تحریر : سید توقیر زیدی
پاکستان کو بنے ہوئے تقریباً 70 برس گزر گئے۔ اس دوران کئی فوجی اور جمہوری حکومتیں آئیں۔ آج ہم 70 برس بعد مزدوروں، خواتین مریضوں کے حقوق اور چائلڈ لیبر کی باس کرتے نظرآتے ہیں اگر ہم اسلام کو ٹھیک طرح سے پڑھ لیں تو آج سے 1400 سال پہلے ہی ان تمام حقوق و فرائض کا فیصلہ ہو گیا تھا، جتنے حقوق اسلام نے خواتین کو دیئے دنیا کے کسی اور مذہب نے نہیں دیئے لیکن اگر آج ایک مسلم ملک میں خواتین کے حقوق کے لئے بل پاس کیا جائے تو اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ان سب کے باوجود بل کا پاس ہو کر قانون کی شکل اختیار کرنا موجودہ حکومت کے لئے باعث مسرت و فخر ہے۔ تحفظ حقوق خواتین بل مردوں کے خلاف نہیں، تنقید بلا جواز ہے۔ 20 میں ہونے والے الیکشن کے شماروں کے مطابق خواتین کے ووٹ صرف 43 فیصد تھے جبکہ مردوں کے ووٹ 56 فیصد تھے۔
پبلک سیکٹر کی کمپنیوں اور بورڈز میں 33 فیصد کوٹہ مقرر ہونے کے باوجود صرف 7 فیصد خواتین نظر آتی ہیں۔عدلیہ میں خواتین صرف 14 فیصد ہیں۔ اس وقت صرف پنجاب میں روزانہ 6عورتیں عزت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں، 8سے گینگ ریپ کیا جاتا ہے اور 32 کو اغوا کیا جاتا ہے۔ کیا یہ اعدادو شمار کم ہیں۔ کیا اب بھی ہمیں عورتوں کے حقوق کے لئے ہر ایک سے اجازت لینا ہو گی۔ اب باتوں کا نہیں بلکہ عمل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ بل کے متعلق غلط افواہیں پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ بل مردوں کے خلاف نہیں بلکہ عورتوں پر تشدد کے خلاف ہے اگر ایک عورت دوسری عورت پر تشدد کرے گی تو اس کو بھی سخت سزا بھگتنی ہو گی۔
خواتین کو حقوق دینا ریاست کا اولین فرض ہے۔ ریسرچ کے مطابق 2016 کے لئے ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا تو کئی محکموں کو علم ہی نہیں تھا کہ ان کے ہاں خواتین ورکرز کا کوٹہ مختص ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز کو خصوصی مبارکباد دیتے ہیں کیونکہ ان کی محنت اور لگن کی وجہ سے ہم اتنے کم وقت میں اتنی اچھی اور بہتر رپورٹ تیار کر سکے۔۔ خواتین کے حق میں جو بل پاس ہوئے ہیں اور انہوں نے قانون کی شکل اختیار کی ہے یہ سب وزیراعظم میاں نواز شریف کی بدولت ہوا ہے۔بغیر کسی پریشر میں آئے خواتین کے حقوق کے بارے میں بات کی اور اتنا اہم منظور کروحد بل ہے جس سے ہوگا۔یہ سراسر ظلم ہے اور یہ ظلم کرنے والوں کو آخرت میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ ہمیں عورت کی عظمت کے لئے کام کرنا ہے اور انشاء الل آئندہ بھی ایسے ہی کرتے رہیں گے۔
سرکاری سطح کے ہر ادارے میں 15فیصد خواتین کا ہونا لازمی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق ملک میں خواتین 48فیصد ہیں اور مرد 52فیصد ہیں۔ پنجاب کی شرح خواندگی باقی صوبوں سے بہتر ہے لیکن جنوبی پنجاب کے کئی علاقوں میں صورتحال بہت خراب ہے گھر میں کام کرنے والی خواتین کو ورکنگ وومن تصور نہیں کیا جاتا جبکہ 50فیصد سے زائد خواتین 5000روپے فی مہینہ بھی کم کی اجرت پر کام کر رہی ہیں جبکہ صرف 77فیصد مرد اس آمدنی کے سکیل پر کام کر رہے ہیں ہر سال خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد خواتین پر اب زیادہ تشدد کرتے ہیں بلکہ اب خواتین میں زیادہ شعور آجاگر ہو چکا ہے اب وہ اپنے ساتھ ہونے والے تشدد کے واقعات کو رپورٹ کرتی ہیں۔ شرح خواندگی خواتین کے حقوق پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے جہاں تعلیم یافتہ لوگ کم ہوں گیوہاں حقوق نسواں کی بات کرنے والے بھی کم ہوں گے۔منو بھائی نے کہا کہ ان کی عمر صرف تین برس تھی جب ان کے والد نے ان کی والدہ پر کسی اختلاف کی بنا پر ہاتھ اٹھایا اور وہ اتنا سہم گئے تھے کہ پورے ایک سال تک بول نہیں سکے اور جب بولنا شروع کیا تو ٹھیک طرح بول نہ سکے اور آج تک اس بات کا اثر ان کے لہجے میں ہے مردوںکا خواتین پر بچوں کے سامنے تشدد کرنا بچوں کے مستقبل پر بھی برا اثر ڈالتا ہے۔
