کراچی … …..چین میں دُلہن کی بڑھتی ہوئی قیمت پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ چین وہ ملک ہے جہاں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کافی کم ہےاور یہاں دُلہن کی قیمت دینے کا رواج جہیز کی رسم کی طرح ہے جس میں لڑکی کے گھر والے دولہا کو جہیزکی صورت میں رقم یا سامان دیتے ہیں۔
یہ رسم 50، 60 اور 70کی دہائیوں میں بھی موجود تھی لیکن اُس وقت ایک دُلہن کی قیمت تھرمس فلاسک ، یا پلنگ بھی ہوسکتی تھی، بعدازاں اس میں فرنیچر، ریڈیو اور گھڑی بھی شامل ہوگئی۔سن80 کی دہائی تک اس میں ٹیلی وژن اور ریفریجریٹر کا اضافہ بھی ہوا لیکن جب سے چین کی معیشت کھلی ہے تب سے دُلہن کی قیمت بھی رقم کی صورت میں لی جانے لگی ہے۔ دُلہن کی قیمت بڑھنے کی ایک وجہ معاشی خوش حالی ہےجبکہ دوسری بڑی وجہ ایک خاندان ،ایک بچہ کی پالیسی کے نتیجے میں ملک میں خواتین کی تعداد کا کم ہوجانا بھی ہے۔
ہارورڈ کے تحقیق کاروں کے مطابق اس وقت چین میں ہر 100 خواتین کے مقابلے میں 118 مرد ہیں جو تعداد میں خواتین سے چار کروڑ زیادہ ہیں۔خواتین کی اس طلب کے نتیجے میں ملک کے کچھ حصوں میں دُلہن کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے اور اس سے متاثر ہونے والوں میں سب سے زیادہ تعداد دیہی علاقوں کے مردوں کی ہے۔ہارورڈ کے محققین کا کہنا ہے کہ چین میں صنفی تناسب کے غیر متوازن ہونے کی وجہ سے ملک کے مایوس کنوارے مردوں میں جرائم کی شرح اور انتشار بھی بڑھ سکتا ہے۔چین میں اس خبر کے بعد انٹرنیٹ پر اس طرح کا شدید ردعمل کم از کم مغرب کے لیے حیران کن ہے۔کچھ لوگ لڑکی کے باپ کا دفاع کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ لڑکے اور لڑکی کو ایک دوسرے سے تعلق قائم کرتے وقت اس کے اثرات کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔ دیگر لوگ مختلف خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور دُلہن کی قیمت ادا کرنے کی رسم پر تنقید کر رہے ہیں۔