تحریر : اختر سردار چودھری
قدرت اللہ شہاب گلگت میں 26 فروری 1917ء کو محمد عبداللہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پنجاب کے گائوں چمکویہ، ضلع انبالہ مشرقی پنجاب سے حاصل کی، اس وقت پنجاب تقسیم نہیں ہوا تھا۔ بی ایس سی کی ڈگری 1937ء میں پرنس آف ویلز کالج جموں و کشمیر سے حاصل کی اور ماسٹر ان انگلش لٹریچر گورنمنٹ کالج لاہور سے 1939ء میں کیا۔ اور1941ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہوگئے، ابتداء میں شہاب صاحب نے بہار اور اڑیسہ میں خدمات سرانجام دیں۔ 1943ء میں بنگال میں متعین ہو گئے ۔قیام پاکستان تک وہیں رہے۔ شہاب1947ء میںپاکستان آئے جہاں وہ سیکرٹریٹ میں بھی رہے آزاد کشمیر کی نوزائیدہ حکومت کے سیکرٹری جنرل بھی بنے ، جھنگ کے ڈپٹی کمشنر رہے ، تین سربراہان ِ مملکت کے پرسنل سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیئے یہ ہی نہیں ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر جیسے عہدوں پر بھی فائز رہے۔
جس وقت جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا انہوں نے استعفی دے دیا ۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہوگئے ۔اب کچھ بات ہو جائے شہرہ آفاق کتاب شہاب نامہ کی ۔شہاب نامہ اردو ادب کی زندہ کتاب ہے ۔ اس میں ملکی تاریخی سے لے کر روحانیت تک سب کچھ موجود ہے ۔پاکستا ن میں یہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے ۔ ان کی کتاب کے چار حصے کیے جا سکتے ہیں۔پہلا حصہ قدرت اللہ کا بچپن اور تعلیم وغیرہ پر مشتمل ہے۔قدرت اللہ شہاب اپنی خود نوشت ”شہاب نامہ” میںلکھتے ہیں ۔9 جون 1938ء سے میں نے باقاعدہ ایک ڈائری لکھنے کی طرح ڈالی ۔اس میں ہر واقعہ کو ایک خود ساختہ شارٹ ہینڈ میں لکھے ۔ایک روز یہ کاغذات ابن انشا ء کو دکھائے ۔ دوسری ملاقات میںابن انشاء نے قدرت اللہ شہاب کا ایک بھر پور انٹرویو کیا ،ان دنوں ابن انشا ء بیمار تھے ۔ان کے کہنے پر کافی مدت بعد قدرت اللہ شہاب نے اس کتاب کو لکھا ۔کتاب کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں ”خوش قسمتی سے مجھے ایسے دوستو کی رفاقت نصیب ہوئی جن کا اپنا اپنا رنگ اور اپنی اپنی شخصیت ہے۔
مثلاََ ابن انشاء ،ممتاز مفتی ،بانو قدسیہ ،اشفاق احمد ،واصف علی واصف ،جمیل الدین عالی ،ریاض انور ،ایثار علی ،مسعود کھدر پوش ۔ابن الحسن برنی ،اعجاز بنالوی ،ابو بخش اعوان و غیرہ ۔قدرت اللہ شہاب نے کتاب کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ میں نے حقائق کو انتہائی احتیاط سے ممکنہ حد تک اسی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ،جس رنگ میں وہ مجھے نظرآئے ۔کتاب کے پہلے حصے میں شہاب نے بہت سے زند ہ کردار تخلیق کئے ۔ ان کرداروں میں مولوی صاحب کی بیوی ، چوہدری مہتاب دین ، ملازم کریم بخش اورچندرواتی وغیرہ ۔چندراوتی کا سراپا یوں لکھتے ہیں۔ رنگت میں وہ سونے کی ڈلی تھی ۔ اور جلد اس کی باریک مومی کاغذ کی تھی ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ۔ایک روز وہ چھابڑی والے کے پاس تاز ہ گنڈیریاں کٹوانے کھڑی ہوئی تو میرے دل میں آیا ۔ ایک موٹے گنے سے چندرا وتی کو مار مار کر ادھ موا کردوں اور گنڈیریوں والے کی درانتی سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے دانتوں سے کچر کچر چبا ڈالوں۔”
چندراوتی شہاب نامہ کا ایک بے مثال کردار ہے ۔ جس کے اندر محبت کا الائو دہک رہا تھا، لیکن وہ زبان پر نہ لا سکی اور مر گئی ۔ اور اس طرح شہاب صاحب کے افسانے کا عنوان بنی لکھتے ہیں” جب مجھے چندراوتی سے محبت شروع ہوئی اسے مرے ہوئے تیسرا روز تھا۔”کتاب کا دوسرا حصہ ”آئی سی ایس میں داخلہ اور دور ملازمت”پر مشتمل ہے ۔ کانگرس ہائی کمان کا خفیہ منصوبہ جو شہاب صاحب نے جوش جنوں میں قائداعظم تک پہنچایا یہ واقعہ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔کتاب کے تیسرے حصے میںپاکستان کے بارے میں تاثرات وغیرہ ہیں ، اس حصے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اسلامی فلاحی ریاست کیسے بن سکتا ہے ۔وہ کہتے ہیں ”ہمیں حب الوطنی کا جذبہ نہیں بلکہ جنون درکار ہے ۔ ”کتاب کا سب سے اہم حصہ چوتھا حصہ ہے جس میں ”دینی و روحانی تجربات و مشاہدات”بیان کیے گئے ہیں ۔یہاں ہم ان کی کتاب کے مختصر تین پہرہ گراف پیش کر رہے ہیں۔
”میں نے دنیا بھر کے درجنوں سربراہان مملکت ،وزرائے اعظم اور بادشاہوں کو کئی کئی مرتبہ کافی قریب سے دیکھا ہے ۔لیکن میں کسی سے مرعوب نہیں ہوا ۔اور نہ ہی کسی میں مجھے اس عظمت کا نشان نظر آیا جو جھنگ شہر میں شہید روڈ کے فٹ پاتھ پر پھٹے پرانے جوتے گانٹھنے والے موچی میں دکھائی دیا تھا ۔””جمہوریت کا سکہ اسی وقت چلتا ہے ،جب تک وہ خالص ہو ۔ جوں ہی اس میں کھوٹ مل جائے ،اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی۔” صاحب اقتدار اگر اپنی ذات کے گرد خود حفاظتی کا حصار کھینچ کر بیٹھ جائے تو اس کی اختراعی ، اجتہادی اور تجدیدی قوت سلب ہو کر اسے لکیر کا فقیر بنا دیتی ہے ۔”” جا ن نے مجھے شستہ انگریزی میں دو تین گالیاں دیں ۔ میں نے اس کی کلائی مروڑ کر پیٹھ پر ایک لات جمائی اور اسے مرغا بننے کا حکم دیا۔ یہ اصطلاح اس کے لئے نئی تھی ۔ میں نے خود مرغا بن کر اس کی رہنمائی کی۔”
قدرت اللہ شہاب کی وفات کے بعد ان کے بارے میں جو کتابیں شائع ہوئیں ان میں ”ذکر شہاب”مراد بریشم”خاص طور پر مقبول ہوئیں۔ان کے علاوہ ان کے خطوط کے مجموعے بھی چھاپے گئے ۔ ان کی اس خدمت کی بدولت مقبوضہ عرب علاقوں میں یونیسکو کا منظور شدہ نصاب رائج ہوگیا۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل انہی کی کوششوںسے عمل میں آئی۔حکومت پاکستان کی جانب سے ان کو ستارہ قائداعظم اور ستارہ پاکستان ملا۔ان کی تصانیف میں یاخدا، نفسانے ،سرخ فیتہ، ماں جی اور ان کی خود نوشت سوانح حیات ”شہاب نامہ” قابل ذکر ہیں۔ پاکستان کے نامور اردو ادیب اور بیورو کریٹ قدرت اللہ شہاب نے 24 جولائی 1986ء کو اسلام آباد میں وفات پائی اور اسلام آباد کے سیکٹر Hـ8 کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔
تحریر : اختر سردار چودھری