تحریر: نعیم الرحمان شائق
قوموں کی نوک پلک سنوارنے میں انصاف اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جنگل کو جنگل اس لیے کہا جاتا ہے ، کیوں کہ وہاں انصاف نہیں ہوتا۔ یوں ہی نہیں کہا گیا کہ کفر پر قائم حکومت زندہ رہتی ہے ، جب کہ ظلم اور ناانصافی پر قائم حکومت اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ کسی بھی حکومت کے لیے انصاف قائم کرنا ایک مشکل ترین کام ہوتا ہے ۔ انصاف کیا ہے ؟ انصاف یہ ہے کہ سب کے حقوق کی پاس داری کی جائے۔ کسی کو کم تر نہ سمجھا جائے ۔ سزا سب کے لیے یک ساں ہو ۔ اگر کوئی امیر جرم کرے تو اسے وہی سزا ملنی چاہیے، جو غریب کواسی جرم کے کرنے پر دی جاتی ہے ۔ اگر کوئی حکومت نا انصافی کرتی ہے، تو وہ عوام سے زیادہ اپنا نقصان کرتی ہے۔ کیوں کہ عوام ایسی حکومت کو پسند ہی نہیں کرتی، جو انصاف نہ کرے ۔ اور کبھی کبھا ر عوام کی یہی نا پسندیدگی حکومت کے لیے وبال ِ جاں بن جاتی ہے ۔ زیرک اور عقل مند حکم ران وہی ہوتا ہے ، جو سب کو دیکھ کر چلتا ہے اور حتی الامکان اپنی راج دھانی میں انصاف پر مبنی نظام ِ حکومت کو فروغ دینے کے لیے مصروف ِ عمل رہتا ہے۔
ان دنوں ہمارے دانش وروں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی قوم نئے سیاسی اور معاشرتی منظر کی وجہ سے دو انتہاؤں پر کھڑی ہے ۔کسی بھی قوم کے لیے یہ واقعی تشویش ناک صورت حال ہوتی ہے ۔ لیکن ہماری قوم آج ان دو انتہاؤں پر کیوں کھڑی ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہماری قوم دو اانتہاؤں پر منقسم تھی نہیں ، بلکہ اس کو کیا گیا ہے ۔ وجہ نا انصافی ہے ۔ حکومت انصاف کرے تو قوم میں پھیلا خطرناک انتشار خود بہ خود ختم کیا جا سکتا ہے ۔اس سے معلوم ہو ا کہ ناانصافی ایک خطرناک قسم کی انتہا پسندی کو بھی جنم دیتی ہے ۔ جس سے قوم کی تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔ ہم اپنی قوم کو ہی دیکھ لیں ۔ لبرل لوگ اور مذہبی لوگ ایک دوسرے سے کتنے دور ہو چکے ہیں ۔ یہ در حقیقت موجودہ حکومتی پالیسیوں کا ہی شاخسانہ ہے۔ حکومت نا انصافی کی مرتکب ہوئی ۔ اس لیے ہمیں یہ منظر دیکھنا اور سہنا پڑ رہا ہے۔
حکومت سے زیادہ عوام سے کون واقف ہوتا ہے ؟ پچھلے دنوں حکومت نے عوام کا مزاج جانتے ہوئے بھی ایک ایسے شخص کو پھانسی دے دی، جس کو عوام اتنا جانتے نہیں تھے، جتنا مانتے تھے۔جاننے اور ماننے کی بھی عجیب منطق ہے ۔ جاننے والا عقل کو مرکز و محور سمجھتا ہے ، جب کہ ماننے والا عشق کو ۔ معرکہ ِ عشق و عقل میں جیت بالآخر عشق کی ہی ہوتی ہے ۔ جب عشق کی جیت ہوتی ہے تو عقل استعجاب اور حیرت کے بحر ِ بے کراں میں ڈوب جاتی ہے۔ عقل پریشان ہوجاتی ہے کہ آخر عشق نے یہ معرکہ کیسے سر کر لیا ، جو میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا؟
میں بھی کیسی بحث میں پڑ گیا ۔ بات ہو رہی تھی حکومت کی ، جس نے پچھلے دنوں ایک ایسے شخص کو پھانسی دی ، جس کی عقیدت ہمارے عوام کے دلوں میں بیٹھی ہوئی تھی ۔ جب حکومت سے اس بابت دریافت کیا گیا تو جواب ملا کہ یہ عدالتی فیصلہ تھا ۔ حکومت کا نہیں ۔ بجا اور بالکل بجا۔ لیکن انصاف کا تقاضا پورا کرتے ہوئے بھی حکومت نا انصافی کی مرتکب ہوئی ۔ وہ اس طرح کہ جو اس ساری جنگ و جدل کی اصل محرکہ ہے ، وہ ابھی تک صحیح سلامت ہے ۔ 4 جنوری 2011ء کو سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا ۔ ان کے انتقال سے پہلے توہین ِ رسالت کی مرتکبہ آسیہ بی بی کا فیصلہ عدالت کرچکی تھی ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سلمان تاثیر کا کیس تو چار پانچ سالوں میں نمٹا دیا جائے ، لیکن اس سے بھی پہلے سے چلنے والےکیس کو نظر انداز کر دیا جائے ۔ جو لوگ ممتاز قادری کی پھانسی پر آسیہ بی بی کی پھانسی یا سزا کی بات کر رہے ہیں ، وہ اپنی جگہ بالکل درست ہیں ۔ بلاشبہہ انصاف بھی یہی ہے ۔ میرے خیال میں حکومت اب بھی ۔۔۔اگر چہ بہت سارا وقت گزر چکا ہے ۔۔۔ یہ کام کر لیتی ہے تو ہمارے عوام کو دو انتہاؤں سے نکالنے میں کام یاب ہو جائے گی۔
میں نا انصافی کا رونا کہاں تک روؤں؟ یہاں صرف حکومت ہی نہیں عوام بھی نا انصافی کی مرتکب ہوتی ہے ۔ میڈیا کو ہی لے لیجیے ۔ جب ممتاز قادری کی پھانسی کا واقعہ پیش آیا تو پیمرا نے بڑی سختی سے عوام کے احتجاج وغیرہ کی کوریج سے منع کر دیا اور جو میڈیا گروپ اس کا ” مرتکب ” ہوا، اس کا نوٹس لے لیا گیا ۔ یہ کیا بات ہوئی ؟ جب میڈیا حق و صداقت کا علم بردار ہے تو تو پھر یہ جانب داری کیوں کر ؟میرے خیال میں یہ بھی ایک قسم کی نا انصافی ہے ۔ پیمرا کی طرف سے کہا گیا کہ میڈیا کے اس عمل سے ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گا۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے پیمرا کی بات مان لی اور جو کچھ کہا گیا ، اس پرمن و عن عمل کیا گیا اخبارات کے اداریوں میں ملکی کے موجودہ حالات میں بھونچال پیدا کرنے والے اس واقعے سے بڑی چابک دستی اغماز برتا گیا ۔ ہمارے ملک کے دانش وروں اور قلم کاروں نے (سوائے چند کے ) بھی اس ضمن میں “محتاط” رہنے کی مکمل کو شش کی۔ مگر سماجی میڈیا کا کیا جائے؟ یہ شتر ِ بے مہار ہے ۔ جو مواد ٹی وی پر ممنوع قراردیا گیا ، وہ یو ٹیوب ، فیس بک ، واٹس ایپ وغیرہ پر آ گیا ۔ مگر پیمرا کے پاس اس درد ِ لادوا کے لیے کوئی علاج نہیں تھا۔
ممتاز قادری کے جنازے میں لاکھوں کا مجمع تھا ۔ اس مجمعے کو دیکھ کر “ماننے “سے زیادہ” جاننے “پر یقین رکھنے والے حیران و ششدر رہ گئے ۔ ان کو اس کی توقع نہیں تھی ۔ ہمارے میڈیا کے بڑے حصے نے ممتاز قادری کی پھانسی کے ضمن میں لبرل لوگوں کا ساتھ دیا ۔ میڈیا سمجھ رہا تھا کہ شاید اس کی ” رائے عامہ کی ہم واری ” رنگ لائے گی ۔ مگر ممتاز قادری کے جنازے میں اتنے بڑے عوامی اجتماع نے شرکت کر کے بتا دیا کہ پاکستان کے عوام کا جھکاؤ مذہب کی طرف زیادہ ہے ۔حکومت اور عوام کو سوچنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان دونوں کی نا انصافیوں کی وجہ سے ممتاز قادری کو اتنی زیادہ عوامی پذیرائی ملی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر دونوں کو اپنے رویوں میں تبدیلی کرنی پڑے گی۔
تحریر: نعیم الرحمان شائق
پتا: کراچی
رابطہ: 03212280942
ای میل : shaaiq89@gmail.com
فیس بک: fb.com/naeemurrehmaan.shaaiq