تحریر: اقراء اعجاز
میں گھر سے نکلی ہی تھی کہ دو اوباش نوجوان میرا پیچھا کرنے لگے .یہ روز کا معمول تھا میں ایک مقامی سکول میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیتی تھی روزانہ گھر سے نکلنا ہوتا تھا اور اکثر و پیشتر ایسے حالات کا سامنا بھی کرنا پڑتا .اکثر کوفت بھی ہوتی مگر اب حالات ہی ایسے ہیں کیا کیا جا سکتا ہے روز کی طرح یہ سب سوچتی میں چلتی جا رہی تھی وہ اوباش برابر فقرے کس رہے تھے مجھ پر آج معمول سے زیادہ گھبراہٹ طاری تھی آج ہمارے سکول میں سالانہ درس کی تقریب تھی اور میری شمولیت بھی لازمی تھی سو چلتی گئی .
اللہ اللہ کر کے سکول کا گیٹ نظر آیا تو میری جان میں جان آئی آج ہماری قاریہ بہن کا موضوع پردہ تھا ہال کچھا کھچ بھرا ہوا تھا اسٹیج پر محترمہ قاریہ صاحبہ براجمان تھیں انہوں نے باقاعدہ درس کا آغاز کیا پردہ کے معنی ہیں اپنے آپ کو چھپانا اور حجاب عورتوں کا غیر مردوں سے ستر چھپانا ہے .قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے اور مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس زینت کے جو خود ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پہ اوڑھنی کے بکل مار لیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے شوہر .باپ .سوتیلا بھائی .بھتیجا.بھانجا.اپنی عورتیں اپنے غلام وہ لڑکے جو ابھی عورتوں کی پردہ کی باتوں سے آگاہ نہیں ہیں وہ چلتے وقت اپنے پاؤں زمین پر اس چرح نہ مارتی چلیں کہ جو زینت چھپا رکھی ہو اس کا اظہار ہو اے نبی صل اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے
الاحزاب ٥٩
زمانہ جاہلیت میں پردہ اور حجاب نام کی کوئی چیز نہ تھی لیکن جوں جوں اسلامی تہزیب و معاشرت وجود میں آئی پردے کے بارے میں وقتا فوقتا احکامات جاری ہوتے رہے حتی کہ اسلامی نقطہ نظر میں پردے کے بارے میں مکمل حد بندی نافذ ہو گئی عورت کا ستر سوائے چہرے اور ہاتھوں کے باقی پورا جسم ہے سوائے چند حالتوں کے جن میں چھوٹ ہے
مثلا کوئی مریضہ کسی طبیب کے زیر علاج ہو کوئی عورت کسی مقدمہ میں قاضی کے سامنے بحثیت گواہ ہو یا کوئی عورت پانی میں ڈوب رہی ہو تو اس کی جان بچانا مقصود ہو تب پردے میں رخصت ہے
زمانہ جاہلیت میں عورتیں کھلی پھرتی تھیں اور بدکار لوگ ان کا پیچھا کرتے تھے اللہ تعالی نے شریف عورتوں کو حکم دیا کہ اپنے اوپر چادر ڈالیں
صحابہ کرام کے دور میں بھی اس آیت کا یہ ہی مفہوم لیا گیا اور احادیث سے بھی ثابت ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عورتیں اپنے چہروں پہ نقاب ڈالنے لگیں اور کھلے چہروں کے ساتھ پھرنے کا رواج ختم ہو گیا ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے چنانچہ جب کوئی عورت اپنے پردہ سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو مردوں کی نظر میں اچھا کرکے دکھاتا ہے بروائت جامع ترمزی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی نے فرمایا عورت کا پردہ کرنا شہید کے خون سے بھی افضل ہے مگر میری بات سے یہ اندازہ نہ لگا لیا جائے کہ پردہ کے احکامات محض خواتین کے لیئے نازل کیئے گئے ہیں بلکہ مردوں کو بھی اپنی نگاہ نیچی رکھنے اپنا ستر چھپانے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے
مردوں کی غیرت کا اندازہ نہ صرف اس کے گھر کی عورتوں سے لگایا جاتا ہے بلکہ مردوں کا اپنا بھی ایک کردار ہوتا ہے اور مضبوط کردار کے مرد ہی اپنی عورتوں کی حفاظت کر سکتے ہیں قاریہ محترمہ کی آواز گونج رہی تھی اور میں شرم سے پانی پانی تھی میرا آج کا حلیہ قطعا بھی اسلامی شرعی اصولوں کے مطابق نہ تھا اور میں گالیاں ان نوجوانوں کو دے رہی تھی جب مجھے خود اپنی عزت کی حفاظت کا شعور نہیں تھا تو میں کسی دوسرے سے کیا امید لگا کے بیٹھی تھی میری بہنو جب ہم خود اپنی عصمتوں کی حفاظت میں سرگرداں نہیں ہوں گی تب تک ایسے ہی ستائی جائیں گی اللہ تعالی نے ہماری حفاظت کے لئے پردے کے احکامات جاری فرمائے ہیں مگر ہم خود ہی دعوت نظارہ بنے پھرتے ہیں میرا یہ کالم لکھنے کا مقصد ہی یہ ہی ہے کہ جیسے ان محترمہ کی بات نے اللہ کے حکم سے مجھ پر اثر کیا شائد میری بات آپ سب کے لئے مشعل راہ بن جائے آپ میں سے کسی ایک کا بھی دل بدل جائے تو میرے لئے بڑا اعزاز ہوگا
تحریر: اقراء اعجاز