تحریر : محمد راشد
قائداعظم محمد علی جناح ایک لمباعرصہ کانگریس میں رہے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر مانے جاتے تھے۔ ہندؤوں کو قریب سے دیکھنے کے بعد اس نتیجے پرپہنچے کہ مسلمان اورہندو کبھی ایک نہیں ہو سکتے۔اسی لیے انہوں نے فرمایا:”قومیت کی جوبھی تعریف کی جائے مسلمان اس کی رو سے ایک علیحدہ قوم ہیںاور””پاکستان اسی روز وجود میں آگیا تھا جب پہلا ہندو مسلمان ہوا ۔”
مسلم لیگ کے قیام کے بعد مسلمانوں میں سیاسی شعورانگڑائیاںلینے لگا توانہوں نے اپنے تحفظ اور حقوق کے لیے جدوجہد کاآغازکیا۔
نظریاتی پاکستان کے لیے تحریک چلی۔ برصغیر کے مسلمان طویل اور کٹھن سفرکے راہی بنے جس کے مختلف سنگ میل طے کرنے کے بعد 1930ء میں مصورپاکستان علامہ محمداقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کاتصورپیش کیا۔آپ نے فرمایا:”مسلمانوں کامطالبہ کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان قائم کیاجائے ،بالکل حق بجانب ہے… میں ذاتی طورپر ان مطالبات سے بھی ایک قدم آگے جانا چاہتاہوں جو اس قرارداد میں پیش کیے گئے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ پنجاب،شمال ،مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان کو ملاکر ایک ریاست بنادی جائے۔ مجھے توایسانظرآتاہے کہ کم ازکم ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مربوط مسلم ریاست ہندوستان کے شمال مغربی مسلمانوں کامقدرہے۔”
اس طویل سفر میں23مارچ1940ء کادن کلیدی حیثیت رکھتاہے۔جب منٹوپارک لاہور میں لاکھوں فرزندان توحیدنے ایک عزم مصمم کیا کہ مشکلات جوبھی ہوں، رستہ جتنابھی دشوار گزار ہو، ہمیں اس مشن کومکمل کرناہے۔الگ وطن کے لیے قرارداد پیش کی گئی،جسے قرارداد لاہورکانام دیاگیااور پھریہی قرارداد ”قراردادپاکستان” کہلائی۔
پاکستان کی تصویرمیں رنگ بھرتے ہوئے برصغیرکے مسلمان قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہوگئے۔ کوئی تقسیم نہیں تھی۔ لسانی،سیاسی اور مذہبی اختلافات سے بالاتر ہوکر سب یکسوہوگئے۔ ایک ہی آواز تھی”بٹ کے رہے گا ہندوستان،لے کے رہیں گے پاکستان۔” سب سے اہم ”پاکستان کامطلب کیا لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ”کانعرہ تھا۔ محنت اور کوشش پہلے بھی جاری تھی لیکن 23مارچ1940ء کے بعد تواس میں جیسے بجلی بھرگئی اورتحریک نے قوت پکڑلی۔ انتھک کوشش اور لازوال قربانیوں کے بعد 14 اگست 1947ء کولاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ کی سرزمین کو ہندؤوں اورانگریزوں کے قبضے سے واگزار کروانے میں کامیاب ہوئے۔
اس تاریخی پس منظرمیں آج”امن کی آشا” کو فروغ دینے کی باتیں،پرانی عداوتیں چھوڑدیں۔ اب خونیں لکیریں ختم کرنی ہیں۔انڈیا سے تجارت اور دوستی کا ہاتھ بڑھاناچاہیے۔ دنیا اس وقت ایک گاؤں کی حیثیت اختیارکرچکی ہے۔ بھارت ہمارا ہمسایہ ہے تو ہمیں ہمسائیگی کاحق ادا کرناچاہیے۔ ہمارے بہت سارے دانشوراور تجزیہ نگار اس فکر کو عام کرنے کی کوشش میں شایدبھول جاتے ہیں کہ1947ء کواگر بھلادیاجائے توپھرکشمیر کے مظلوم مسلمانوں اور 1948ء کی جنگ اور اقوام متحدہ کی ساری قرارداروں کوبھلادیں،1965ء کی جنگ کس نے پاکستان پرمسلط کی اور 16دسمبر1971ء کوپاکستان کو کس نے توڑا…؟سیاچن اورسرکریک کے مسئلے کو فراموش بھی کردیں۔
