counter easy hit

خود غرض سیاست

Oligarchy

Oligarchy

تحریر : عبدالرزاق
عجب رنگ ہیں سیاست کے۔ کبھی دھوپ کبھی چھاوں۔ سیاست کے شہسواروں کے لیے کبھی اقتدار کے مزے ،کبھی قید و بند کی صعوبتیں اور کبھی اپنی ہی جنم بھومی سے لمبی جدائی۔اپنی نوعیت میں منفرد کھیل ہے عروج و زوال کا۔دلچسپ بھی ہے اور جوے کی طرح رسکی بھی ۔ خیر سیاست کا مزہ تو وہ ہی جانتا ہے جس نے اس کو چکھا لیکن ہم بھی مشاہدے کی آنکھ سے قیاس کر سکتے ہیں کہ ایسا مزہ کسی اور کھیل میں نہیں اور بالخصوص پاکستان جیسے ملک میں تو اس کا مزہ دوبالا ہے۔ پاکستان میں تو اس کھیل کے کھلاڑیوں کے وارے نیارے ہیں جو بھی اس میدان میں کودا دیکھتے ہی دیکھتے زیرو سے ہیرو بن گیا اور چند ہی سالوں میں تنگ دستی کو چاروں شانے چت کرتے ہوے امیر کبیر بن گیا۔

کہتے ہیں سیاست کا دل نہیں ہوتا لیکن شاید ضمیر ہوتا ہے کیونکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاست دانوں کا ضمیر اچانک جاگ اٹھتا ہے تازہ مثال کے طور پر جیسے ان دنوں سابق ناظم کراچی مصطفی کمال کے ضمیر جاگنے کا چرچا عام ہے۔موصوف اک عرصہ تک الطاف حسین کی گود میں لوری لیتے رہے اور بعض مواقعوں پر تو فرط جذبات سے مغلوب ہو کر ان کے کندھوں پر عقیدت بھرے بوسوں کی برسات کر دیا کرتے تھے۔آج جب الطاف حسین چلنے پھرنے سے قاصر ہیں بلکہ اپنی ہی ذات میں اک ہسپتال بنے ہوے ہیں اور بعض رپورٹر تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ بس چل چلاو ہی کا معاملہ ہے تو اس صورتحال میں اچانک مصطفی کمال کا ضمیر ہلکورے لینے لگا ہے اور الظاف حسین ان کو برائیوں کا گڑھ نظر آنے لگا ہے۔

بھئی یہ وہ ہی الطاف حسین ہے جس کی پر تشدد کاروائیوں سے ملک کا چپہ چپہ آگاہ تھا اور حکومتیں بھی سب کچھ جانتے بوجھتے اس پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتی تھیں کیونکہ کراچی کا امن بگاڑنے میں یہ صاحب ید طولیٰ رکھتے تھے۔ ویسے حیرت مجھے اس بات پہ ہے کہ آخر ہمارے سیاستدانوں کا ضمیر اتنی دیر سے کیوں جاگتا ہے اور خاص کر ایسے مواقعوں پر تو ضرور انگڑائی لیتا ہے جب کسی سیاسی جماعت کا جنازہ نکلنے والا ہو یا کوئی سیاسی لیڈر زیر عتاب ہو۔

مصطفی کمال سے پہلے بھی ہمارے دو ہر دلعزیز سیاستدانوں کا ضمیر جاگا تھا جن کا خوب چرچا بھی ہوا ۔ چونکہ وہ دونوں سیاستدان اپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے ان کے ضمیر کی آواز بھی ملک کے طول و عرض میں سنی گئی۔ان میں ایک شاہ محمود قریشی ہیں اور دوسرے مخدوم جاوید ہاشمی ۔ شاہ محمود قریشی عرصہ دراز تک پیپلز پارٹی کے زیر سایہ اقتدار کے ایوانوں میں پورے طمطراق سے چہل پہل کرتے رہے اور من پسند وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے اور جب موصوف سے وزیر خارجہ کا قلمدان واپس لیا گیا تو اچانک ان کا ضمیر پھڑک اٹھا اور اس زور سے پھڑکا کہ اس نے شاہ صاحب کو پیپلز پارٹی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

لہٰذا شاہ صاحب روشن ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر پیپلز پارٹی کو خیرباد کہہ کر تحریک انصاف کے کارواں کا کلیدی کردار بن گئے۔شاہ صاحب کو چشم زدن میں زرداری کی ذات میں وہ عیوب نظر آئے جو دو دہائیوں تک ان کی نگاہوں سے اوجھل رہے ۔ان کی دانست میں بات بھی ٹھیک تھی شاہ صاحب تو گنگا نہائے ہوے تھے اور زرداری پر ان گنت کرپشن کے الزامات تھے ۔ اسی طرح شہر ملتان کے ہی ایک اور قد آور سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی بھی کئی سال تک ن لیگ کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست چمکاتے رہے اور میاں برادران کے گیت گاتے رہے انھیں کبھی ن لیگ میں کوئی خرابی نظر نہ آئی۔

