تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان
دنیا یاپھر آخرت دنیا والوں نے دنیا کو خوش کیا مر نے والوں نے دنیا کو چھوڑ کر ومحمد ۖ کی محبت کے لیے پھانسی کے پھندہ کوگلے لگا لیا آخرت کس نے دیکھی ہے وہاں جا کر کو ئی واپس نہیں آ یا نہ کو ئی آئیگا حکمرا نوں کی عیاشیاں لوٹ مار نہ تھمنے کا نا م نہیں لے رہی میڈیا ما لکا ن نے آنکھیں بند کر لی جج صاحبان حقائق کو سننے بغیر کی اجلت میں حکمرانوں کے آقائوں کے مطابق فیصلہ دے دیا بے شک شہید کی جو موت ہے قوم کی حیات ہے غازی علم الدین شہیدکو گستاخ رسول کے قتل پر پھانسی دینے والے بدیسی انگریز ججز تھے اور یہاں پر آقائے نامدار محمد مصطفیٰۖکی آن کا بھی مسئلہ تھااور ججز بھی سارے مسلما ن تھے۔کیا وہ غیرت ایمانی کے مطابق فیصلہ دیتے؟یا انگریزی مروجہ قوانین کے مطابق یہ سوال کئی صدیوں تک جواب مانگتا رہے گا۔بہر حال اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم سرکاری ملازمین پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے چار پیسوں کے لالچ میں ہی نوکری کرتے ہیں۔
مگر کیا ملازم کے لیے یہ بھی ضروری امر ہے کہ وہ توہین رسالت کرنے والے مرتد یازندیق کی اگر حفاظت پر مامور ہے تو وہ اسے جاری رکھے۔یا پھر ہتھیار پھینک کر ملازمت ہی ترک کردے مگر وقتی اشتعال اور غیرت ایمانی و حُب رسول کے جوش و جذبہ سے سرشار ممتاز قادری نے فائر کرکے سلمان تاثیرجیسے مرتد کو جہنم واصل کرڈالا۔حالانکہ یہی سزا حکمرانوں کواسے دینی چاہیے تھی مگر احتجاجی جلسے جلوسوں کے بعد بھی مقدمہ تک کا اندراج بھی نہیں کیا جا رہا تھا۔حالانکہ حکمران قانونی طور پر کاروائی کرکے مجرم کو کسی بڑے چوک پر سرِ دارکھینچ ڈالتے تو ْقصہ تمام ہوجاتا۔مگرسامراجیوں کے بکائو حکمرانوں میں یہ اخلاقی جرأت کہاں۔ووتو ریمنڈ ڈیوس کی طرف سے کھلے عام قتل پر عدالتوں اور جیلوں سے چھڑوا کر باہر بھجوانے پر ہی مامور ہیں ۔یا پھر ہمارا ” کمانڈو”حکمران تھا کہ جس کے بارے میں ادھر سے حکم آیا۔
مال متال وصول کرکے اسے دشمنان دین کے قبضہ میں بھجوا ڈالتا تھاایسے کردار پا کستانی تاریخ میں شرمناک حیثیت رکھتے ہیں اب توکمانڈو کا بیانریکارڈ پر آچکا ہے کہ قادری شہید کی پھانسی پر اب سلمان تاثیر کی روح کو سکون مل گیا ہو گادراصل یہ خودناچنے والاگویے ٹائپ شخص ہے خدا کا کرنا کیا تھا کہ پاکستانی قوم کے جنرل بن بیٹھے اور وہ بھی 9/11کے دور میں ۔پھر تو ایک بیرونی فون کا ل پر چاروں شانے چت لیٹ گئے اور آج تک اس کے دور کے ڈرون حملوں اور قتل و غارت گری کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔بارڈر غیر محفوظ ہو چکے ہیں خصوصاً مغربی بارڈر بھی جہاں پریہی پٹھان لوگ ہر ایرے غیرے پاکستانی دشمن کیخلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہتے تھے۔آجکل ممنون حسین نے تو وہی کرنا تھا جو اس کے “اصل باس”نے کہنا تھا۔مگراب خدا کے گھر میں تو دونوں ہی ملعون ٹھہرے ہیں۔
علماء ،دینی سربراہوں اورپاکستانی مسلمانوں کے موقف کو سمجھاتک بھی نہیں بس سامراج کی خوشنودی اور اپنی حکومت کی طول العمری ہی اصل ٹارگٹ تھی۔زرداری ،عمران ،الطاف و غیرہ بھی اسی لالچ میں بندھے گم سم اور گونگے بہرے بنے ہو ئے ہیں۔اس لیے جلد از جلد فیصلے ہوئے اور پھانسی گھاٹ لے جاکرعملدرآمد بھی کرڈالا۔ اور جو بیسیوں توہین رسالت کے مجرمین عدالتوں سے پھانسی کی سزا پا چکے ہیں ان کو لٹکانے میں کیوں دیر ہو رہی ہے وہ کرسچن آسیہ جس نے توتوہین رسالت کی اور اسے بچانے کے لیے سلمان تاثیر نکل پڑا۔آئین پاکستان میں درج شدہ اس ضمن کی سزائے موت کو کالا قانون قراردیا۔صرف اسی لیے نہیں لٹکائے جارہے کہ ان کے لیے ابھی باہر سے دبائو مو جود ہے۔
ممتاز قادری کے کیس میں حکومت کو پھرتیاں تیزیاں دکھانے کی کیاضرورت آن پڑی تھی اب تو ہور چوپو!قوم غربت و کمزوری سے لاچار،نڈھال ہوئی سوئی پڑی تھی۔آپ نے مسلمانوں کی غیرت ایمانی کو جگا ڈالا ہے اب ان کے منحنی لاغر جسموں میں نبیۖکی محبت نے چنگاریاں بھر دی ہیں اور وہ آپ کو اور آپ کے اقتدار کو بھسم کرڈالنے کے لیے نکل پڑے ہیں دینی فرقوں میں منقسم سیاسی و دینی پارٹیاں بھی متحد ہوتی نظر آرہی ہیں وہ کسی کا کہا درست ہوتا نظر آرہا ہے کہ نواز شریف خود ہی اپنے اقتدار کے دوران بم کو لات مارڈالتا ہے اور پھر حکمرانی سے آئوٹ ہو کراسے زندانوں کی سیر کو جانا پڑتا ہے آبیل مجھے مار کی طرح آپ نے خود ہی اپنی سیاسی قبرتحفظ نسواں قانون منظور کرکے کھود ڈالی تھی۔اس میں بھلا دوسرے کاکیا قصور ہے۔
اب قوم 69سال بعد سیاستدانوں کی چالاکیاں،پھرتیاں اور لن ترانیاں دیکھ دیکھ کر باشعور ہو چکی ہے۔ اور دو بارہ ایسے لٹیرے سیاستدانوںاور نئے پاکستان کے نعرے والے عیاشوںکے قریب بھی پھٹکنے کو تیار نہیں۔مومن ایک سوراخ سے دوبارہ ڈسا نہیں جاسکتا کئی باریاںزرداری،جرنیل آمروںاور نواز شریف کی صورت میں بھگت چکی ہے۔کیا شاہزیب خاں کے قاتل شا ہ رخ جتوئی ،زین کے قاتل مصطفی کانجو کو پھا نسی ہو چکی؟ماڈل ٹائون کے بے گناہوں کے قاتل کہاں ہیں؟قصور میں 200بچوں سے بد فعلی کروانے والے ایم پی اے جس کی حویلی میں یہ گناہ ہوتا رہاکو سزا ملی۔نہیں نہیں کیوں کہ یہ پیسے والے اور سیاسی طاقت والے تھے۔
ممتاز قادری غریب محض تھا اس لیے اسے پھانسی دے ڈالی۔ وگرنہ کئی خو برو ایان علی گھوم رہی ہیں ذرا قانون نافذ تو کرکے دکھائو تو مانیں۔سلمان تاثیر تو ساری زندگی قران اور اس کی تعلیمات سے دور رہا شراب سے محبت کی اور اس کی ساری زندگی زنا سے عبارت ہے تاریخ کو جھٹلایا نہیں جا سکتاکہ اس ملعون گورنر کا جنازہ پڑھانے کے لیے کوئی تیار نہ تھا حتیٰ کہ گورنر ہائوس کا امام مسجد بھی نہیں ۔اب ممتازقادری کے جنازے نے موجودہ دور کے تمام اندرونی و بیرونی یزیدی حکمرانوں کے اوسان خطا کرڈالے ہیں۔
انڈیا میں ہنو مان شری کرشناکو گالی کی سزا صرف موت ،نیپال میں سورج کو گالی دینے کی سزا صرف موت ،یورپ میں کرسچن مذہب کی بے حرمتی کی سزا صرف موت اسرائیل میں یہودی مذہب کی بے حرمتی کی سزا صرف موت ۔پاکستان میںنبی آخرز مان ۖکی شان میں گستاخی کی گئی تو ملعون سلمان تاثیر گورنر کہے کہ کالا قانون ہے۔موت کی سزا نہیں ہونی چاہیے۔پھربھی سارے حکومتی گماشتے نواز، شہباز ،عمران الطاف اسے بچانے پر کمر بستہ ہو جائیں تو قوم بتائے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کہنے والے کدھر ہیں۔
میڈیا ایان علی کی پیشیوں کوپورا دن ہیڈ لائن بنا کر چلاتا رہا ریحام خان کی جدائیاں پوارا ہفتہ زیر بحث رہیںاب عاشق صادق ممتاز قادری کا لاکھوں کا مجمع جنازہ پڑھتا دکھانے سے گریز کیوں کیا گیا جس ملک کے حکمران عیاش ہو جائیں مظلو م کو عدالتیں انصاف نہ دیں غریبوں و بیوئوں کے ما ل ہڑپ کر لیے جا ئیں تو اس ملک میں آ فتیں ،زلزلے،سیلاب اور تباہی آتی ہیں ہمارے ملک کے حکمرانوں ِعدالتوں اور میڈیا کی بھی یہی صورت حال ہے۔
تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان