تحریر : ایم سرور صدیقی
میاں نوازشریف نے ایک بار بھرے جلسہ ٔ عام میں کہا تھا قدم بڑھائو نواز شریف! ہم تمہارے ساتھ ہیں کا نعرہ نہ لگایا کرو ۔۔۔ایک مرتبہ قدم بڑھایا تھا پیچھے مڑکر دیکھا تو کوئی نہ تھا۔۔۔ یہ حقیقت دنیا کا چلن ہے اچھے وقت میں سب ساتھ ہوتے ہیں برے وقت کا ساتھی کوئی نصیب والا ہی بنتاہے لیکن جس کیلئے قربانی دی جائے وہی نظراندازکردے توشاید دنیا میں بے حسی کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں ہوتی شاید اسی لئے یہ ضرب المثل مشہورہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ میاں نوازشریف سے محبت کے دعوے کرنے والے بہت ہے لیکن حقیقت میںفقط ایک شخص ۔۔۔جی ہاں دنیا میں فقط ایک شخص ایسا ہے جس نے میاں نوازشریف کے لئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیاہے مشرف دور میں اس پر ۔۔ اس کے ساتھیوں رشتہ داروں پر مقدمات بنائے گئے۔ اسے جیل میں قیدکیا گیا۔
عقوبت خانوںمیں بدترین تشدد کیا گیا اس کے باوجود مار مارکھا کر بے ہوشی کے عالم میں بھی اس کے منہ سے یہی نکلا نوازشریف زندہ باد۔۔ حیف اس قربانیاں دینے والے” اکلوتے ہیرو ” حاجی امداد حسین کو بھی فراموش کردیا گیا۔۔۔اسے نظر اندازکرنے والے کوئی اور نہیں ۔۔۔ اپنے تھے اپنوںکا نظراندازکرنا قتل کرنے سے بھی زیادہ خوفناک ہوتاہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جن پر بیتی ہو حاجی امدادحسین اپنی شناخت کی تلاش میں مسلم لیگ Qسے پیپلزپارٹی اور تحریک ِ انصاف میں چلے تو گئے لیکن ان کے اندر کا انسان آج بھی بیقرار اور بیکراں پھرتاہے۔ اپنے گھر والے کسی پر دروازے بند کردیں تو دربدر پھرنا ہی پڑتاہے۔۔۔۔شمالی لاہور کی سیاست میں یقینا حاجی امداد حسین کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں آپ ایک سچے محب وطن اور،سچے سیاستدان ہیں ان سے ایک ملاقات کرنے والا زندگی بھر کے لئے ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے وہ انتہائی مہمان نواز ، خوش اخلاق ،ملنسار اورمحبت کرنے والی شخصیت ہیں یہ بھی آپ ہی کو اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان بھر میں میاں نواز شریف کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں ان کے خاندان نے دی ہیں۔
جب 12اکتوبر1999ء کومیاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا پورے ملک میں سناٹا چھا گیا مسلم لیگ ن لاہور کے بڑے بڑے لیڈگھروں میں دبک کر بیٹھ گئے،لاہور میاں نواز شریف کا قلعہ ہونے کے باوجودایک شخص بھی سڑک پر نہیں آیا،کسی نے آمریت کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہ کی،میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کی اکثریت نے خوف کے مارے اپنے گھروں اور دفاتر سے ان کی تصاویر تک اتروا دیں اس قحط الرجال دور میں لاہور کے گلی کوچے نواز شریف زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھے اس مرد قلندر کو تاریخ حاجی امداد حسین کے نام سے یاد کرتی ہے جس کی توانا آواز نے قصر ڈکٹیٹر کو ہلا کررکھ دیاتھا۔
یقینا جمہوریت حاجی امداد حسین کی اس سیاسی جدوجہد کو تاقیامت سلام پیش کرتی رہے گی۔ اگر12اکتوبر1999ء کے بعد کے حالات وواقعات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا حاجی امداد حسین آمریت کے مقابلہ میں تن تنہا ڈٹ گئے وہ One Man Armyکے مصداق ایک احتجاجی تحریک کی علامت بن گئے۔ ان کے خاندان کے بیشتر افراداور ساتھیوں کو گرفتا ر کرلیا گیا،خود حاجی امداد حسین کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کے دونوں پائوں کی ایڑھیاں توڑ دی گئیں اورجسم کی چمڑی اتاردی گئی جس کی کیمپ جیل کی دیواریں بھی گواہ ہیں اورطارق حمیدبٹ ،عارف حمید بٹ وغیرہ اس کے عینی شاہد بھی ہیں—-اب سوچنے کی بات ہے حاجی امداد حسین کا جرم کیا تھا؟ اس کا جرم تھا میاں نواز شریف سے محبت ۔۔۔اس پر الزام تھاتم میاں نواز شریف زندہ باد کیوں کہتے ہو؟ اس پرفرد جرم عائد کی گئی کہ حاجی امداد حسین اور اس کے ساتھیوں نے جمہوریت پر شب خون مارنے والے ڈکٹیٹر کو گالیاں دی ہیں۔اس کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ اس نے سیاست کے کوفے میں امام حسین کی پیروی کرتے ہوئے حاکم وقت کے سامنے علم بغاوت بلند کیوں کیاہے ؟ جب جیل کی کال کوٹھری میںحاجی امداد حسین کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا تو بیشتر پارٹی رہنما کسی معجزے کے منتظر تھے یا پھر”چپ شاہ” بنے حالات بہتر ہونے کاانتظار کررہے تھے۔
پورے پاکستان میںصرف ایک حاجی امداد حسین اپنے لیڈر—-اپنے قائد—-اوراپنے محبوب رہنماکی خاطر اکیلا پوری کی پوری آمریت سے ٹکرا گیارہائی کے بعد اسے میاں نواز شریف سے وفا کا یہ صلہ ملا کہ اسے بند گلی میں دھکیل کر پارٹی چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا حالانکہ مسلم لیگ ن لاہور کے حیثیت سے انکی کار کردگی مثالی تھی ۔پارٹی قیادت کو چاہیے تھا کہ وطن واپس آکران اسباب کو معلوم کرتی کہ اپنے جسم کے ٹپکتے لہو سے کیمپ جیل کی کال کو ٹھری میں نواز شریف زندہ باد لکھنے والاحاجی امداد حسین پارٹی چھوڑنے پر کیوں مجبور ہو ا؟ ۔۔۔حاجی امداد حسین نے اپنی زیر ترتیب خودنوشت میں لکھا۔۔ ایک دن پیشی کے موقع پر انسدادد ہشت گردی کے جج نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا”حاجی امداد پتہ ہے تم لوگوں پر جو دفعہ لگی ہے اس کی سزا کیا ہے؟ ”معلوم نہیں —– – میں نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
”نواز شریف کو جو 14سال قید کی سزا ہوئی ہے ،اس نے استفسار کیا، اس کا علم ہے؟ ”سزا کا علم ہے——میں نے اثبات میں جواب دیا ——دفعہ کا پتہ نہیں” ”میاںنواز شریف پر دفعہ7-Bلگی تھی جس کی سزا 14سال قید ہے——اس نے گھورتے ہوئے کہا تم لوگوںپر تو7-Aبھی ہے ان2 دفعات میں تمہیں39سال قید ہوگی” ہم کوئی کریمینل ہیں؟میں نے خاطر جمع رکھتے ہوئے کہا”بھٹو کریمینل تھا ؟اس نے الٹا مجھ پر سوال کرڈالا ——-میں نے کہا مارنے والے سے بچانے والا زیادہ طاقتور ہے ۔ انسدادد ہشت گردی کے جج کے جواب سوال سن کر سب کے ہوش اڑ گئے میرے ساتھ باقی ”ملزمان” میں حاجی عبدالمنان شیخ (سابقہ MPAشاد با غ ) ملک محمدریاض موجو دہ MNAشاہدرہ ٹائون ، مہرمحمد عاشق محلہ شاہ نور داروغہ والہ ،حاجی خادم حسین ،حاجی طالب حسین(برادرز حاجی امداد حسین) ،محمد الیاس ولد محمد نذیر داروغہ والہ ،،کیپٹن طارق زیتون کالونی ، وحید گل(موجودہ کوارڈی نیٹر وزیر اعلیٰ پنجاب) ، فیاض احمد بھانجا میاں ذوالفقارراٹھور )سکنہ تاج باغ ، عمر حیات ، محمد رمضان غازی آباد ،حافظ محمد اقبال مین بازار مسلم آباد مغل پورہ، مقصود احمد گجر(موجودہ وائس چیئرمین) اورایم ایم ریاض ہیرو دیگر موجود تھے۔
