counter easy hit

کرکٹ یا تماش بینی

Cricket

Cricket

تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری
کرکٹ کا کھیل ہمارے لیے سو ہان ِروح بنا ہوا ہے چھوٹے بچے بڑے سبھی اس سے ذہنی تکلیفوں میں ملوث ہوتے جارہے ہیں گلی گلی میں بچوں نے کرکٹ کھلینا شروع کر رکھا ہے چاہے تعلیم حاصل کرنے کا قیمتی وقت کتنا ہی ضائع ہو تا رہے ایسے معلوم دیتا ہے کہ ہمیں اس کے علاوہ کوئی کام ہی نہ ہے۔ہٹلر نے پانچ روزہ میچ کے اختتام پر پو چھا کہ میچ کاکیا بنا۔اسے بتایا گیا کہ کھیل بغیر ہار جیت کے ختم ہو گیا ہے اس نے کہا کہ قوم کا اتنا وقت ضائع ہو گیا ہے ۔

اس نے ساری کرکٹ ٹیم کو ختم کر ڈالنے کا حکم دے ڈالااور اس پر عمل در آمد بھی ہو گیا۔اور آئندہ کرکٹ کے کھیل پر پابندی عائد کردی۔آخر ہم بھی تو سوچیں کہ کیا کرکٹ سے ہماری قوم کی ذہنی تعمیر ہو گی۔کیا یہ کوئی نظریہ پاکستان کی ترویج یا اشاعت کے لیے کام آنے والافارمولہ بنے گی۔ہم ملک دو لخت کر بیٹھے ۔مگر کبھی پورے ہند و پاک پر حکمرانی تھی ۔انگریز قابض رہااور جاتے ہوئے ہمیں پاکستان کی صورت میں پانچواں حصہ دے گیا۔ہندو بنیوں نے مکاریوں اور انگریز کی جعلی تابعداریوں سے ہم سے پانچ گناہ زیادہ ملک کی حکمرانی حاصل کی ۔

اور پھر سازشوں سے ہمارا مشرقی بازو کاٹ ڈالا۔ 70 کے انتخابات میں جیتنے والی دونوں سیاسی پارٹیوں کے لیڈر مجیب اور بھٹو اقتدار کے لالچوں میں ایسے جھومے کہ بٹوارا کرکے دونوں اقتدار کے تخت پر قبضہ جما بیٹھے۔ہم میں قومی غیرت جاگنی چاہیے تھی مگر ہم کھیل تماشوں اور روپوں کے لالچوں میں ہی گم رہنا چاہتے ہیں۔مزید اندرونی و بیرونی خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں اورہم اور ہمارا میڈیاہر وقت کرکٹ کے بخار میں مبتلا رہتا ہے۔اور کھلاڑیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی اچھی آفر ملے۔کہ تم اگر اتنی جلدی آئوٹ ہوجائو تویہ بھاری رقم لے لیناہر کھلاڑی بکائو مال بننا چاہتا ہے۔

میچوں کے دنوں میں گلی کوچے میں جوا کے اڈے کھل جاتے ہیں حتیٰ کہ مزدور بھی روزانہ دیہاڑی کی رقم لاکرجوا کے اڈے پر انویسٹمنٹ کرتا ہے کہ شاید اس سے رقم دوگنی چوگنی ہوسکے۔تقریباً ساری قوم جواری بن جاتی ہے گھر گھر اور سرکاری دفتروں تک میں ٹی وی پر سارادن لوگ بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف نظرآتے ہیں ۔ہماری دوسری اہم کھیلیں بھی اسی کی نظر ہو گئی ہیں۔آخر کبڈی ،پہلوانی ،فٹ بال اور ہاکی وغیرہ جو کہ باڈی کو فٹ رکھنے کے لیے ضروری کھیلیں تھیں وہ کہاں گئیں۔پہلوانی مسلمانوں کا ہمیشہ سے پسندیدہ تھاگو گا اور بھولا وغیرہ دنیا کے چیمپئن رہے۔

اب کیا ہے نہ کوئی حکومتی سر پرستی ہے نہ پہلوانی کے اکھاڑے ہیں ۔نوجوان نسل سگریٹ چائے یا دوسرے نشوںپر لگ چکی ہے۔آج کا نوجوان جان بوجھ کر دوپہر بارہ بجے کے بعد اٹھتا ہے ایک ڈیڑھ بجے ناشتہ کرکے نہاتا دھوتا اور سیر سپاٹے کو نکل جاتا ہے۔محنت اور کسی کام میں اس کا دل نہیں لگتا۔ہر وقت یا تو کسی باہر کے ملک کو سدھار جانے کے پلان سوچتا ہے۔یا پھر زرداریوں شریفوں ایان علی وں ڈاکٹر عاصم وں کی طرح کھر ب پتی بن کرعیش پرستانہ زندگی گزارنے کے خواب دیکھتا رہتا ہے۔اپنی کھوئی ہوئی میراث اور وقارکو واپس لینے کا اس کے ذہن میں کبھی خیال تک نہیں آتا غرضیکہ ہماری قوم کے نوجوان غرق ہوتے جارہے ہیںا ور خواب خرگوش میں مدہوش ہوئے ہم سب کچھ برداشت کرتے ہیں۔

اب کھلاڑیوں کی حفاظت کا بھی کوئی پرو گرام نہ ہے ۔ان کے معاشرتی رابطوں ،انکے سیر سپاٹوں اور رت جگوں کو بند ہو نا چاہیے۔وقت پر سوئیں ،وقت پر اٹھیں مخصوص ورزشوںکے ذریعے ان کی باڈی کو فٹ کیاجائے۔جیسے ہم اہم پہلوانوں بھولو پہلوان اور اس کے خاندان کے لیے کرتے رہے ہیں ۔ہمارے کرکٹر مکمل فٹ اور صحت مند نہ ہونے کی وجہ سے ایسے کھیلتے ہیں کہ دو چارٹھمرے لگائے ذرا باڈی کوڈانس کرنے والیوں کی طرح دائیں بائیں گھمایا اور واپسی کا ٹکٹ کٹوایا۔ایسا لگتا ہے کہ یہ لو گ کسی مجرے اور ڈانس پارٹی میں شامل ہیں ۔بہتر یہ ہے کہ قوم کو کرکٹ کے بخار سے نجات دلائی جائے اور دیگر اوپر مذکورہ کھیلوں پر توجہ دیکرملک کا نام روشن کیا جائے۔اور کھلاڑیوں اور قوم کے ذہنوں میں اصلی پاکستانیت ،دین سے رغبت سخت محنت کرنے کے چراغ روشن کیے جائیں۔

Dr Ihsan Bari

Dr Ihsan Bari

تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری