تحریر: مزمل احمد فیروزی
ماہِ فروری شروع ہوتے ہی ویلنٹائن ڈے منانے کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں اور چودہ فروری کو یہ دن اظہار محبت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ابتداء میں یہ دن صرف یورپ اور امریکہ میں منایا جاتا تھا مگر آہستہ آہستہ دنیا کے بیشتر خطوں میں منایا جانے لگا اس دن کی ابتدا کے بارے میں مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں مجھے ان بے سروپا روایات سے کوئی سروکار نہیں مجھے فکر تو اپنے مسلمان گھرانوں کی ہے جن کے لڑکے اور لڑکیاں اس گناہ میں شریک ہو رہے ہیں۔
و یلنٹائن ڈے کے موقع پربننے والی پا کستانی لڑکوں اور لڑکیوں کی نازیبا ویڈیوز کو دو کروڑ میں یو رپین حش ویب سائٹس نے خریدا، پا کستان میں بھی یہ دن منانے کا رجحا ن بڑھ نہیں رہابلکہ اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے ، اس میں سب سے زیادہ کردار ہمارے نام نہاد ٹی وی چینلزنے ادا کیا جہاں اس دن کی خصو صی نشریا ت دکھائی جاتی ہیں اور پیغام محبت کے باقاعدہ نام کے ساتھ ٹیکرز چلائے جاتے ہیں ۔جو نوجوانوں کا ذہن سازی میں بھرپور کردار ادا کررہا ہے ایک دوسرے کو تحا ئف دینا ،تقر یحی مقامات پر جانا اور کھا نے کی دعوت دینا اس دن کی منا سبت سے عام ہو چلا ہے ،پہلے محبت قر بانی کا جذ بہ ما نگتی تھی ،اب خرچہ مانگتی ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان میں اِسے بھر پو ر انداز میں منا نے والے اِس بات سے لا علم ہیں کہ اِسے کیوں منا یا جا تا ہے ،اِس دن شہر کی سڑکوں پر عجیب و غریب منا ظر دیکھنے کو ملتے ہیں ،پھولوں کی دکانو ں سے پھول اچانک غا ئب ہو جاتے ہیں بس اسٹاپ پر منچلے لڑکے لڑکیوں سے چھیڑ خانی کر تے اور پھول پھینکتے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں جب کہ تما م پا رکوں میں نو جوانوں کی بڑی تعداد مو جود ہو تی ہے اس دن کے لحا ظ سے لڑکیاں نت نئے لال رنگ کے کپڑے ملبوث کرتی ہیں تاکہ اس دن بھر پور انداز میں لطف اندوز ہوا جا سکے ،اب یہ دن منانا ایک فیشن بن گیا ہے۔
پا کستان میں ہر کو ئی اس فیشن کو اپنا نے کے لئے اپنی طرف سے ہر کوشش کرتا ہے اورہمارے عوام ایسے ایام خوشی سے منا تی ہے جو ہمارے ہیں ہی نہیں ،بلکہ اس تہذیب سے بھیجے گئے ہیں جسے دیکھ کر ہم شرم سے جھک جا تے تھے اِس تنا ظر میںا س امر کو ذہن نشین رکھنا ہو گا کہ مسلم ممالک خصوصاً پا کستان پر تہذیب کی جنگ مسلط کر دی گئی ہے چند سال پہلے کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ دنیا ”گلوبل ولیج”ہے گلو بل و لیج کا نعرہ مغرب سے آیا اور مغر ب کے پیر و کاروں نے اسے پھیلا یا جس کا مقصد یہی ہے کہ دنیا کو ایک تہذیب کے زیر اثر لا یا جا ئے جہا ں ایک نظام ہو ،ایک تہذ یب ہو اور اسکے ہر رسم و رواج کو دوسری تہذیبیں قبول کر یں ،اسے اپنی زند گی کا جزوِ لا زم بنا لیں او ر اِسی منصو بے کی تکمیل کیلئے وہ جہد مسلسل