تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
جنت کی تلاش اور قربِ الٰہی یقینا کرہ ارض پر بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی اولین خواہش ہے اِس کے لیے وہ ساری عمر عبادت ریاضت مجاہدے سخاوت حج زکوة عمرے نمازیں نوافل تہجد راتوں کو جاگنا جنگلوں صحرائوں پہاڑوں نمازوں میں لمبی عبادات اور کڑے مجاہدے سے گزرتے ہیں۔ لیکن اِن کروڑوں انسانوں میں چند ایسے غازی شاہ سوار بھی طلوع ہوتے ہیں کہ وہ صرف ایک قدم اٹھاتے ہیں یا اُن کی زندگی میں صرف ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ اُس ایک قدم یا لمحے میں صدیوں سفر طے ہو جاتا ہے ۔ تاریخ انسانی کے اوراق پر ایسے خوش قسمت انسانوں کے نام چاند سورج سے زیادہ چمک رہے ہیں کہ اُنہوں نے صدیوں کا سفر اِس تیزی سے اور کامیابی سے کیا کہ ارباب زہد و تقوی واصحاب مبر و محراب رشک اور حسرت سے دیکھتے ہی رہ گئے انہوں نے صرف ایک قدم اٹھایا اور گمنامی کی تاریک غاروں سے نکل کر شہرت کے اُس ہمالیہ پر اِس شان سے سوار ہوئے کہ قیامت تک کے لیے تاریخ کے ماتھے پر جھومر بن کر چمک رہے ہیں خوش قسمت ہوتے ہیں ایسے غازی شہید جن کو رب ذولجلال قیامت تک کے لیے لازوال شہرت عطا کر دیتا ہے۔ چشم فلک اور اہل دنیا یہ منظر بار بار دیکھ چکے ہیں کہ جب بھی کسی گستاخ ِ رسول ۖ نے پیارے آقا ۖ کی شان میں گستاخی کی تو کوئی غازی مرد اٹھا اُس کو جہنم واصل کیا اور ہمیشہ کے لیے تاریخ میں امر ہوگیا۔ ایسا ہی واقع شہر لاہور میں 1927ء میں پیش آیا جب راج پال جہنمی نے سرور کائنات کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کتاب لکھی پورا برصغیر پاک و ہند سرا پا احتجاج بنا ہوا تھا عاشقان رسول ۖ خون اور درد کے آنسوئوں میں ڈوبے ہوئے تھے مسلمانوں میں سخت غیظ و غضب پایا جاتا تھا۔
اِن حالات میں اندرونیکی دروازہ لاہور کا ایک کشمیری نوجوان غازی خدا بخش اٹھا آپ پیشہ کے لحاظ سے شیر فروش تھے اور جلد سازی کا کام بھی کرتے تھے ملعون راجپال نے جب سے کتاب لکھی تھی مسلمان سرا پا احتجاج بنے ہوئے تھے اِس غازی نوجوان نے ناموس رسالت ۖ پر تقریر سنی تو پتہ چلا کہ کسی نے پیارے نبی کریم ۖ کی شان میں گستاخی کر نے کی کوشش کی ہے نوجوان تقریر سن کر تڑپ اُٹھا اور پھر 24 ستمبر 1927 کے دن خدا بخش ملعون راجپال کی دوکان پر گیا جہاں وہ جہنمی بیٹھا تھا غازی خدا بخش نے تیز دھار چاقو سے راجپال پر حملہ کر دیا راجپال زخمی ہو کر بھاگ نکلا اِس طرح وہ قتل ہونے سے بچ گیا۔ پولیس نے غازی خدا بخش کو گرفتار کر لیا عدالت میں مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو غازی خدا بخش نے وکیل صفائی مقرر کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ عدالت میں ملعون راجپال نے کہا کہ مجھے خدا بخش سے جان کا خطرہ ہے اِس نے میرے اوپر حملہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں تم کو جان سے مار دوں گا ۔ اِس پر جج نے خدا بخش سے پوچھا تو عشق رسول ۖ کی عقیدت و محبت سے سرشار گرج دار آواز خدا بخش بولے میں مسلمان ہوں اِس لیے ناموس رسالت ۖ کا تحفظ میرا فرض ہے میں اپنے پیارے آقا ۖ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا راجپال ملعون نے میرے پیارے آقا نبی کریم ۖ کی شان میں گستاخی کی ہے اِس لیے میں نے اِس کو مارنے کے لیے اِس پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن یہ جہنمی میرے ہاتھوں سے بچ نکلا۔ اقرار ِ جرم کی وجہ سے غازی خدا بخش کو سات سال کی قید سزا سنائی گئی لیکن غازی خدا بخش ہمیشہ کے لیے عاشقانِ رسول ۖ کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ کیونکہ جہنمی راجپال ابھی تک زندہ تھا۔
برصغیر پاک و ہند کے مسلمان شدید اضطراب اور درد میں مبتلا تھے عشق ِ رسول ۖ کا یہ درد افغانستان بھی جا پہنچا پورا افغانستان بھی سراپا احتجاج بن گیا یہاں پر غازی عبدالعزیز نامی شخص تجارت کرتا تھا جب اُس نے راجپال کے بارے سنا تو لرز اٹھا جسم آتش فشاں کی طرح پھٹنے لگا بے قراری اِس حد تک بڑھی کہ فوراً افغانستان سے لاہور کی طرف چل پڑا پھر یہ غازی مرد 19 اکتوبر کو لاہور پہنچا تو پردیسی ہونے کی وجہ سے اہل لاہور سے راجپال کے بارے میں پوچھا پھر لوگوں کے بتائے ہوئے پتہ پر راجپال ملعون کے مکان پر دستک دی جب پتہ چلا کہ وہ گھر پر نہیں ہے تو اُس کی دوکان کی طرف چل پڑا۔ غازی عبدالعزیز جب راجپال کی دوکان پر پہنچا تو دو ہندوں کو آپس میں با تیں کرتے ہوئے دیکھا غازی عبدالعزیز راجپال کی شکل سے نہیں پہنچانتا تھا۔
دوکان پر راجپال کا دوست سوامی سیتانند ایک دوسرے ہندو کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا دونوں سرور دو جہاں ۖ اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ دوران گفتگو جب سوامی سیتانند نے سرور دو عالم ۖ کی شان میں نازیبا الفاظ کہے تو پٹھان غازی سے برداشت نہ ہوا اُن کو روکا لیکن جب وہ روکنے پر بھی باز نہ آیا تو غازی نے سمجھا یہی وہ ملعون راجپال ہے جس نے محبوب خدا سرتاج الانبیاء ۖ کی شان میں گستاخی کی ہے برداشت کا پیمانہ چھلک پڑا چاقو نکالا اور دونوں پر حملہ کر دیا دونوں کو زخمی کر دیا پولیس نے غازی عبدالعزیز کو گرفتار کر لیا غازی نے شان سے اقرار جرم کیا عدالت نے غازی عبدالعزیز کو بھی سات سال قید سنائی تین ماہ قید تنہائی کی سزا سنائی سزا کا حکم سننے کے بعد بھی غازی کے چہرے پر اطمینان اور ہونٹوں پر درود و سلام کے پھول کھلے ہوئے تھے گستاخ ِ رسول ۖ راجپال دوبار قاتلانہ حملوں میں بچ گیا تھا اُس کا زندہ رہنا مسلمانان ہند کے لیے بہت زیادہ تکلیف کا باعث تھا پورا برصغیر سراپا احتجاج بنا ہوا تھا۔
راجپال دوبار تو بچ گیا تھا لیکن قدرت نے جس شخص کو دائمی شہرت اور شان سے نوازنا تھا اُس کو گمنامی کے پردوں سے نکالنے کا فیصلہ کیا یہ عظیم سعادت اور شہرت قدرت نے غازی علم الدین کے نام کو عطا کر دی تھی۔ جس نے تاریخ کے اوراق پر قیامت تک کے لیے شہید عشق ِ رسول ۖ کا لا زوال رتبہ حاصل کرنا تھا۔ علم دین ایک ترکھان کا بیٹا تھا جب اُس نے سنا کہ راجپال ملعون نے سرور دو عالم ۖ کی شان میں گستاخی کی ہے تو اندر تک کٹ کے رہ گیا دل و دماغ میں عشق ِ رسول ۖ کی چنگاری اب بھانبھڑ کا روپ دھار گئی عشق ِ رسول ۖ کا سمندر پھوٹ پڑا بازار سے چھری خریدی اُس کو خوب تیز کیا اور پھر مالک بے نیاز کے حضور دعا کے لیے ہا تھ اٹھائے اور دعا کی اے مالک بے نیاز ملعون راجپال کا وجود اب میرے لیے نا قابل برداشت ہوگیا ہے اے مالک میری مدد فرما اور پھر تا ریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہونے کے لیے راجپال کی دکان کی طرف چل پڑا۔ غازی علم الدین جانتا تھا کہ راجپال دو بار بچ چکا ہے راجپال دکان پر بیٹھا تھا اُس کا منحوس چہرہ دیکھتے ہی غازی علم الدین کے جسم و جان میں آگ جل اٹھی ۔
بپھرے ہوئے شیر کی طرح بھرے بازار میں راجپال پر حملہ کر دیا۔ پے در پے بہت زیادہ وار کر کے اُس کو جہنم واصل کر دیا اچھی طرح تسلی کر لی کہ بچ تو نہیں گیا اور پھر خود ہی تھانے جا کر گرفتاری دے دی مقدمہ چلا تو وکیلوں نے مشورہ دیا کہ قتل سے انکار کر دے لیکن عاشق ِ رسول ۖ کی محبت نے گوارا نہ کیا شان ِ سے اعتراف ِ قتل کیا اور کہا میری ہزاروں جانیں بھی ہوں تو ناموسِ رسالت ۖ پر قربان کر دوں جج نے پھانسی کی سزا سنائی تو سرشاری اور محبت سے جھوم اٹھا شدت سے پھانسی کے دن انتظار کرنے لگا اور پھر مستانہ وار تختہ دار پر جھول گیا۔ غازی علم الدین کو 31 اکتوبر 1929ء تعزیزِ جرم عشق میں پھانسی دی گئی غازی آج قبرستان میانی صاحب میں پیوند خاک ہے اِس خاک کا ہر ذرہ سرمہ چشم عشاق ہے لوگ زندہ اور لا فانی ہونے کے سو سو جتن کرتے ہیں یہ راز غازی علم الدین اور غازی ممتاز قادری سے پوچھیں کہ فنا کے گھاٹ اُتر کر لافانی کس طرح ہوتے ہیں دنیا والے کیا جانیں جب اِن غازیوں شہیدوں کی روحیں آسمانوں کے زینے طے کرتے ہوئے عرشِ الہی تک پہنچی ہونگی تو جنت کے جھروکوں سے کون کون سی ہستیوں نے اِن کا والہانہ استقبال کیا ہوگا۔ اور جنت کے مرغزاروں کے سدا بہار پھولوں کی پتیوں سے اِن کا استقبال کیا ہوگا ۔ اور نورانی پروں والے ملائکہ کے جلو میں دربار رسالت ۖ میں سرورِ دو جہاں ۖ کی قدم بو سی کا اعزاز ملا ہو گا ۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956