خواتین کی عزت تب تک ہمارے معاشرے میں نہیں بڑھ سکتی جب تک ہمارے گلی حملوں سے ماں بہن کی گالیاں نہیں ختم ہوں گی ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے اور ایک بری عورت کے پیچھے کئی برے مرد ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کہ صرف منفی پروپیگنڈا کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں وہ حکومت کے اقدامات کو دھیان سے پڑھے بغیر اس پر تنقید کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ خواتین کے حق میں بل کے منظور ہونے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بل صرف خواتین پر تشدد کرنے والوں کے خلاف ہے۔پورے بل میں کہیں مرد کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔
خواتین پر تشدد خواتین بھی کر سکتی ہیں اور ان کو بھی سخت سزائیں ہوں گی اگر کوئی عورت تشدد کا شکار ہو کر حکومت کے پاس مدد کیلئے آتی ہے تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کو حفاظت دے۔ اس لئے وہ کڑے ڈیزائن کئے گئے ہیں۔زرائع کے مطابق پنجاب میں روزانہ 6عورتوں کا غیرت کے نام پر قتل ہو رہا ہے 8سے ریپ اور 32کو اغوا کیا جا رہا ہے۔ پسند کی شادی کرنا بالغ لڑکی کا معاشرتی اور شرعی حق ہے اتنے خطرناک اعدادوشما رکے بعد بھی اس بل پر اعتراض کرنے والوں کو شرم آنی چاہئے اگر آپ عورتوں کے حقوق کیلئے کچھ کر نہیں سکتے تو کسی اور کے اٹھائے جانے والے اقدامات پر تنقید بھی نہ کریں۔
عمارہ اطہر نے کہاکہ ہم روزانہ ایسے کیسز دیکھتے ہیں جہاں لڑکیوں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے اور قاتل کا ساتھ لڑکی کی ماں دیتی ہے جب تک ہم اس ماں کی سوچ نہیں تبدیل کریں گے تب تک یہ معاشرہ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔واصف ناگی نے کہا کہ ہم پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہے کہ خواتین نے تحریک پاکستان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا۔پاکستان بننے کے بعد بھی کئی عرصے تک لاپتہ خواتین کی تلاش جاری رہی انہوں نے خواتین کی سنہری تاریخ بتاتے ہوئے کئی واقعات کا تفصیلی ذکر کیا۔مغرب سے لڑنے کے لئے کسی ایٹم بم کی ضرورت نہیں ہے اگرآپ اپنی خواتین کو تعلیم یافتہ کرلیں گے تو وہ آپ کو ایک روشن خیال قوم دیں گی جو کہ پوری دنیا سے مقابلہ کر سکے گی۔
عورت پر تیزاب پھینک دینا یا اس کا کوئی عضو کاٹ دینے جیسے خطرناک اور اذیت ناک خیالات آپ کی قوم کے ذہن میں آتے کیسے ہیں، یہ بات بہت باعث شرم تھی جب تک ہم اپنے معاشرے کی خواتین کا ساتھ نہیں دیں گے تب تک ہم ترقی نہیں ۔عورت صرف جسم نہیں ہے بلکہ ایک جیتی جاگتی انسان ہے تعلیمی لحاظ سے ایک عورت 10لڑکوں کی ذہانت کا مقابلہ کر سکتی ہے لیکن اسے دبا دیا جاتا ہے کبھی عزت کے نام پر اور کبھی ذمہ داری کے نام پر ہمیں اپنے لڑکوں میں یہ شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ خواتین بھی انہی کی طرح ہر چیز میں برابر کے حقوق رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر نجمہ نجم نے کہا کہ جب میں اپنے گھرسے نکلی تھی تو میرے والد نے مجھے کہا تھا کہ بیٹا یہ مردوں کی دنیا ہے تو میں نے جواب دیا تھا کہ بابا اگرمیں کامیاب نہ ہوئی تو واپس آجائوں گی اور یہ ان کی دعائیں ہیں کہ میں آج تک واپس نہیں گئی۔جسٹس(ر)ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ ہمارے مذہب نے عورت کو بہت زیادہ حقوق دیئے ہیں، کم عمر کی شادی ہر لڑکی کے ساتھ ظلم ہے۔ آپ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں تا کہ آپکی حکومت آپ کے حق میں بل اورقانون پاس کریں۔سید نایاب حیدر نے کہاکہ دنیا کے ہر بڑے شخص کو جنم تو عورت نے ہی دیا ہے اور ماں کے پائوں کے نیچے ہی جنت ہے۔ اپنی بیٹیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اورجس کو بیٹی بنا کر گھر لائیں اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کریں۔
ممتاز مغل نے کہا کہ جب عورتیں گنی جائیں تو ان کے کام بھی گنے جائیں،کئی خواتین گھروں میں کام کرتی ہیں لیکن کا ان کا اندراج کہیں نہیں ہوتا جو کہ ناانصافی ہے۔ثمینہ نذیر نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کسان صرف مرد کو کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زمین کا مالک ہوتاہے حالانکہ89فیصد خواتین کھیتوں میں کام کرتی ہیں ان کو بھی ان کا حق ملنا چاہیے۔ڈاکٹر نگہت مجید نے کہا کہ حکومت کی طرفسے اٹھایاجانے والا یہ قدم لائق تحسین ہے۔ فاخرہ تحریم نے کہاکہ ہر عورت تشدد سے تحفظ چاہتی ہے اور یہ اس حکومت کا ایک مثبت کام ہے۔ خواتین کے لیے ایسے بل اور پاس ہونے چاہئیں۔ مولانا عبدالرحمان نے کہا کہ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تحریر : سید توقیر زیدی