میں مصروف ہیں یہ ہمارے اقدار کے خلاف مغرب کی یلغارہے جسے ابھی تک ہم سمجھ ہی نہیں پائے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق 85فیصدعورتیں ویلنٹا ئن کی مناسبت سے چیزیں خرید تی ہیں جبکہ عموماًمرد عورتو ںکے لئے تحائف خریدتے ہیں ،ان تحا ئف میں سرخ گلاب کے پھول،طلائی زیورات، ملبوسات اور چا کلیٹ جن کو دل کی شکل کے ڈبوں میں رکھ کر سرخ رنگ کے ربن کے ساتھ سجا یا جاتاہے ۔ یو مِ ویلنٹا ئن کی ترغیب کی ایک بہت بڑی وجہ کاروبار بھی ہے اس دن اس سے جڑے کاروبارکے مالکان نت نئی آفرز متعارف کراتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ایک بہت بڑے کا روبار کا دن بھی بن گیا ہے اگر ہم صرف اپنے کاروبار کی وجہ سے اس بے حیائی کی وجہ بنے اور اس دن کو صحیح مان لے تو کیا یہ ٹھیک ہو گا؟مگر اس پر فتن دور میں جہاں فحاشی و عریانی چار سو پھیل چکی ہے اورایک عام سی بات ہے۔
جہاں پڑھا لکھا طبقہ بے جا مثالیں دے کر دوسروں کو اس دن منانے کے حق میں بولتے یا پھر اس کے خلاف بولنے سے روکتے نظر آتے ہیں کہ اور بھی غم ہے زمانے میں ویلنٹائن ڈے کے خلاف جانے کے سوا،ہمیں چا ہیے کہ ہم اپنی آنکھوں میں شرم و حیاکا سر مہ لگائیں ،ہر ایسی بات ،تفریح ،تقریب اور تہوار سے بچیں جو ہمارے اقدار و روایات کے خلاف ہو جس میں شرم و حیا کی دھجیاں اڑائی جاتی ہو ں خصوصاًاس نام نہاد یوم محبت جو فحا شی اور بے حیائی سے اٹا ہوا ہے یہ بے سروپا طریقہ ہمیں صرف وصرف گمراہی کی طرف لے کر جاتا ہے۔
حقیقت پسند اور با شعور مسلما ن جا نتے ہیں مسلم معاشرے میں ایسے تہوار وں کو پر و موٹ کر نے اور اسے عروج دینے کا مقصد مسلمانوں میں بے راہ روی پھیلا کر مسلمانو ں کے خا ندانی نظام کو تباہ کر نا ہے ،اس لیے اس دن فحاشی و عریانی ،بے حیائی سمیت اعلانیہ گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں بحیثیت مسلمان اس بات کا ادراک کر نا چاہیے کہ ایسے تہواروں کا حصہ بن کر ہم اپنی تہذیب اور اپنے ایمان پر دشمن کو حملہ آوارہو نے کا خود اپنے ہا تھوں سے موقع فراہم کر تے ہیں،اس بات کا انجام بہت خطر ناک اور بھیا نک ہے۔
اس نام نہاد یوم محبت کو جن لوگوں نے منایا انہوں نے اللہ کی کتاب قرآن کے احکا مات کا اور رسول ۖ کی تعلیما ت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی اور مذاق اڑایا اور مغر ب کی تقلیدکی تو بروز قیامت سخت ازیت میں ہو نگے اگر یہ لوگ اپنے اللہ اور رسولۖ کی تعلیمات پر عمل پیرارہے تو اس دن ان کیلئے انعام و اکرام ہو گا ۔ :ارشاد رباری تعالی ہے کہ ”اور یاد رکھوں جو لوگ چاہتے ہیں ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ،ان کے لیے دنیا و آخرت میں درناک عذاب ہے ”، فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ اس دن کے خلاف جانا ہے یا پھر مغرب کی تقلید کرنی ہے۔
تحریر: مزمل احمد فیروزی
صحافی، ٹرینر @پاکستان ہیلپ لائن
muzahmed313@gmail.com
0321-3535250