سمجھوتہ ایکسپریس میں زندہ جلائے جانے والے پاکستانیوں کو ماضی کاقصہ بنادیں تو آئے روز پاکستان کے بارڈرپرگولہ باری اورمعصوم شہریوں کی شہادتوں کاذمہ دار کس کو ٹھہرائیں گے؟پاکستان کا ہرشہری سوال کرتاہے کہ وہ اپنالہو کس کے ہاتھوں تلاش کرے؟دشمنی بڑھاتے ہوئے ہندوستان نے کشمیر سے پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں پرڈیم بنائے اور اب اس کو پاکستان کے خلاف واٹربم کے طورپر استعمال کرے گا جس کاعملی مظاہرہ گزشتہ پانچ سالوں میں کرچکاہے۔ جب ہمارے کتنے ہی شہرمتاثر ہوئے تھے اور سیلاب سیالکوٹ، گوجرانوالہ، حافظ آباد،چنیوٹ، جھنگ اور ملتان میں تباہی پھیلاتا ہوا سندھ میں داخل ہوگیا تھا۔
ان سارے مسائل میں اس وقت سب سے بڑامسئلہ دہشت گردی کاعفریت ہے جس پرقابوپانے کے لیے پاکستانی افواج دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ جس دہشت گردی نے ہمارے وطن عزیز میں آگ لگادی ہماراکوئی شہر اورعلاقہ اس سے محفوظ نہیں رہا۔کراچی سے لے کر پشاورتک خون ہی خون نظرآتاہے۔دہشت گردی کاجن 60ہزارپاکستانیوں کو نگل چکا ہے ۔ قوم اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھارہی ہے اچھے دنوں کی امیدپر صبرکادامن تھام رکھاہے ۔ عوام توعوام ہمارے قومی اثاثے اورعسکری ادارے بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ بڑی بڑی دہشت گرد کارروائیوں میں GHQ پرحملہ، کامرہ اور مہران ائیربیس پرحملہ اور کراچی ائیرپورٹ اورواہ فیکٹری پرحملے شامل ہیں۔
قوم کے صبر کابندھن اس وقت ٹوٹ گیا جب ان خونخواروں نے آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں پر 16دسمبر2014ء میں حملہ کیا۔ پوری قوم سوگ میں ڈوب گئی۔ ہرپاکستانی کے لبوں پر سوال اورچہروں پر اداسی تھی کہ یہ کیاہوا۔ اب ہمارے یہ نونہال بھی ان درندوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس ہوئی اوراس میں طے پایا کہ مل کر ان درندوں کو شکست دینی ہے۔ فوج اور پوری قوم یکسو ہوگئی۔ضرب عضب تیز رفتاری سے آگے بڑھناشروع ہوا۔ وانااور وزیرستان میں بیٹھے، یہ انسانیت کے چہرے پربدنماداغوں کومٹایاگیا۔ بارود اور اسلحے کے ڈپوتباہ ہونے لگے۔ فوج نے آگے بڑھ کر ان علاقوں کو صاف کرنا شروع کیااور ہر طرف پاکستانی پرچم لہرادئیے۔ضرب عضب کی مسلسل کامیابیوں کے بعد افواج پاکستان کی طرف سے اعلان ہوا”ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑدی ہے۔”
آئے دن مختلف شہروں میں ہونے والے حملوں میں بھی کافی حدتک کمی آگئی۔ پاک فوج نے ٹارگٹڈآپریشن کرکے پورے ملک سے ان دہشت گردوں کوصاف کرناشروع کیا۔ کراچی جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے،اس کی روشنیوں کو بحال کرنے کی سرتوڑ کوشش کی گئی جس میں بہت حدتک کامیابی ملی۔ اسی اثناء میں چارسدہ میں باپاخان یونیورسٹی پرایک بزدلانہ حملہ ہوا۔ چاردہشت گرد یونیورسٹی کی عقبی طرف سے داخل ہوکر طلبا پرحملہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں 20طلباشہید ہوتے ہیں،لیکن سکیورٹی ادارے چندگھنٹوں میں ان کو کیفر کردار تک پہنچا دیتے ہیں۔
میڈیامیں یہ ایک نئی بحث چل پڑی ۔کہاں گئے وہ سارے دعوے کہ ہم نے”دہشت گردوں کی کمرتوڑ دی ہے”چینل پر بیٹھنے والے بہت سے افراد اس کوشش میں جتے ہوئے تھے تاکہ ثابت کریں کہ یہ سارے دعوے جھوٹے ہیں کہ دہشت گرد شکست کھاگئے ہیں۔خاص طورپرلبرل ازم اورسیکولرازم سے متاثر لوگ اس کام میں سب سے زیادہ پیش پیش نظرآئے۔ ویسے توقائداعظم کے رخصت ہونے کے فوری بعد ہی اس طبقے نے زہراگلناشروع کردیاتھا۔انہوں نے صرف یہ دعویٰ نہیں کیا کہ پاکستان کوسیکولرملک بناناہے بلکہ یہ تک کہہ دیاکہ قائداعظم بھی سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ آج بھی یہ یورپ زدہ طبقہ دہشت گردی کوآڑ بناکر اس بات کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل اوردہشت گردی کوختم کرنے کا واحد طریقہ پاکستان کوسیکولرریاست بناناہے۔
