کراچی…یس اُردو….یونانی جزیری لیسبوس میں زیتون کے درختوں کے بیچ گھرے ایک قبرستان میں متعد قبروں پر نصب سنگِ مرمر کے کتبوں پر دفن ہونے والوں نام کی جگہ یہی لفظ لکھا ہوا ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق اپنے وطنوں سے یورپ پہنچنے کا خواب لے کر روانہ ہونے والے پناہ گزینوں میں سے 64 صرف اس ایک قبرستان میں دفن ہیں۔ ان میں سے 27 بے نام تہہ خاک سو رہے ہیں۔ہلاک ہونے والے نامعلوم تارکین وطن کی قبروں پر نامعلوم کے ساتھ ساتھ اندازً عمر، مرنے کی تاریخ اور شناختی نمبر درج کر دیا جاتا ہے۔ بحیرہ ایجیئن عبور کرتے وقت تارکین وطن لائف جیکٹیں پہنتے ہیں۔ لیکن جیکٹیں بھی ہزاروں پناہ گزین پھر بھی جان نہ بچا پائیں۔پاکستان، افغانستان کے علاوہ شام اور عراق جیسے مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ ممالک سے لاکھوں تارکین وطن جنگوں اور غربت سے نجات کی خواہش لیے گزشتہ برس انہی سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کے سفر پر نکلے تھے۔سمندر ان میں سے ہزاروں کو نگل گیا۔ ہلاک ہونے والے تارکین وطن کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ لیسبوس میں غیرملکیوں کے لیے مختص قبرستان کب کے بھر چکے ہیں۔ہلاک ہونے والوں میں ایسے خاندان بھی شامل ہیں جن کی شناخت کرنے کے لیے کوئی زندہ بچا ہی نہیں۔ مقامی افراد نے بارہا ایسے مناظر دیکھے کہ پناہ گزینوں کی لاشیں کئی دن پانی میں رہنے اور چٹانوں سے ٹکرانے کے بعد مسخ ہو چکی تھیں۔لیسبوس کے ساحلوں سے نعشیں اٹھانے پر معمور ایک اہلکار کاراجیورجی کا کہنا ہےاچھا نہیں لگتا، ایک معصوم بچے کی لاش دیکھ کر، ایک نامعلوم بچہ، وہ بھی اتنا کم عمر۔ اگرچہ انہیں اٹھانا میری نوکری میں شامل ہے، لیکن ہر مرتبہ دل ٹوٹ جاتا ہے۔تیس سالہ مصری شہری مصطفیٰ دس برس قبل یونان آیا تھا۔ اس نے اپنے طور پر تارکین وطن کو غسل دیتا، انہیں کفن پہناتا اور تدفین کے وقت ان کے چہرے قبلہ رخ کرتا ہے۔مصطفیٰ کا کہنا ہے، میں 57 لوگوں کو دفنا چکا ہوں۔ ایک دن تو میں نے 11 افراد کی تدفین کی۔ میں جنگیں نہیں روک سکتا، نہ ہی لوگوں کو غیرقانونی طور پر یورپ جانے میں مدد فراہم کر سکتا ہوں، لیکن میں انہیں کم از کم دفن تو کر سکتا ہوں۔یونانی حکام ڈی این اے کے ذریعے بھی ہلاک شدگان کی شناخت کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ڈی این اے کے ذریعے بھی سو میں سے ایک فرد کی ہی شناخت ہو پاتی ہے۔