تحریر : نادیہ خان بلوچ
ایک لفظ ہوتا ہے خلوص اور ایک ہوتا ہے چمچہ گیری. خلوص وہ جو دل سے کیا جائے. مطلب اگر آپ نے کسی کی عزت کی ہے تو دل سے کی ہو. تعریف کی ہے تو وہ بھی دل سے ہی کی ہو. نفرتوں میں بھی خلوص ہونا ضروری ہے. نفرت میں بھی ملاوٹ نہ ہو. سچی اور کھری ملاوٹ سے پاک. اور ایک لفظ ہوتا ہے چمچہ گیری.مطلب جسکے آپ چمچے ہیں اسکی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملانا. چاہے وہ جھوٹا کیوں نہ ہو. ہر چمچہ کسی نہ کسی بڑے کا چمچہ ہوتا ہے. اور وہ بڑا کسی اور بڑے کا چمچہ. ترقی یافتہ ممالک میں ان چمچوں کو king maker یا lobbyist کہا جاتا ہے.جبکہ ہمارے ہاں ان چمچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے انکی شان میں کئی کئی نام رکھ کر گستاخی کی جاتی ہے.کوئی انہیں تھالی کا بینگن کہتا ہے تو کوئی بن پیندے کے لوٹا. ہمارے ہاں چمچوں کی کوئی کمی نہیں.اگر ایک ڈھونڈنے نکلو تو ہزار مل جائیں گے۔
شاید اسی لیے یہاں انکی کوئی قدر نہیں.ابھی حال ہی میں ہماری ایک دوست رائٹر کی کسی دوسری رائٹر کے چمچے سے تھوڑی سی تو تو،میں میں کیا ہوئی یکے بعد دیگرے کئی چمچے چھری کانٹے اٹھائے ہماری دوست پہ چڑھ دوڑے.بات کا سر پیر پتہ نہیں ہماری دوست کے خلاف پروپیگنڈا بنا لیا. ہماری دوست بھولی بھالی معصوم سی مگر ستارے کی طرح روشن بھی اپنے چمچوں نہ سہی مگر قلم کی تلوار کے ساتھ میدان میں ضرور اتریں اور پھر ان چمچوں کی آپس میں چائیں چائیں کرا دی. تب ہمیں سمجھ آیا اگر آپ کے پاس شہرت اور مرتبہ ہے تو آپکے پاس چمچوں کی اتنی بڑی تعداد ہوگی کہ آپ چاہے تو ان سے بریانی کھائیں یا پھر ان چمچوں کا بھرتہ. ویسے چمچہ گیری کوئی آسان فن نہیں. جو بیٹھے بٹھائے آجائے۔
اس کیلیے مہارت چاہیے ہوتی ہے خاص مہارت. جو کم از کم کسی مجھ جیسے منہ پھٹ،غصیل،اناپرست،خودار انسان کے بس کی ہرگز بات نہیں. آپکو کسی کا چمچہ بننے سے پہلے اپنی انا کا قتل کرنا پڑتا ہے. اپنی آنکھوں سمیت اپنی میں پہ بھی دھوپ والا چشمہ چڑھانا پڑتا ہے. کیونکہ جسکا آپ کو چمچہ بننا ہے پھر تو اسکی نظر سے دیکھنا ہے اسکے کانوں سے سننا ہے. اگر آپ میں ان میں سے کوئی بھی ایک خوبی نہیں یقین جانیں لکھ کے دیتی ہوں چاہے تو مجھ سے انگوٹھا لگوا لیں آپ کبھی بھی کامیاب چمچے نہیں بن سکتے. کامیاب چمچہ بننے کی شروعات انکے گھر سے ہی ہوتی ہے. جو اپنی بھینس جیسی موٹی بیوی کو بھی عالیہ بھٹ سے جا ملاتے ہیں. کیونکہ بیویوں کی ایسی خوبیاں بتانا جو ان میں سرے سے ناپید ہوں چمچہ گیری کا مشکل ترین مرحلہ ہے۔
