تحریر: محمد صدیق پرہار
وزیراعظم نوازشریف نے معروف سماجی کارکن اور فلم ساز شرمین عبید سے ملاقات کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل جیسی فرسودہ رسومات اور روایات کا اسلام اور ہماری تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔ حکومت معاشرے سے اس بدنماداغ کو دور کرنا چاہتی ہے۔اوراس کے لیے تمام تر اقدامات اٹھانے کیلئے پرعزم ہے۔ شرمین عبید چنائے سے گفتگو کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ کے ذریعے دنیامیں اسلام کا برپا کردہ انقلاب تبدیلی اورسماجی اصلاحات کی کامیاب تحریک ہے۔ جس نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دنیاکی تاریخ کادھاراموڑدیا۔سب سے پہلے اسلام نے خواتین کو حقوق دیئے۔ خواتین ہمارے معاشرے کا ناگزیر ترین جزو ہیں اور میں ایک خوشحال ومتحرک پاکستان کی مشترکہ منزل کے حصول کیلئے انہیں بااختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے پر یقین رکھتا ہوں۔
تمام کاوشوں کا مقصد فریقین سے مشاورت کے ذریعے موجودہ قوانین میں خامیوں کو دور کرنا ہے تاکہ پاکستان سے غیرت کے نام پرقتل کاخاتمہ ہو۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت اورسول سوسائٹی کی مشترکہ کوششوں سے سماجی برائیوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے خاتمے کیلئے قانون سازی بھی کی جارہی ہے۔جس کیلئے متعلقہ اداروں کو ہدایت جاری کردی ہیں۔ شرمین عبید چنائے کا کہنا تھا کہ انہیں فخر ہے کہ پاکستان کو نوازشریف جیسا وزیراعظم ملا جو ملک میں غیرت کے نام پر قتل کے مسئلے کو ختم کرنے کیلئے راہنما کردار ادا کر رہا ہے۔
غیرت کے نام پرقتل کامعاملہ سال ہا سال سے چلاآرہا ہے۔اس کے خلاف مہم بھی چلائی جاچکی ہے۔اخباروں میں تبصرے، تجزیئے اورکالم بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔سماجی تنظیمیں، سول سوسائٹی اور معاشرے کے دیگرطبقات بھی غیرت کے نام پرقتل کیخلاف اپنی اپنی آوازبلندکرتے رہتے ہیں۔متعدد سیاستدانوں اورحکمرانوںنے ملک میں اس کے خاتمہ کے اعلانات کیے۔ لیکن یہ مسئلہ جوں کاتوں موجود ہے۔ وزیراعظم نوازشریف درست کہتے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل جیسی فرسودہ رسومات اور روایات کااسلام اور ہماری تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔اسلام کسی کوبھی ازخودقتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام میں جرائم اوربرائیوں کے خاتمے کیلئے سزائوں کا نظام قائم کیا گیا ہے لیکن کسی بھی شخص کویہ اجازت نہیں ہے کہ وہ خودہی ان سزائوں پر عمل کرنا شروع کردے۔ اس کے لئے باقاعدہ ایک نظام بنایا گیا ہے کہ جو شخص بھی کوئی جرم کرے اس کیخلاف متعلقہ عدالت میں مقدمہ دائر کرایا جائے۔
اس کیخلاف ٹھوس ثبوت اور حقیقی گواہ پیش کئے جائیں۔عدالت ہی اس کی سزایااسے بری کرنے کا فیصلہ کرے۔ اسی طرح جب کوئی شخص یاخاتون غیراخلاقی حرکت کرتے ہوئے پکڑے جائیں تو انہیں قتل کرنے کی اسلام میں واقعی کوئی اجازت نہیں۔ انہیں قانون کے حوالے کیا جانا چاہیے۔ پھر قانون ہی ان کے بارے میں فیصلہ کرے۔وزیراعظم کی یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام نے ہی سب سے پہلے خواتین کوحقوق دیئے۔ اسلام نے خواتین کوہی نہیںمعاشرے کے ہرفرد، ہرطبقے اور ہر چیز کو حقوق دیئے ہیں۔ اسلام سے پہلے بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ اسلام نے اس گھنائونے جرم کاخاتمہ کیا۔اسلام نے ہی خواتین کو جائیداد میں حصہ داربنایا۔ بطور، ماں، بہن اوربیوی الگ الگ جائیدادمیں اس کاحصہ مقررکیا۔اسلام نے ہی خواتین کوماں، بہن، بیٹی، بیوی، ساس، جیسی پاکیزہ عزتیں فراہم کی ہیں۔ دنیا میں ایسے مذہب بھی ہیں۔ جن کے پیروکار شوہر کے مرجانے پر اس کی بیوی کو بھی اس کے ساتھ زندہ جلادیتے ہیں۔اسلام اس کی کسی صورت اجازت نہیں دیتا۔
اسلام نے تومردے کے بھی حقوق مقرر کیے ہیں کہ اسے عزت کیساتھ دفن کیا جاتا ہے۔ اسلام میں مردوخواتین کی تمام ضرورتوں کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف بھی ملک میں غیرت کے نام پر قتل کو ختم کرنے کیلئے پرعزم ہیں انہوںنے قانون میں موجود خامیوں کو دور کرنے کیلئے متعلقہ اداروں کو بھی ہدایات جاری کر رکھی ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس برائی کاخاتمہ ہوناچاہیے۔ اب تک اس برائی کیخلاف جتنی بھی باتیں ہوئی ہیں۔ سب نے یہی کہا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کاخاتمہ ہوناچاہیے۔ اس طرح کسی کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ صبر اور برداشت سے کام لینا چاہیے۔ اس کی حمایت توکوئی نہیں کرتا۔ اس برائی کو ختم کرنے کیلئے ہمیں اس کے اسباب اور وجوہات پر بھی غور کرناہ وگا۔ اسلام غیرت کے نام پرقتل کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا اور جس فعل بد کو دیکھ کرلوگ اشتعال میں آجاتے ہیں اور فعل میں مشغول مرد یا خاتون یادونوں کو قتل کردیتے ہیں اس فعل کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ہرایک یہی کہتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کاخاتمہ ہونا چاہیے۔
جس فعل کی وجہ سے غیرت کے نام پر قتل ہورہے ہیں اس کیخلاف کوئی بات نہیں کرتا۔ اس سلسلہ میں تمام ترذمہ داری قاتل پرڈال دی جاتی ہے۔یہ درست ہے کہ قاتل کواس طرح قتل کرنے کا کوئی اختیار نہیں اسے قانون کی مددلینی چاہیے۔ جس فعل کودیکھ کروہ اشتعال میںآکرقتل کرڈالتا ہے اس فعل کی اجازت فاعل اور مفعول کوکس قانون اورضابطے میں دی گئی ہے۔جب تک معاشرے سے زناء حرام کاخاتمہ نہیں ہوتا اس وقت غیرت کے نام پرقتل کاخاتمہ نہیں ہوسکتا۔ غیرت کے نام پرقتل کو ختم کرنے کیلئے معاشرہ سے زناء حرام کی برائی ختم کرناہوگی۔اسلام میں پردے کوخاص اہمیت حاصل ہے ۔جس کوآج کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔آج تونوبت یہاں تک آگئی ہے کہ جوخاتون کسی جگہ کام کرتے ہوئے پردہ کی پابندی کرے تواسے کہا جاتا ہے کہ پردہ کرنا ہے تو گھر میں رہو یہاں کام کرناہے توپردہ چھوڑناہوگا۔گویاپردہ کرنے کی تاکیدکی بجائے پردہ ختم کرنے کاکہاجاتا ہے۔پردے کو فرسودہ رسم اورمعاشرے میں ترقی کے لیے رکاوٹ قراردیاجارہا ہے۔ایک طرف خواتین کے حقوق اور تحفظ کی بات کی جاتی ہے دوسری طرف پردے کی بھی مخالفت کی جاتی ہے۔
