تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
مادیت اور نفسا نفسی میں غرق شہر لندن میں ہم ایسے منظر کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لندن کے مقیم جن کی ہڈیوں تک ما دیت اور مطلب پرستی سرا ئیت کر چکی ہے جن کے پاس ایک دوسرے کو سلام کر نے کا بھی وقت نہیں ہے یہاں پر لوگ اگر کسی کو فون کئیے بغیر یعنی اجازت لیے بغیر کسی کے گھر چلے جا ئیں تو لو گ دروازہ کھولنے سے انکار کر دیتے ہیں اور آنے والے کو بد تہذیت جا ہل اور گنوار سمجھا جا تا ہے کہ وہ اطلا ع دئیے بغیر کیوں آگیا ۔ آنے والا ہزار معذرتیں کر لے کہ میراملنے کو دل کر رہا تھا میںبہت اداس تھا مجھے آپ کی بہت یا د آرہی تھی لیکن یہاں زندگی کی بھاگ دوڑ میں کسی کے پاس وقت نہیں ہے ۔
مشینی نظام میں ہر کو ئی بُری طرح الجھ چکا ہے کہ وہ خو د بھی مشینی پرزے میں ڈھل چکا ہے یہاں پر پتہ ہی نہیں چلتا کب انسان جوانی کی بھاگ دوڑ سے بڑھا پے کی وادی میں اُتر جا تا ہے اور پھر دوائوں سے اور تنہا ئی سے دوستی کر نی پڑتی ہے ۔ ما دیت کی عالمگیر لہر نے پو رے لندن اور بر طانیہ کو اپنے آہنی شکنجے میں بُری طرح جکڑا ہوا ہے اِس لیے جب ہم سنٹرل لندن کرا س کر تے ہو ئے پٹنی کے علا قے میں مقیم میزبان کے گھر پہنچے تو ہمارے ساتھ رابطے کی وجہ سے اُس نے ہما رے آنے تک وسیع و عریض ڈائینگ ٹیبل کو دنیا جہاں کے لذیز خو ش رنگ اور اشتہا انگیز کھا نوں سے بھر دیا تھا ۔
ہما ری حیرت اور خو شی آخری حدوں کو چھو رہی تھی کیونکہ کھا نوں میں اکثر یت پا کستانی روایتی کھا نو ں کی تھی دن بھر کی سیر اور لمبے سفر کی وجہ سے ہما ری بھو ک نقطہ عرو ج پر تھی اوپر سے اشتہا انگیز کھانوں کی خو شبو اور کھانوں سے اٹھتی ہو ئی بھاپ نے تو ہما ری بھو ک کو پا گل پن کی حد تک بڑھا دیا تھا میزبان نے میزبا نی کا اعلی مظا ہر ہ کر تے ہو ئے آتے ہی کہا سر با ت چیت کھا نے کے دوران اور بعد میں ہو تی رہے گی آپ ہا تھ دھو لیں اور ڈا ئریکٹ کھا نے کی میز پر آجا ئیں میزبان اور اُس کی فیملی کے چہروں پر عقیدت محبت کے چراغ روشن تھے اُن کے چہروں کی چمک اور مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ ہما رے آنے سے بہت خو ش ہیں ۔
کھا نوں کی اشتہا انگیزی اور ہما ری تیز بھوک کی وجہ سے ہم نے فوری طور پر کھا نے پر حملہ کر دیا ہما ری بھو ک اور کھا نے کی لذت نے ہمیں اپنے سحر میں جکڑ لیا ہم دنیا و ما فیا سے بے خبر کھا نا کھا رہے تھے ابھی ہما رے کھا نے کا عمل درمیان میں ہی پہنچا ہو گا کہ اچانک بہت تیز میوزک بجنا شروع ہو گیا میوزک کی تیز آواز سے ہما رے کا نو ں کے پر دے پھٹنے کے قریب تھے پہلے تو ہم نے میو زک کی تیز آواز کو نظر انداز کر نے کی کو شش کی لیکن میو ز ک اتنا تیز اور بے ہنگم تھا ہما ری سما عتوں میں شگا ف پڑتے محسوس ہو نے لگے ۔ تیز میو زک کے درمیان کبھی کبھی کسی نسوانی آواز کی آمیزش بھی ہو جا تی ۔
بے وقت اور بے ہنگم تیز میوزک نے ہما رے کھا نے کو بھی متا ثر کر نا شروع کر دیا ہما رے میزبان اور ان کے نو جوا ن بیٹے جو جو ش و خروش سے ہمیں کھا نا Serveکر رہے تھے سا تھ سا تھ وہ کھا نوں کی ترکیبیں اور بنا نے کے طریقے بھی بتا ئے جا رہے تھے ۔ کھانا بنا نے والے کو اگر تعریف مل جا ئے تو اُس کی سا ری تھکا وٹ دور ہو جا تی ہے ۔ ہم کھا نو ں پر تبصرہ اور تعر یف دل کھول کر کر رہے تھے اور میزبان ہما ری تعریفوں کو خوب انجوا ئے کر رہے تھے میزبان اور ہما رے وہم و گما ن میں بھی نہ تھا کہ اچانک ا،س مصیبت کا سامنا کر نا پڑے گا ۔ ہما رے میزبانوں کے چہروں پر شر مندگی اور پریشانی کے آثار گہرے ہو تے جا رہے تھے اُن کے چہروں کے تا ثرات اور رنگوں سے واضح طو ر پر پتہ چل رہا تھا کہ اُن کے لیے یہ مصیبت پہلی با ر نہیں آ ئی بلکہ اُن کا واسطہ اِس مصیبت سے اکثر اوقات پڑتا رہتا ہے ۔ وہ بار بار ایک دوسرے کی طرف دیکھ اور اشارے کر رہے تھے ۔