ایک اور بات واضح کرتے چلیں خوشامد جسے آپ چمچہ گیری سمجھ بیٹھے ہوں وہ اس کا حصہ تو ہے مگر قدرے مختلف ہے. خوشامد آپکو خاص موقعے پر ہی کرنی پڑتی ہے. اور اس سے آپ صرف اپنے وقتی طورپر ایک دو کام ہی نکلوا سکتے ہیں مگر چمچہ گیری کیلیے آپکو 24/7 حاضر رہنا پڑتا ہے. چمچہ گیری کی لوڈشیڈنگ قابل قبول نہیں. اگر ایسا ہوا تو آپ چمچوں کی فہرست سے خارج. ایک چمچہ کبھی بھی بھوکا نہیں رہتا. اگر آپ کسی سیاستدان کے چمچے ہیں تو اپنے آپکو کامیاب بنانے کیلیے انکے ہر جلسے کو زیادہ سے زیادہ سامعین جمع کرکے کامیاب بنائیں چاہے تو سامعین جمع کرنے کیلیے آپکو پیسے کیوں نہ دینے پڑیں. اگلے دن اخبارات میں صاحب کی تقریر انکی تصویر کے ساتھ ضرور شائع ہونی چاہیے. اور اگر وہ آپکے دفتر کا بوس ہو تو آئے روز اپنے گھر کھانے پہ بلا لیں.کبھی بڑے بیٹے کی ہیپی برتھ ڈے کر ڈالیں تو کبھی چھوٹے بیٹے کی. یا پھر اپنی ہی سالگرہ منا ڈالیں. اور صاحب کو ایک دو پاؤنڈ کا کیک کھلا ڈالیں. اور آفس میں صاحب کو سبھی ملازمین کی شکایتیں کرتے رہیں. انکی نالائقی کی پولیں کھولتے رہیں۔
لنچ ٹائم میں اپنے ساتھ کھانے کی دعوت بھی دے ڈالیں اور کبھی تو صاحب کیلیے بھی اپنے ہی گھر سے کھانا لے آئیں. اور اگر کسی دن آپکا بوس آپکو ڈانٹ دے تو اپنی مزاحمت میں کچھ کہنے کی بجائے خاموش رہیں. بے عزتی کو سوپر بسکٹ سمجھ کے ہضم کرلیں. اگر ایسا نہ کیا تو آپکا ہاضمہ بھی خراب ہوگا اور ساتھ جاب سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا. کامیاب چمچہ بننے کیلیے آپکو خوامخواہ جذباتی یا حساس ہونے کی قطع ضرورت نہیں۔
یہ چمچے نامی مخلوق صرف امیر اور عہدے والے انسان کے پاس ہوتی ہے. غریب انسان کے چمچے نہیں ہوتے.ویسے بات کی شروعات تو ہم نے بھی کسی کا چمچہ بن کے ہی مگر ہم بتاتے چلیں ہمارا چمچہ گیری سے 796096 مربع کلو میٹر یا اس سے بھی دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں. ہم تو سر پھرے مگر سادہ بندے ہیں۔کھانا کھانے کیلیے بھی چمچ کا استعمال نہیں کرتے اپنے ہاتھ سے کام چلاتے ہیں. کسی اور کے چمچے بننا کیونکر پسند کریں گے. چمچہ ہونے اور چمچے جیسی شکل ہونے میں بہت بڑا فرق ہے. یہ تو ہمیں اپنی دوست سے ہمدردی ہوئی تو خیال آیا.یاد رکھیں چمچوں کا کام صرف لڑانا ہے نہ کہ خود لڑنا. قانون کی زد میں آنے والا پھر بھی ضمانت پا لیتا ہے مگر چمچوں کی زد میں آنے والا کبھی بھی نہیں سنبھلتا. بس دھیان رکھیں کسی چمچے سے لڑائی نہ ہو۔
تحریر : نادیہ خان بلوچ