counter easy hit

سوچنا ہوگا

Blasphemy

Blasphemy

تحریر: شاہ بانو میر

ریاست ہوگی ماں کے جیسی
ہر شہری سے پیار کرے گی

یہ کیسی ریاست ہے جس میں اپنے شہریوں کیلئے پیار رواداری تو نہیں ہے . البتہ پیسے کے انبار ہمیشہ کی طرح عوامی جزبات پر حاوی دکھائی دے رہے ہیں . پاکستان جیسا ملک ہو اور وہاں کا عدالتی نظام آزاد ہو چلیں مان لیتے ہیں . چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں کہ توہین رسالت کی سوچ نے شدت جزبات کو ابھارا اور ایک انسان نے حکومتی اہم منصب پر فائز شخص کو گولی مار دی . مقدمہ لڑا گیا ایک طرف مذہبی شدت پسندی پر مبنی جزبات اور عوامی سمندر جس کی ہمدردیاں پہلے دن سے آخری لمحے تک اس انسان کے ساتھ تھیں . ریاست ہوگی ماں کے جیسی؟ سمجھ سے بالاتر ہے ایسا ملک جہاں ایک عورت خواتین کے مسائل کو لے کر سرمایہ اکٹھا کرتی ہے بیرون ملک اپنی این جی او کو مزید فعال بناتی ہے دنیائے صحافت اور شو بز میں کود کو کامیاب منواتی ہے۔

آخر میں انعام پاتی ہے اور انعام تھام کر جیسے ساری عوام کا مذاق اڑا کر کہتی ہے دیٹ از دا پاور آف فلم ؟یہ کیا ہے؟ سر عام پوری دنیا کو آپ نے خود بتا دیا کہ کہ یہ فلم باقاعدہ سوچی سمجھی کوئی سکیم ہے؟ جس کو وزیر اعظم کی سرپرستی حاصل ہے؟ ستم بالائے ستم آپ خواتین کی آڑ لے کر حقوق نسواں پر ایک بل کو عین اسی وقت منظور کرتے ہیں؟ اس فلم پر غیر ملکی سرمایہ لگا کر ہمیشہ کی طرح احساس کمتری کا شکار دکھائی دیتے ہیں . یہ کیسا ملک ہے؟ یہ کیسی ریاست ہے؟۔

ایک طرف غیر ملکی سوچ پر مبنی اپنے ملک کی تذلیل کو احساس تفاخر سے پیش کیا جاتا ہے اور دوسری جانب یہی ریاست ایک پاکستانی کو تختہ دار پے لٹکا دیتی ہے حالانکہ بخوبی واقف ہے کہ اس کی سزا پر عمل درآمد شائد ان کی حکومت کو گرانے کا باعث بن جائے . جس ملک میں پُل سڑکیں صرف اس بنیاد پر کمزور تعمیر کی جائیں کیونکہ انہیں الیکشن سے پہلے تیار کرنا ہے تا کہ ووٹ لئے جا سکیں. بے شک وہ پل دیگر تعمیرات تیار ہوتے ہی جا بجا دراڑوں کا ٹوٹ پھوٹ کا شکار دکھائی دیں اور ایسی ناقص تعمیرات جب اچانک گرتی ہیں تو وہی ازلی بد نصیب پاکستانی اس کے نیچے پس کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

جن کی جانوں کی قیمت اس لئے کچھ نہیں کیونکہ وہ ایسے حاکموں کے دور میں ہیں جب صرف مادیت پرستی اور پیسہ ہی سب کچھ ہے . ایسے دور میں اپنے ہی شہری اور ان کی جان کی اہمیت سبزی بھاجی سے بھی کم سمجھی جاتی ہے مگر ریاست کی یہ ناسمجھی کبھی کبھار کسی عام انسان کو عام زندگی سے زیادہ موت اتنا عظیم بنا دیتی ہے کہ حکومتیں ایسی جان کے بعد جاتے بھی دیکھی گئی ہے. جسے اللہ پاک نے عزت دینی ہو اس کا سامان وہ خود پیدا کرتا ہے. آج پورا ملک بری طرح ہیجان میں مبتلا ہے۔

Protest Mumtaz Qadri

Protest Mumtaz Qadri

کون شہید ہے کون نہیں افسوس آج ہم نے الجھا دیا سیاستوں کی وجہ سے اسی الجھا نے آج ملک کو دو راستوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک طرف ریاست دوسری جانب عوامی ٹھاٹھیں مارتا احتجاج کرتا عوامی سمندر مسئلہ سزا یا جزا کا نہیں ہے مسئلہ ہے اس بے حس حکومت کے عمل درآمد کرنے کا جس ملک میں بے شمار فوری نوعیت کی اہمیت کے حامل ہزاروں کیس فائلوں کے ڈھیر کے نیچے صاحب اقتدار کے ایک اشارے کے منتظر برسوں سے پڑے ہوں؟ عوام کا اعتماد ٹوٹا ہے جیسے بیرونی طاقتوں نے ان کا منہ چڑایا ہو اور حکومت نے حسب سابق غیر ملکی آقاوں کو خوش کرنے کیلئے ایک اورکارنامہ سر انجام دیا ہو؟

جو ملک ہر دور میں نظریہ ضرورت کو ایجاد کر کے خود کو کہیں نہ کہیں اقتدار کیلئے مضبوط کر لیتا ہے؟ ایسے سیانے وزیروں مشیروں کے ہوتے ہوئے ریاست کا اس وقت یہ فیصلہ کیا عوامی سوچ کے ساتھ براہ راست ٹکراو کی سوچ پر مشتمل نہیں ریاست ریمنڈ ڈیوس جیسے بے شمار شہادتوں کے ساتھ پیش ہونے والے مجرم کو راتوں رات واپس بھجوا دیتی ہے اور بیٹے جیسے نقصان پر کثیرروپیہ دیت کے نام پر دے کر آنسوں کو خشک اور لبوں کو سر بمہر کر دیتی ہے یہ تو اس کا اپنا بیٹا تھا پاکستانی تھا عوامی جزبات کا سمندر تھا اس کے ساتھ ؟ کیا اس کیس کو طوالت نہیں دینی چاہیے تھی؟ یہ ریاست کیسی ماں ہے؟ جو اپنے بیٹوں کو کھا رہی ہے جیسے سانپ کی مادہ اپنے ہیبچے کھا جاتی ہے۔ سوچنا ہوگا۔

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر: شاہ بانو میر