ایک بیٹا با ر بار کہہ رہا تھا اپنے با پ سے کہ وہ پو لیس کو کا ل کر نے لگاہے جبکہ با پ شا ید پو لیس کو نہیں بلا نا چا ہتا تھا ۔ بیٹا کیونکہ جوا ن خو ن تھا وہ بار با ر کہہ رہا تھا کہ پولیس کو بلا لیا جا ئے ۔ ہم اِس اچانک صورتحا ل سے کنفیوژ اور پریشان ہو چکے تھے ۔ میزبان اصل بات سے واقف تھے ہم با لکل بے خبر تھے میو زک سا تھ والے گھر سے تواتر سے جا ری تھا ۔ کچھ دیر تک تو میزبان آپس میں اشاروں اور دبی زبان مین گفتگو کر تے رہے ۔ اِس دوران میزبان اِس انتظار میں بھی تھے کہ شاید پڑوسیوں کو رحم آجا ئے اور وہ خو د ہی میو زک بجا نا بند کر دیں اس دوران وہ بار بار ہم سے معذرت بھی کر رہے تھے ہم اچھی طرح جان چکے تھے کہ اِس میں میزبانوں کا با لکل بھی قصورنہیں ہے ۔ ہم چہروں پر مسکراہٹ سجا ئے با ر بار کہہ رہے تھے کہ کو ئی با ت نہیں اِس میں آپ کا تو با لکل بھی قصور نہیں ہے ۔
یہ عذاب تو آپ کے پڑوسیوں نے آپ پر نا زل کیا ہے ۔ ہما رے میزبان نا کر دہ غلطی کی شرمندگی اُٹھا رہے تھے ۔ جب کا فی دیر تک میو زک بند نہ ہوا تو میزبان کے صبر کا پیما نہ چھلک پڑا با پ نے جب دیکھا کہ اُس کے نو جوان بیٹے بہت غصے میں آچکے ہیں اور وہ پو لیس کو بلا نے لگے ہیں تو اُس نے بیٹو ں سے کہا آپ انتظا ر کر یں میں پڑوسی سے با ت کر کے آتا ہوں ۔ با پ سختی سے بیٹوں کو روک کر خو د دروازہ کھو ل کر با ہر چلا گیا ۔ با پ کے جا نے کے بعد پو رے گھر پر سکو ت طا ری ہو چکا تھاصرف تیز میوزک جاری تھا ہم سب مجرموں کی طرح سر جھکا ئے بیٹھے تھے وہ گھر جو چند لمحے پہلے خو شگوار قہقوں سے کوگونج رہا تھا جہاں چاروں طر ف مسکراہٹیں رقص کر رہی تھیں اب خا موشی کی چادر تنی تھی ۔ ہم سب سنا ٹے کے اسیرہو کر رہ گئے تھے ۔ میزبان اِس با ت پر شرمندہ تھا کہ مہمانوں کی مو جو دگی میں یہ بد مزگی پیدا ہو ئی ہے ۔ اور ہم اِس بات پر پریشان تھے کہ بیچارے خو اہ مخواہ شرمندگی میں ڈوبے ہو ئے ہیں جن میں میزبانوں کا رتی برا بر بھی قصور نہ تھا ہمیں حیرت اِس با ت کی تھی کہ بر طانیہ جو تہذیب اور اخلا قیا ت کا چیمپئین بنتا ہے جہاں پر انسان تو کیا جا نوروں اور کتوں کا بھی بہت خیال رکھا جا تا ہے اُس ملک میں اِ س درجے کی بد تہذیبی کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بد تہذیبی اور بد اخلا قی ہما رے اور میزبانو ں کے سامنے ہٹ دھرمی اور سینہ زوری سے جا ری تھی ۔
میزبان اور ہم اس بے ہنگم میو زک کوسننے پر مجبو ر تھے ہم بے بسی اور شر مندگی کے مجسموں کا روپ دھا ر چکے تھے ۔ ایک دوسرے سے نظریں چرائے خا موش بیٹھے تھے کہ میزبان صاحب ابھی گئے ہیں وہ میوزک بند کرا کے ابھی واپس آجا ئیں گے ۔ وقت گزرتا جا رہا تھا لیکن میو زک بند نہیں ہو رہا تھا اب میوزک میں کسی نسوانی آواز بلکہ چیخوں کا بھی اضا فہ ہو گیا تھا لگ رہا تھا کہ پڑوسیوں نے میوزک بند کرنے سے انکا ر کر دیا ہے اور وہ لڑا ئی پر آما دہ ہیں پھر نسوانی آواز میں با آواز انگریزی میں گا لی گلو چ بھی شروع ہو گئی اب ہمیں احساس ہو چکا تھا کہ پڑوسیوں نے میو زک بند کر نے سے انکار کر دیا ہے بلکہ وہ بد تمیزی پر اُتر آ ئے ہیں جب کا فی دیر گزر گئی تو بیٹے غصے سے تنگ آکر پو لیس کو فون کر دیا کہ یہاں پر مسئلہ ہو گیا ہے آپ فوری آجا ئیں ۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956