counter easy hit

اسے جو موت کہتے ہیں تو یارب بار بار آئے

When it came time

When it came time

غالباً1991ء کاسال تھا جب میں نے ماہنامہ ضیائے حرم لاہور میں غازی علم دین شہید پر رائے محمد کمال کا لکھا ہوامضمون پڑھا۔ فاضل مصنف نے جس خوبصورت پیرائے میں غازی علم دین شہید ؒ کی حیات مقدسہ،ان کی شہادت کا محرک بننے والے اس واقعہ اور نماز جنازہ کی جزئیات کو بیان کیااس کو پڑھ کر میرے دل میں جو پہلی تڑپ پیدا ہوئی وہ یہ تھی کہ کاش میں بھی اس دور میں موجود ہوتا تو غازی علم دین کے جنازے میں شریک ہونے والے خوش قسمت لوگوں میں شامل ہو تا اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ہر خواہش بالواسطہ طور پر ایک دعا ہوتی ہے اور خالق کائنات اپنی مخلوق کی کسی بھی دعا کو رد نہیں فرماتا، یہ الگ بات کہ وہ کچھ دعائیں دنیا میں قبول کرلیتا ہے اور کچھ کو آخرت کیلئے اٹھا رکھتا ہے۔ پندرہ سولہ برس کی عمر میں میرے دل سے اٹھنے والی اس خواہش کومیرے اللہ جی نے 25سال بعد میری زندگی میں ہی شرف قبولیت بخش دیا اور میں غازی ملت اسلامیہ ، سپہ سالار عاشقان مصطفی ﷺ جناب غازی ممتاز حسین قادری شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے جنازے میں شریک ہو گیا۔سرخیل اہل وفا کا جنازہ کیا تھا، محبان مصطفی ﷺ کا ایک سیل بے کراں تھا جو لیاقت باغ راولپنڈی کی طرف ایک مقناطیسی کشش کے ساتھ کھنچا چلا جا رہا تھا ۔لیاقت باغ کے تاریخی گراؤنڈ کو بھرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کرنے کے باوجود ناکام رہنے والے سیاسی بازی گر ،دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھے تھے ۔ ممتاز قادری کے پاس وہ کون سا عہدہ تھا، و ہ کونسی سیٹ تھی جس کی وجہ سے لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے امڈے چلے آ رہے ہیں۔ کسی کو اگلی صفوں میں یا اسٹیج پر جانے کی تمنا نہیں، کسی کو اہل خانہ کو اپنا چہرہ دکھانے کو خواہش نہیں، کوئی دنیا داری رکھنے کیلئے نہیں آیا ہوا ، کوئی ایسا نہیں جو صرف مرحوم کیلئے بخشش کی دعا کر رہا ہو بلکہ ہر کوئی اس کے جنازے میں شرکت اپنے لئے باعث نجات سمجھ رہا تھا، میں نے بڑے بڑے سیاسی، مذہبی لیڈروں کو سڑک پر نماز پڑھتے دیکھا، شہید کے جسدِ اقدس کو لے کر آنے والی گاڑی کے ایک لمس کو ترستے دیکھا ۔ میں نے ایسے لوگوں کو آپس میں مل کر روتے دیکھا جن کا آپس میں بظاہر کوئی تعلق، کوئی تعارف نہیں تھا لیکن محبت رسول ﷺ کا رشتہ ضرور موجود تھا۔ میں نے حکومتی جماعت کے لوگوں کو حکومت کے خلاف نعرے لگاتے سنا،جنازے کے اجتماع میں سنی بریلوی عوام کی شرکت تو فطری تھی مگر میں نے ممتاز قادریؒ کی نماز جنازہ کو سعادت سمجھ کر آنے والے دیوبندیوں، اہلحدیثوں اور اہل تشیع کو بھی دیکھا۔ وہ کیا رشتہ تھا جس نے تسبیح کے ان بکھرے ہوئے موتیوں کو ایک لڑی میں پرو کر رکھ دیا تھا۔ یقیناًوہ محبت رسول ﷺ کا جذبہ ہی تھا جس نے سرخ و سفید کا فرق مٹا کر رکھ دیا تھا۔ ممتاز قادری ایک ایسا پیج بن چکا تھا جس پر سب ایک ساتھ تھے۔ سب یک زبان ہو کر ممتاز قادری کے مشن کو آگے بڑھانے اور اس مشن پر جان نثار کرنے کے نعرے لگا رہے تھے۔ دنیا حیران تھی ، حکومت ہر حربہ استعمال کر چکی تھی کہ جنازے میں کم سے کم لوگ شریک ہو سکیں۔بغیر اعلان اچانک پھانسی، میڈیا پر تاریخ کی سخت ترین پابندی، وزراء کے بیانات ، علماء سُوء کی طرف سے قادری ؒ کی مذمت اور پھانسی کے حمایت کے باوجود اتنی بڑی تعداد کا پنڈی کی طرف رخ کرنا یقیناًحالات کے کسی اور سمت جانے کا اشارہ کر رہے تھے لیکن آفرین نبی ؐ کے دیوانوں پر ۔۔۔جنہوں نے ثابت کیا کہ نہ تو ممتاز قادری ؒ دہشت گرد تھا اور نہ ہی اس کے چاہنے والے دہشت گرد ہیں۔غم و اندوہ سے چُور چُور پچیس تیس لاکھ افراد کے اجتماع کے بعد سب کا پر امن طریقے سے منتشر ہو جانا اس بات کی واضح دلیل تھا کہ یہ درود والے ہیں، بارود والے کوئی اور ہیں۔ اپنے بسائے ہوئے گلشن کو کون اجاڑنا چاہتا ہے؟ یہ تو پاکستان بنانے والا طبقہ ہے یہ پاکستان کی املاک کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ نماز جنازہ کے بعد ہزاروں افراد انتہائی پر امن طریقے سے وفاقی دارالحکومت کے نواحی علاقے اٹھال، جو کہ غازی صاحب ؒ کا آبائی گاؤں ہے ، جا پہنچے ، شہیدِ عشق رسول ؐ کو درودوسلام کے نذرانوں کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ وہ لحد جہاں یقیناًآقائے نامدار ﷺ اپنے غلام کے استقبال کیلئے اپنے بازو پھیلائے تشریف فرما ہوں گے۔ غازی ممتاز قادری کے جنازے میں شریک شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو ایسی موت کی تمنا نہ کر رہا ہو۔
حکومت نے ممتاز قادری کو پھانسی دے کر اپنے مغربی آقاؤں کو تو خوش کر لیا لیکن اسے جلد ہی اندازہ ہو جائے گا کہ اس سے ایسی فاش غلطی سرزد ہو چکی ہے جو اس کے گلے کی ہڈی بن جائے گی۔ تین دن کے اندراندر درجنوں ایسے لوگ سامنے آئے ہیں جنہوں نے ممتاز قادری ؒ کی شہادت کے خلاف احتجاج کے طور پر ن لیگ کے عہدوں سے استعفے دے دئیے ہیں۔ اس دن سے لے کر آج تک لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو زندگی بھی ن لیگ کو ووٹ نہ دینے کا دلی عہد کر چکے ہیں۔ (اس کا برملا اظہار احتجاج کی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے) ۔ ن لیگ کے ٹکٹ پر ممبران قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے اور مسلم لیگ ن کے عہدوں پر فائز علماء و مشائخ کو شدید تنقید کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے( اور غالب امکان ہے کہ وہ بزرگ بھی حفظ مراتب کے لحاظ سے کسی فنکشن، پریس کانفرنس یا کسی فورم پر آ کر اپنے بریت کا اظہار فرما دیں گے۔ کیونکہ اتنا سب کچھ ہو جانے کے باوجود سیاسی عہدوں پر براجمان رہنے کا جواز شاید مشکل ہی سے ملے )۔ کیا ن لیگ کی کمزورحکومت یہ سب برداشت کر پائے گی؟ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے جب پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں کے دوران چند ہزار لوگوں نے حکومت کوناکوں چنے چبوائے ،جس حکومت کے وزیر اعظم سمیت کابینہ کے تمام اراکین کے چہروں پرچند ہزار افراد کے اجتماع نے ہوائیاں اڑا دی ہوں، وہ ان لاکھوں لوگوں کے غم و غصہ کی تاب کیسے لائے گی؟کاش وہ تاریخ کے اس بدترین جرم کے ارتکاب سے پہلے صرف یہ دیکھ لیتی کہ اس ملک کے بانی قائد اعظم محمد علی جناحؒ اگر گستاخ رسول کو قتل کرنے کے عمل کو غلط تصور کرتے تو غازی علم دین شہید ؒ کے وکیل کبھی نہ بنتے، اس وطن کا تصور دینے والے علامہ محمد اقبال ؒ اگر غازی علم دین شہید کو مجرم سمجھتے تو وہ تاریخی جملہ کبھی نہ کہتے کہ ’’اسی گلاں ای کردے رہ گئے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا‘‘ ۔۔۔ کا ش اس حکومت کو دین کی تھوڑی سی بھی سمجھ بوجھ ہوتی تو وہ علماء دین، قانون اور تاریخ کے ماہرین سے گستاخان رسول کے انجام سے متعلق آگہی حاصل کر لیتی۔ میرا یہ خیال ہے کہ غازی ممتاز قادری شہید نے گورنر کو قتل نہیں کیا ۔ بلکہ اس نے ایک ایسے غدار وطن کو قتل کیا جو پاکستان کے آئین کو کالا قانون کہہ کر اپنے حلف کی رو سے گورنر نہیں رہا تھا، بلکہ گورنر پنجاب کی سیٹ پر قابض تھا۔ ممتاز قادری ؒ نے اس شاتم رسول کو واصل جہنم کیا جو گستاخ رسول آسیہ ملعون سمیت تمام گستاخان رسول کو سزا سے بچانا چاہتا تھا۔ ایک ایسے شخص کے وجود سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دھرتی کو پاک کیا جس کے بارے میں اس کا بیٹا اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اس نے زندگی میں کبھی نماز نہیں پڑھی، روزہ نہیں رکھا، سؤر کا گوشت اس کی مرغوب غذا تھی، شراب پانی کی طرح پیتا اور پلاتا تھا۔ ایسا شخص ننگ دین و وطن تو ہو سکتا ہے، محافظ کی سیٹ پر فائز نہیں ہو سکتا۔ آخر میں ایک انتہائی اہم بات ۔۔۔جس کے مخاطب نہ تو ارباب ریاست ہیں اور نہ ہی علماء و مشائخ ۔ یہ پیغام میرے جیسے عام آدمی کیلئے ہے۔ چند سال قبل شام میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مزارات کی بے حرمتی کی گئی،لوگ چپ رہے۔۔۔ حضرت اویس قرنیؒ سمیت دیگر صحابہ کرام کے مزارات کو بموں سے اڑایا گیا، شامی عوام خاموش رہی۔حکومت کے مخالفین کو چن چن کر قتل کیا گیا ، عوام سڑکوں پر نہیں آئی، لیکن پھر چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ شامی حکمران تو آج بھی تخت پر براجمان ہیں لیکن عوام کے دو دو سال کے بچوں کی لاشیں یورپ کے ساحلوں پر ہم سب نے دیکھیں۔ ظلم ہوتا دیکھ کر خاموش رہنے والوں کو تاریخ’’ کوفی‘‘ کہہ کر پکارتی ہے۔ فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