جب ن لیگ میں نظر انداز ہونے لگے ۔ قیادت نے لفٹ کروانا چھوڑ دی تو وہ بھی اچانک اصولوں کی بکل اوڑھ کر اپنے ضمیر کو ٹٹولنے لگے اور کچھ عرصہ بعد وہ بھی تحریک انصاف کی چھتری تلے آ گئے۔ان دو معتبر سیاستدانوں کے علاوہ بھی درجنوں ایسی مثالیں موجود ہیں جب پارٹیوں پر برا وقت آیا یا وہ نظر انداز کر دئیے گئے تو ملک کے وسیع تر مفاد میں ان کے ضمیر راتوں رات جاگ گئے۔میڈیا کے بھی صدقے واری جو ان صاحبان کے ضمیر کی آواز کو خوب مرچ مصالحہ لگا کر عوام کی نذر کرتا ہے اور یہ با ضمیر لوگ اپنا سودا اک نئے انداز میں فروخت کرنے کے لیے تازہ دم ہو جاتے ہیں۔ خیر بات کہاں سے کہاں چلی گئی ذکر ہو رہا تھا مصطفی کمال کا۔

یاد رہے آج کا الطاف حسین وہ رعب و دبدبہ کھو چکا ہے جو اسے ایک دہائی قبل حاصل تھا۔ تب تو میڈیا بھی اس پر تشدد انسان کی کاروائیوں پر خاموش رہتا تھا اور نہ ہی کسی سیاستدان میں اتنا دم خم تھا کہ الطاف حسین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے ۔ البتہ ایک مرتبہ عمران خان اس کے خلاف ثبوت لے کر لنڈن پہنچے تھے ۔ یہ علیٰحدہ بات کہ بعد میں وہ بھی چپ سادھ گئے مجبوری کیا بنی یہ بھی سر بستہ راز ہی ہے ۔ ان دنوں میڈیا کا مرغوب موضوع الطاف حسین ہے جبکہ مصطفی کمال بھی اچھل اچھل کر ان پر را سے تعلق کے الزامات لگا رہے ہیں اور فطرہ زکوٰت ہڑپ کرنے کا طعنہ بھی دے رہے ہیں ۔بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں الطاف حسین جہاں عمر بھر تشدد کی سیاست کو فروغ دیتے رہے اور اپنے مفاد کو پروان چڑھاتے رہے وہیں وہ پاکستان کی تاریخ میں ایک خود غرض انسان کے طور پر بھی پہچانے جائیں گے۔

لندن سے موصولہ اطلاعات کے مطابق الطاف حسین متعدد مہلک بیماریوں کا شکار ہیں اور چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے اپنے جان نشین کا اعلان نہیں کیا جس کی وجہ سے ایم کیو ایم تذبذب کا شکار ہے اور اس کی صفوں میں بے چینی اور اضطراب کی لہریں اٹھ رہی ہیں اور خدا نہ کرے کراچی کا امن اس عاقبت نا اندیش کی وجہ سے پھر غارت ہو جائے اگر الطاف حسین نے اپنی زندگی میں اپنے جانشین کا واضح اعلان نہ کیا تو خدشہ ہے ایم کیو ایم ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اور اس ٹوٹ پھوٹ کے عمل کے دوران فسادات کے بھڑک اٹھنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

دکھائی کچھ یوں دیتا ہے کہ الطاف حسین آخر دم تک ایم کیو ایم کی کمان سنبھالے رکھنا چاہتے ہیں۔چاہے ایم کیو ایم تتر بتر ہو جائے ۔ شہر کراچی کا امن برباد ہو جائے ۔ لوگوں کی زندگیاں داو پر لگ جائیں۔ ایم کیو ایم کئی دھڑوں میں تقسیم ہو جائے یہ سب کچھ دیکھتے ہوے مصطفی کمال کی یہ بات سچ دکھائی دیتی ہے کہ الطاف حسین کو صرف اپنی ذات سے پیار ہے باقی سب ان کی نظر میں ہیچ ہے ۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا لیکن جو کچھ بھی ہو اللہ رب العزت کے حضور دعا گو ہوں کہ شہر کراچی کا امن برباد نہ ہو۔

Abdul Razzaq

Abdul Razzaq

تحریر : عبدالرزاق