اسلام میں خواتین کو پردہ کرنے کاحکم ان کے تحفظ کیلئے ہی دیاہے۔ان کے چہروںکودیکھ کرہی لوگ ان کیساتھ برائی پرآمادہ ہوجاتے ہیں۔پردے میں ہونے کی صورت میں نہ کوئی ان کے چہروں کو دیکھ سکے گانہ ہی ان کیساتھ کوئی غلط فعل کرے گا۔ایک طرف غیرت کے نام قتل کیخلاف باتیں کی جاتی ہیں۔ اخباروں میں بیانات شائع کرائے جاتے ہیں۔اس کے خاتمے کیلئے آوازاٹھائی جاتی ہے دوسری طرف اس کو فروغ دلانے والے کام بھی کئے جاتے ہیں۔اس کے اسباب بھی مہیاکیے جاتے ہیں۔ان اسباب کادفاع بھی کیاجاتا ہے۔ان اسباب کوتفریح بھی کہاجاتا ہے۔اس سوال کاجواب تلاش کریں کہ پردے کی مخالفت کرنے والے خواتین کاتحفظ چاہتے ہیں یا کچھ اور۔ہر سال چودہ فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔اس سال بھی منایا گیا۔ اخبارات کے میگزین میں اس مناسبت سے صفحے بھی شائع ہوئے۔ قارئین خود فیصلہ کریں کہ یہ جوہرسال محبت کے اظہار کا دن منایاجاتا ہے ۔اس سے غیرت کے نام پرقتل کوفروغ نہیںدیاجارہا توکیااسے ختم کیاجارہا ہے۔
جب اس طرح محبت کے اظہار کی حمایت کریں گے تو غیرت کے نام پرقتل کو کیسے روک پائیں گے۔خودتوکسی کی بہن، بیٹی کیساتھ محبت کااظہارکرتے ہیں اسے پھول بھی دیتے ہیں کوئی اورآپ کی بہن، بیٹی کیساتھ اس طرح محبت کااظہارکرے توآپ کی غیرت جاگ جاتی ہے۔کسی کی ماں، بہن، بیٹی کی عزت پرنظررکھنے سے پہلے یہ کبھی نہ بھولیں کہ آپ کے گھرمیں بھی ماں، بہن، بیٹی موجودہے۔پہلے محبت کااظہارہوتا ہے پھربات آگے بڑھتی ہے۔ تعلقات میں تیزی آجاتی ہے۔پھرانجام غیرت کے نام پرقتل کی صورت میںہوتا ہے۔مخلوط تعلیم بھی اس برائی کے اسباب اوروجوہات میں شامل ہے۔ یہ کیسانظام تعلیم ہے کہ چھوٹے بچے جنہیں اس غلط فعل کا شعور نہیں ہوتا انہیں تو الگ الگ سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ جبکہ جب طلباء وطالبات جوان ہوجاتے ہیں۔دونوںطرف مقناطیس موجود ہوتا ہے تو یونیورسٹیوں میں طلباء اورطالبات کو ایک ہی کلاس میں پڑھایا جاتا ہے۔این جی اوز اکثر دفاتر میں مردوخواتین ایک ساتھ ایک ہی کمرے میں کام کرتے ہیں۔ سکولوں میں مردو خواتین اساتذہ ایک ساتھ پڑھاتے ہیں۔اسمبلیوںمیں خواتین مردوں کے ساتھ بیٹھتی ہیں۔اسلام میں تونامحرم مردوں، عورتوں کو دیکھنے، ان کے ساتھ بات کرنے اوران کی آواز سننے سے بھی روکاگیا ہے ۔
صرف اور صرف خواتین کے تحفظ اوران کی حفاظت کے لئے۔ یہاں دفاتر اور کمپنیوں میں کام کرنے والے مردو خواتین ایک دوسرے کے رشتہ دار نہیں ہوتے ہوتے بھی ہیں تو ان کاتناسب بہت کم ہے۔خواتین کوحراساں کرنے کے قانون سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دفتروں اوراداروں میں خواتین کیساتھ کیا ہوتا ہے فلموں اورڈراموں میں بھی غیرت کے نام پرقتل کو فروغ دیاجارہا ہے۔ آپ کہیں گے کہ کون سی ایسی فلم ہے جس میںغیرت کے نام پرقتل کی ترغیب دی گئی ہے۔ ایک فلم نہیں سب اکثرفلموں میں اس کی ترغیب دی جاتی ہے۔آپ کہیں گے وہ کیسے۔ وہ اس طرح غیرت کے نام پرقتل کاآغاز ایک دوسرے کودیکھنے، میل ملاقات کرنے سے ہوتا ہے۔ یہی کام اکثر فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ فلم چاہے کسی بھی موضوع پربنائی گئی ہواس میں لڑکے اورلڑکی کاتنہائی میں ایک دوسرے کے ساتھ ملنا، ایک دوسرے کیساتھ اٹکھیلیاں کرنا، ایک دوسرے کیساتھ مذاق کرنااورایک دوسرے کیساتھ محبت کا اظہار کرنا ضرور شامل ہوتا ہے۔ میں تیرے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں تیرے بغیر نہیں رہ سکتی۔میرابھی یہی حال ہے ۔ہم کب تک ایسے ہی ملتے رہیں گے۔