”چاول کارنگ سفیدہے لہٰذا زمین گول ہے”کے مترادف یہ تجزیہ نگار بھی اس بات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ پاکستان کا بیانیہ تبدیل ہوناچاہیے۔ ہم وہ پاکستان نہیں چاہتے جس میں مذہب کاعمل دخل ہو۔ ”پاکستان کامطلب کیا… لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ” والانہیں بلکہ مادرپدر آزاد پاکستان چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سیکولر ریاست ہی بنانا مقصودتھا توبرصغیرکی تقسیم کی کیاضرورت تھی۔ مسلمانانِ برصغیر کی ساری تحریک فضول تھی۔
قربانیاں،ہجرتیں ،شہادتیں اور خاندانوں کوتباہ کروانے کی کیاضرورت تھی؟ قصورکے ایک بزرگ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم نے ہجرت شروع کی تو ہمارے قافلے کی لمبائی 13میل پرمشتمل تھی ،جب پاکستان پہنچے ہماراقافلہ 6میل رہ گیاتھا۔ 7میل قافلہ رستے میں اپنی جان اللہ کے حضور پیش کرکے اس پاکستان پرنچھاور کرگیا۔یہ صرف ایک قافلے کی روداد ہے،اس طرح کے بیسیوں قافلوں کے ساتھ یہی کچھ بیتا۔
اگربیانیہ کی تبدیلی کو ہی بنیادبنایاجائے تو کیا16دسمبر1971ء کوپاکستان کی تقسیم اسی نظریاتی بیانیہ کی وجہ سے ہوئی؟سندھ اوربلوچستان میں آگ اس بیانیہ کی وجہ سے لگی؟ کرپشن اور لوٹ ماراس بیانیہ کی وجہ سے عمل میں آئی ؟سیاسی طورپرہمیں پھاڑ کرٹکڑوں میں تقسیم کردیاگیا ،کیااس کی وجہ ریاست کابیانیہ ہے؟حقیقت یہ ہے کہ بات کچھ اورہے اور وہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کے بیانیہ سے انحراف کیا اورہم سیاسی، لسانی اور مذہبی تفریق کی طرف چل پڑے ہیں۔ ہم نظریے کو چھوڑ کر قوموں اورصوبوں کے درمیان حقوق کی جنگ میں الجھ گئے۔ ایک دوسرے کے لیے محبت وہ جذبہ ہے جس کی مثال 1947ء اوراس سے پہلے پیش کی گئی کہ کوئی سندھی، بلوچی، پختون اور پنجابی نہیں بلکہ سب ”لاالٰہ الااللہ”کی بنیاد پر مسلمان ہیں۔
اسلام ایسا دین ہے جواپنے اندرانسانیت کے لیے آفاقی پیغام رکھتاہے۔ اسلام اپنے ساتھ جڑنے والوں کے دلوں کو بھی آپس میں جوڑدیتاہے۔ پاکستان کے مسائل کاحل بیانیہ تبدیل کرنے میں نہیں بلکہ نظریاتی اوراسلامی بیانیہ اپنا نے سے ہے۔اس تناظرمیں ہمیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور انہیں اداکرنے کی ضرورت ہے۔چہ جائیکہ بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر عوام الناس میں ذہنی انتشار پیداکیاجائے۔ اس کی ذمہ داری سب سے زیادہ میڈیاپرعائد ہوتی ہے کہ وہ حقائق عوام کے سامنے رکھے اور بتائے کہ حملوں میں کون ملوث ہے؟ افغانستان میں کن کے قونصل خانوں سے پیسے وصول کیے گئے اور پھر چارسدہ یونیورسٹی اور دیگرجگہوں پرحملے کیے گئے۔
پھرحکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نصاب تعلیم کو اس انداز سے ترتیب دے، جونوجوان نسل کے ذہنوں میں پاکستان کی محبت اورنظریہ پاکستان کومضبوط کرے نہ کہ اس سے وہ مادیت پرستی کے رو میں بہہ جائیں۔ بڑے دکھ کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ ہمارا نوجوان پیسے کی خاطر پاکستان میں خدمت کرنے کی بجائے بیرون ملک جانے کوترجیح دیتاہے۔اسلام اور قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نصاب میں اس کاخصوصی اہتمام ہوناچاہیے۔ آج جو دہشت گردی میں ملوث ہیں،کیا ہم نے انہیں صحیح اسلام پڑھایاہے؟ ریاست نے اس میں اپنی ذمہ داری کس قدر اداکی ہے…؟؟۔
تحریر : محمد راشد