دنیابھر کی طرح پاکستان میں بھی خواتین کا عالمی دن منایا گیااس دن خواتین کے حقوق کیلئے کی گئی کوششوں کو سراہا گیا ،سوشل میڈیا اخبارات ٹی وی پر عورتوں کے حقوق کیلئے پروگرام نشر کئے گئے کالم لکھے گئے یونیورسٹیز میں سائیکل ریس وغیرہ وغیرہ ،جب بھی دنیا بھر میں مخصوص دن منائے جاتے ہیں تو جن لوگوں کیلئے یہ دن منائے جاتے ہیں وہ ان دنوں سے بے خبر اپنے اپنے کاموں میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ان کیلئے یہ دن منائے جائیں یہ نہ منائے جائیں جیسا کہ مزدوروں کے عالمی دن پر چھٹی کی جاتی ہے جبکہ مزدور اپنا چولہا جلانے کی فکر میں سڑکوں چوراہوں بازاروں و دیگر جگہوں پر افسردہ و پریشان ہی دکھائی دیتا ہے ،بات ہورہی تھی خواتین کے عالمی دن کی اس دن کو منانے کا مقصد آگاہی ہونا چاہئے خواتین میں یہ شعور بیدار ہونا چاہئے کہ وہ بھی مرد کے برابر ہیں اگر فیکٹریوں اور کارخانوں میں خواتین مردوں جتنا کام کرتی ہیں تو ان کو تنخواہ بھی مردوں جتنی ملنی چاہئے ،خواتین کے عالمی دن کو منانے کے سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی عورت آج بھی اتنی ہی غیر محفوظ ہے جتنی کل تھی آج بھی عورت کو اس کے روزگارسے ملنی والی اجرت کم دی جاتی ہے فیکٹریوں اور کارخانوں میں آج بھی عورت کامعاشی استحصال جاری ہے دیہاتوں اور قصبوں میں شہر کی نسبت عورتوں کو مسائل کا کہیں زیادہ سامنا ہے دیہاتوں میں عورتیں مردوں سے کہیں زیادہ کام کرتی ہیں ایسے کام جو انتہائی محنت طلب ہوتے ہیں ،عورت معاشرے میں اپنا وہ مقام حاصل نہیں کر سکی جواسے ہونا چاہئے عورت ایک لطیف ساز ہے شاعروں ادیبوں نے عورت پر غزلیں نظمیں کہیں ہیں واقعی ہی عورت سراپا محبت ہے بیٹی سے لے کر بہن ،بیوی ،بہوا ور ماں سبھی رشتے مقدس ہیں مگر یہی عورت یا لڑکی نے جن گلی محلوں میں اپنا بچپن گزارا ہوتا ہے وہیں سے اکیلے گزرنامحال ہوجاتا ہے سکول دفتر اور کام کرنے والی جگہوں پر عورت پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ ہے خواتین کو دفاتر اور کام کرنے والی جگہوں پر جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کا خوف ہر وقت موجود رہتاہے معاشرے میں عورت کے غیر محفوظ ہونے سے والدین اپنی بچیوں کو شہر سے باہر تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجنے سے گھبراتے ہیں جب عورت اپنی تعلیم جاری نہیں ر کھ سکے گی تو اپنی صلاحیتوں کا لوہا کیسے منوائے گی ،یوں معاشرے میں عورت کو محروم رکھنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی یہاں معاشرے میں بسنے والے لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ، عورتوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی سازشیں کی جارہی ہیں طالبات کے سکولوں کو بموں سے اڑایاجاتا ہے دیہاتوں قصبوں میں عورت مرد سے کہیں زیادہ کام کرتی ہے مگر اس کے کام کو گنا ہی جاتا مطلب کسی کھاتے میں ہی نہیں لایا جاتا جبکہ لاکھوں خاندان ایسے ہیں جن کی کفالت خواتین کے ذمہ ہے عورت مردوں سے زیادہ کام کر کے کم اجرت پر بھی گزارا کر کے اپنے خاندان کو چلانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے خواتین مزدور ں کو وہ اختیار حاصل نہیں جو مرد مزدور کو حاصل ہیں عورت سے کام تو لیا جاتا ہے مگر اسے مرد کے برابر مزدوری نہیں دی جاتی بہت سی نہیں تو راقم یہ کہنے میں حق بجانب ہوگا کہ ہر فیکٹری اور کارخانہ میں جہاں خواتین کام کرتی ہیں وہاں عورتوں کا معاشی استحصال جاری ہے ،خواتین کے حقوق کی تنظیمیں خواتین کیلئے کوششیں تو کر رہی ہیں پچھلے سوسال سے زائد عرصے سے خواتین کے حقوق کاعالمی دن منایا جارہا ہے مگر عورت آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے خواتین کے عالم دن پر میڈیا اخبارات ٹی وی پر عورتوں کے حقوق کے حوالے سے پروگرم نشر کئے گئے کالم لکھے گئے ،مگر سال کاایک دن عورتوں کیلئے منا لینا کافی ہے کہ اس سے عورتوں کے حقوق ان کو مل جائیں گے تو اس کا جواب نفی میں ہے عورتوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کیلئے تعلیم بنیادی چیز ہے مگر افسوس خواتین کو تعلیم سے دور رکھا جارہا ہے عورت کو ہمیشہ بے جرم سزا دی گئی کبھی خاندان میں کسی فرد کے گناہ کی پاداش میں عورت کو ونی کر دیا جاتاہے تو کبھی وٹی سٹہ کی شادی میں عمر بھر کا روگ گلے کاہار بنا کر پہنا دیا جاتا ہے تو کبھی قران سے شادی کر دی جاتی ہے تو کبھی غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتاہے معاشرے میں ایسی رسومات پر پابندی کے ساتھ ساتھ ایسے گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کو کڑی سزائیں دی جانی چاہئیں غیرت کے نام پر قتل کرنے والا بھائی ہو یا باپ کوئی بھی ہو اسے قتل کی دفعات کے ساتھ سزا دی جائے تبھی معاشرے میں عورت اپنا جائز مقام حاصل کر سکتی ہے مگر صد افسوس عورت کو اپنا مقام حاصل نہ ہو سکا جب تک عورت اپنے مقام کی وارث نہیں بنے گی معاشرہ ترقی نہیں کرے گا