خودہی منصف بن کرفیصلہ کریں کہ فلموںمیںایسے مناظردکھائے جانے کے معاشرے پرکیااثرات مرتب ہوں گے۔بچے ، لڑکے اوربیس بائیس سال تک کے ناپختہ ذہن رکھنے والے نوجوان ان مناظر کو دیکھیں گے توان کے جذبات پرکیااثرات مرتب ہوں گے اس کاشایدبہت سوں کوادراک بھی نہیں ہوگا فلموں میں ایسے مناظر غیرت کے نام پرقتل کی طرف نہیں جاتے تو کہاں جاتے ہیں۔ جیساکہ اس تحریر میں لکھاجاچکا ہے کہ اسلام میں انسان کی ضرورتوں کاخاص خیال رکھاگیا ہے۔اسی طرح اسلام میں انسان کی خاص خواہش کی ضرورت کابھی خاص خیال رکھا گیا ہے۔اس کیلئے نکاح بیاہ جیسے پاکیزہ تحفے عطاء کیے ہیں۔غیرت کے نام پرقتل کی وجوہات اوراسباب میں شادی بیاہ کامشکل سے مشکل بنائے جانابھی ہے۔شادی دیکھا دیکھی میں اتنی مشکل بنادی گئی ہے کہ غریب طبقہ تورہا ایک طرف متوسط طبقہ بھی کیلئے اس فرض کواداکرنامشکل ہوجاتا ہے۔جب لوگ اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے بیٹوں اوربیٹیوں کی شادیاں نہیں کر سکتے۔ دولہا، دلہن کے ورثاء ایک دوسرے کی شرائط پرپورانہ اترنے کی وجہ سے اولادکی شادیاں نہیں کر سکتے۔
جب جائزطریقے سے ان کی خواہش پوری نہیںہوتی تووہ غیراخلاقی ،غیرقانونی طورپراپنی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسلام میں غیراخلاقی ،غیرقانونی طریقہ اختیارکرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔بے حیائی اوربے راہ روی کے سدباب کے لئے اولادکی شادیاںان کے جوڑملتے ہی کرنے کاحکم دیاگیاہے۔جب شادیاںمشکل بنادی جاتی ہیں توبے حیائی اوربے راہ روی کاراج پھیلنے لگتا ہے۔ جوغیرت کے نام پرقتل تک لے جاتا ہے۔غیرت کے نام قتل کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اسباب اوروجوہات کوبھی ختم کیاجائے۔ پردے کانظام نافذ کیاجائے خواتین جہاںبھی کام کریں ،سفرمیں ہوں ، میڈیا پرپروگرام کریں ہر جگہ، ہرحال میں پردہ کااہتمام کریں۔ مخلوط تعلیم ختم کی جائے۔ دفاتر، اداروں میں مردو خواتین ایک ہی کمرے میں کام نہ کریں۔
ویلنٹائن ڈے منانے پرپابندی لگادی جائے۔فلموں، ڈراموں میں اظہار محبت کے مناظر دکھانا بند کرائے جائیں۔عوام کوکم سے کم اخراجات میں شادیاںکرنے کی ترغیب دی جائے۔شادیاں جتنی کم سے کم اخراجات اورجلدی ہوں گی معاشرے سے بے راہ روی اتنی ہی جلدی کم سے کم ہوجائے گی۔ جب بے راہ روی کم ہوگی توغیرت کے نام پرقتل بھی کم سے کم ہوجائیں گے۔یہ توسب کہتے ہیںکہ غیرت کے نام پرقتل کاخاتمہ ہوناچاہیے۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ لوگ ایساکام کیوںکرتے ہیں لوگ ایساکام ہی نہ کریں جسے دیکھ کرکوئی اشتعال میں آجائے اورغیرت کے نام پرقتل کردے۔ایک پہلو پر زور دینا اور دوسرے پہلوکونظرانداز کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔
تحریر: محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com