counter easy hit

کراچی بد امنی کیس کی سماعت ، پولیس افسر خود وارداتوں میں ملوث ہیں :چیف جسٹس

 Chief Justice

Chief Justice

پولیس رپورٹ دیکھ کر لگتا ہے کراچی میں سب اچھا ہے ، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہو رہی ہیں ، شہر میں انتیس ہزار مفرور ملزم ہیں :دوران سماعت ریمارکس
کراچی (یس اُردو) سپریم کورٹ نے کراچی بد امنی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس رپورٹ دیکھ کر لگتا ہے سب اچھا ہے ، آپریشن کی ضرورت نہیں ، پولیس آفیسر وارداتوں میں ملوث ہیں اور آپ کہتے ہیں اغوا برائے تاوان ختم ہوگیا ۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ شہر میں انتیس ہزار ملزمان مفرور ہیں ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے کراچی بد امنی کیس کی ایک سال بعد سماعت دوبارہ شروع کی ۔ لارجر بنچ میں جسٹس امیر ہانی مسلم ، جسٹس شیخ عظمت سعید ، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس خلجی عارف حسین شامل ہیں ۔ پولیس نے عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں سب اچھا ہے کی گردان سنائی جس میں کہا گیا ہے کہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ میں 69 فیصد قتل کی عام وارداتوں میں 74 فیصد کمی آگئی ہے جبکہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق بھتہ خوری 60 ، بینک ڈکیتیاں ، 58 اور عام ڈکیتیوں میں 87 جبکہ سٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں 25 فیصد کمی آئی ہے ۔ عدالت نے رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا لگتا ہے سب اچھا ہے آپریشن کی ضرورت نہیں ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا آپ کے پولیس آفیسر وارداتوں میں ملوث ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں اغوا برائے تاوان ختم ہوگیا ، ایس ایس پی عامر فاروقی نے اغوا برائے تاوان میں ملوث پولیس افسران کے خلاف انکوائری کی آپ کے پاس آکر معاملہ ٹھنڈا ہوگیا ۔ آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ میں نے کارروائی کی ہے ، چیف سیکرٹری کو بھی پتہ ہے جبکہ چیف سیکرٹری کا کہنا تھا انہیں ایسی کسی کارروائی کا علم نہیں ہے ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا شہر میں دو ہزار ٹارگٹ کلرز گھوم رہے ہیں آپ کہتے ہیں صورتحال بہتر ہے پولیس نے وارداتوں کے لئے پرائیویٹ لوگ حاصل کر رکھے ہیں ۔ جب گواہ پیش نہیں کریں گے تو عدالت ملزمان بری ہی کرے گی پھانسی تو نہیں دے گی ۔ پولیس بے گناہوں کو پکڑ کر ان کے رشتے داروں کو بلا کر پیسے لیتی ہے ۔ عدالت نے رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس کی آئی جی کو ہدایت کی ہے کہ کل دوبارہ رپورٹ پیش کی جائے