش سے حاصل نہیں کرسکتا۔ اللہ پاک ہمیں ان کی نقل کی ہوئی احادیث پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین