تحریر : وسعت اللہ خان
دنیا میں جو بھی جماعتیں یا گروہ کسی ایک شخص یا نظریے کے گرد گھومتی ہیں انھیں باہر سے توڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔جیسے ہی بیرونی چوٹ پڑتی ہے جماعت اپنے اکلوتے رہنما یا نظریے سے مزید چمٹ جاتی ہے اور کچھوے کی طرح گردن اندر کر کے دفاعی انداز اختیار کر لیتی ہے، اور جیسے ہی حملہ ختم ہوتا ہے گردن باہر نکال لیتی ہے۔ اگر ایسی جماعت یا گروہ کو کیچوے کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر بھی دیا جائے تو ہر ٹکڑا الگ الگ کیچوا بن جاتا ہے۔ بیرونی مثالیں دیکھنی ہوں تو افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) کو لے لیجیے۔ جنوبی افریقہ کی گوری اقلیتی حکومت نے اے این سی کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے مگر اے این سی میں نیلسن منڈیلا کی شخصیت کے سبب شگاف نہ پڑ سکا۔اگر منڈیلا کو ہلاک کر دیا جاتا تو ہو سکتا ہے کہ ونی منڈیلا اسے نہ سنبھال پاتیں اور اے این سی سیاسی جد و جہد اور مسلح جد و جہد کے حامیوں میں بٹ جاتی۔
جو جماعتیں کسی خاص شخصیت کی بجائے کسی نظریے سے جڑی ہوتی ہیں انھیں باہر سے توڑنا کتنا محال ہے اس کی ایک مثال اخوان المسلمون ہے۔ سنہ 1928 میں اپنی تاسیس سے آج تک یہ جماعت عرب دنیا میں مسلسل متشدد خارجی دباؤ کا شکار ہے مگر کوئی عرب حکومت اسے کلیتاً ختم نہ کر پائی اور اخوان کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ سیاسی طور پر ابھر آتے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ حصے بخرے مسلم لیگ کے ہوئے، کیونکہ پاکستان بننے کے بعد یہ نہ تو کوئی ٹھوس نظریاتی جماعت رہی اور نہ ہی محمد علی جناح کے بعد کسی ایک شخصیت کے مدار میں رہی۔ اس کے برعکس نیشنل عوامی پارٹی یا عوامی نیشنل پارٹی سرخ پوش دنوں سے ہی شخصیت پرستی اور نظریے کو ساتھ لے کر چلتی رہی۔ یعنی باچا خان کا نظریہ اور باچا خان کا خاندان۔ چنانچہ متعدد بار پابندی لگنے یا کالعدم قرار دیے جانے کے باوجود وہ آج بھی اپنا سیاسی کردار ادا کر رہی ہے۔
عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمان سے پہلے تک شخصیت پرست نہیں تھی اور نہ ہی شدید قوم پرست۔ مگر اگرتلہ سازش کیس کے بعد سے شیخ مجیب اور عوامی لیگ اور بنگالی نیشنل ازم لازم و ملزوم ہوگئے۔ انتخابات جیتنے کے بعد بھی جب اسٹیبلشمنٹ نے عوامی لیگ کو ہر حربے سے دبانے کی کوشش کی تو پارٹی کے اندر جو طبقہ مجیب کی انتہا پسندی ایک خاص حد تک آگے جانے کا مخالف تھا وہ مجیب سے بھی زیادہ انتہاپسند ہو گیا اور پھر طاقت کے زور پر عوامی دریا کا رخ اپنی مرضی کے راستے پر چلانے کا انجام سب نے دیکھ لیا۔ پیپلز پارٹی روزِ اول ہی سے ذوالفقار علی بھٹو کا دوسرا نام تھی۔ پارٹی اقتدار میں نہیں تھی تب بھی بھٹو ہی تھا، اقتدار میں آئی تب بھی بھٹو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بنے رہے۔ ان کی سخت گرفت کے ہوتے پارٹی میں گروہ بندی ممکن نہیں تھی۔ احمد رضا قصوری اور غلام مصطفی کھر بھی پارٹی سے علیحدہ ہو کر کچھ نہ کر سکے۔
اگر جنرل ضیا کا خیال تھا کہ بھٹو کے منظر سے ہٹتے ہی پارٹی بھی ٹوٹ جائے گی تو یہ صرف اس صورت میں ممکن تھا اگر بےنظیر بھٹو اور نصرت بھٹو سامنے نہ ہوتیں۔ چنانچہ ایک عام کارکن کے اندر بھٹو کے بعد کوئی سیاسی کنفیوژن پیدا نہیں ہوا۔ اس کے لیے بھٹو کی روح ماں اور بیٹی میں خود بخود منتقل ہوگئی اور کوثر نیازی کی پروگریسو پیپلز پارٹی، غلام مصطفی جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی اور بہت بعد میں فیصل صالح حیات کی پی پی پی پیٹریاٹ کی بھٹو خاندان کے سامنے ذرا بھی دال نہ گل سکی۔
اگر پیپلز پارٹی کمزور ہوئی بھی تو بےنظیر کے منظر سے ہٹنے کے بعد اپنی اندرونی بے اعتدالیوں کے سبب۔ چنانچہ آج کی پیپلز پارٹی صرف اپنی وجہ سے صوبہ سندھ میں قید ہے کسی بیرونی جبر کے سبب نہیں۔ایم کیو ایم روزِ اول سے الطاف حسین کا دوسرا نام اور شخصیت پرستی کے اعتبار سے یہ پاکستان کی سب سے قابلِ ذکر جماعت ہے تین آپریشن اسے باہر سے ختم نہیں کر سکے۔ عظیم احمد طارق، آفاق احمد، جناح پور، را کے ایجنٹ، عمران فاروق قتل کیس، منی لانڈرنگ اور بھتہ گیری سمیت سب طرح کے حالات و واقعات و شخصیات و الزامات کے باوجود ایم کیو ایم کا ووٹ بینک جوں کا توں ہے۔ پارٹی کا ڈھانچہ ایسا لچکدار ہے کہ آپریشنوں کے دوران وقتی طور پر تو یہ دب جاتی ہے لیکن جیسے ہی دباؤ کم ہوتا ہے پھر سے ابھر آتی ہے۔
اب مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی صورت میں ایک اور کوشش زیرِ تعمیر ہے۔ مگر سوال پھر وہی ہے کہ ووٹ بینک کیسے ٹوٹے گا؟ فی الحال اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔الطاف حسین کے منظر سے ہٹنے کے بعد عین ممکن ہے کہ ایم کیو ایم میں نظریاتی اور سٹرکچرل تبدیلیاں آئیں، ہو سکتا ہے یہ پارٹی ایک سے زائد دھڑوں میں بٹ جائے، مگر جو بھی اچھا برا نتیجہ برآمد ہوگا پارٹی کے اندر سے ہی ہوگا، پیراشوٹی کوششوں سے نہیں ہوگا۔شاید اس بار بھی ایم کیو ایم کا قبلہ درست کرنے کے معاملے میں جلد بازی دکھا دی گئی ہے