سب کے سب ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے ،میرے بڑے بھائی حاجی خادم حسین نے فکرمند ہو کرکہا اگر مجھے علم ہوتاکہ اس کیس میں اتنی لمبی سزا ہو سکتی ہے تو میںاورحاجی طالب حسین کبھی گرفتاری نہ دیتے ——-میں نے حاجی خادم حسین کے کندھے پر ہاتھ رکھ کرکہا ”باہر چلیں میں بتاتا ہوں ——-کمرہ عدالت سے باہر نکل کرمیں نے حاجی خادم حسین سے کہا اوپر دیکھیں اس نے اوپر نیچے دائیں بائیں اور آگے پیچھے دیکھ کر کہا اوپر کیا ہے؟ میں نے اپنی انگلی آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے کہا اوپر رب العزت ہے جو مارنے والے سے بچانے والا زیادہ طاقتور ہے —— میری باتیں سن کر سب کو حوصلہ ہوگیا ۔۔۔ گذشتہ 10سالوں کی علاقائی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو حاجی امداد حسین شمالی لاہور کی سب سے زیادہ متحرک شخصیت ثابت ہو سکتے ہیں ۔مسلم لیگ ن لاہور کے صدر اورARDکے جنرل سیکرٹری اور صدر کی حیثیت سے انکی کارکردگی مثالی رہی۔یہ حاجی امداد حسین کی شخصیت کا اعجاز،کامیاب سیاسی حکمت عملی اوربھرپور کوشش محنت اور لگن کا نتیجہ تھا۔
لاہور میں2004ء عام انتخابات اور پھر بلدیاتی انتخابات میںمسلم لیگ ن لاہور نے انکی قیادت میںلاہور کو فتح کرلیا حالانکہ مشرف کی آمریت کے باعث خوف وہراس تھا اس ماحول میں حاجی امداد حسین کی قائدانہ صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں اور انہوں نے عملاً ًلاہور کومسلم لیگ ن کا قلعہ ثابت کر دکھایا اور زمانے نے دیکھا کہ وہ امتحان کے وقت بھی ثابت قدم رہے لیکن ایسی مخلص، بے باک ،نڈر شخصیت کے خلاف بھی سازشیں شروع ہو گئیں سازشی بھی اپنے تھے جب انہیں تنہا کردیا گیا ،دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا تو وہ بددل ہوگئے،حاجی امداد حسین کواتنا مجبور کردیا گیاانہوں نے مایوس ہو کر اپنی پارٹی کو خیر باد کہہ دیا لیکن پارٹی قیادت نے انہیں ایک با ربھی پوچھنا گوارا نہیں کیا کہ حاجی امداد حسین تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس صورت حال سے ان کے مخلص ساتھی تو پریشان تھے۔
مگر شایدماضی کے عیار سجن ایسا ہی چاہتے تھے کہ ان کے راستے کا کانٹا نکل جائے۔۔۔ میاں نوازشریف نے اپنے بدترین” دشمن” جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں کو قبول کرلیا حالانکہ ان کی تو میاں نوازشریف سے کوئی دلی لگائو بھی نہیں تھا پھر حاجی امداد حسین کو نظرانداز کرنا عقل سے بعید ہے جلاوطنی کے بعد وطن واپسی پر چاہیے تو یہ تھا کہ میاں نوازشریف کی محبت میں کسی ڈکٹیٹرکے خلاف آواز بلند کرنے کی پہلی شخصیت حاجی امدادحسین کو” مجاہد ِ جمہوریت ”کا خطاب دے کر ”تمغہ ٔ جمہوریت ” سے نوازا جاتا لیکن انہیں نظراندازکردیا گیا میاں نوازشریف کی محبت میں اپنے لہوکا نذزانہ پیش کرنے والے کے ساتھ یہ سلوک دیکھ کر کون قربانیاں دے گا ہمیں تو دور کہیں دور بلکہ دور تلک۔۔ کوئی نظرنہیں آرہا۔
تحریر : ایم سرور صدیقی