تحریر : ڈاکٹر احسان باری
اندھاونڈے ریوڑیاں مڑ مڑ کے اپنیاں نوں کی طرح انتخابی ٹکٹوں کی بندر بانٹ کے دنوں میں جو پارٹی میں با اثر افراد ہوتے ہیں وہی ٹکٹ لے اڑتے ہیں زیادہ ٹکٹ قائد کے رشتہ دار یا ایسے افرادجو “قائد کا جو غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے”سب سے بھاری زرداری”قائد پاکستان نواز شریف “گونواز گو”رو عمران رو “ایسے نعرے جپتے ہیںوہی حقدار ٹھہرتے ہیں ۔مخلص کارکن تو صرف دریاں اٹھانے ،جھنڈے لگانے اور سپیکروں پر گلا پھاڑ کر اعلان کرنے اورقائد کو دیکھ کر فلگ شگاف نعرے لگانے کے لیے ہی بھرتی کیے جاتے ہیں ۔ٹکٹ لینے والوں میں ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔جن جغادریوں نے مقتدر ہو جانے والی سیاسی پارٹی کے دنوں میں خوب حرام مال کما کما کر توند موٹی اور کھال سخت کرلی ہوتی ہے۔
سرمایہ بیرون ملک بنکوں میں دفن کرلیا ہوتا ہے وہی موقع کی مناسبت سے کروڑوں روپیہ”چندہ”کے نام پرپارٹی فنڈزدے کر ٹکٹ چھین لے جاتے ہیں ۔پارٹی قائد ہو یااس کی ایگزیکٹو باڈی سب کو کمائے مال میں سے حصہ بقدر جسہ ملتا ہے۔اسطرح مخصوص دودھ سے دھلے نیک پارسا بنے شخص کو ٹکٹ الاٹ ہو جاتی ہے۔اب وہ الیکشن کمیشن کے قوائدکہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار 15لاکھ اور قومی اسمبلی کا امیدوار 30لاکھ الیکشن مہم پر خرچ کرسکتا ہے اس سے زائد رقم خرچ کرنے والا نا اہل قرار پا جائے گاکی دھجیاں اڑانے لگتا ہے۔ایک ایک جلسہ پر دسیوں لاکھ روپے خرچ کرتا ہے۔کوئی 30,40کروڑاور کوئی ایک ارب روپے خرچ کرکے سیٹ حاصل کرلیتا ہے۔
بلکہ انتخابات کے دنوں میں توووٹروں بالخصوص جھولی چُک ورکروں کے بھی وارے نیارے ہو جاتے ہیں کہ وہ بھی “حلال مال”میں حصہ پاتے ہیں ۔ووٹروں کو تو معلوم ہو ہی چکا ہوتا ہے کہ امیدوار صاحب نے اقتدار کے دنوں میں اتنے کروڑ یا ارب کمایا تھا۔پکی سڑک بناتے ہوئے کم میٹریل استعمال کرکے اتنے کروڑ بچائے تھے۔سکولوں کی چار دیواریوں کو بنانے،مرمت کرنے کے بل تو بیٹھے بٹھائے اوور سئیر ،ایس ڈی او کو کہہ کرتین تین چار مرتبہ وصول کرلیے جاتے ہیں۔ایسے حرام کے مال پر پلنے والے ممبران اسمبلی ہی آئندہ انتخابات میں “طاقتور”امیدوار ہیں “اور ساری بڑی پارٹیاںبشمول نئے پاکستان کے دعوے داربھی اب اس کوشش میں ہیں کہ کس امیدوار یا علاقہ کے بااثرجاگیردارکے پاس ڈھیروں سرمایہ ہے یا کس وڈیرے کا باپ تا زہ مرا ہے اوراس کا عیاش بیٹاکتنی زمینیں بیچ کرکتنا مال جمع کیے بیٹھا ہے۔بس وہی ہر پارٹی کے ٹکٹ کا امیدوار ہے۔
پارٹیوں کے الیکشن کے ڈھونگ،تحصیلی ضلعی ڈویژنل حتیٰ کہ صوبائی تنظیمیں صرف لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بنائی گئی ہوتی ہیں۔اور پارٹیوں کے نام نہاد الیکشن کمیشن،الیکشن کمیٹیاں صرف لوگوں کو”پُھدو”بنانے کے لیے ہوتی ہیں ۔کہ ٹکٹ نہ میرا اے نہ تیرااے ٹکٹ ھیرا پھیر ی دا اے۔غرضیکہ آج کی سیاست تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مقتدر سیاستدانوں کو اگر گٹروں کے ڈھکنے اٹھا کر اس میں بند کر دیا جائے اور سوشل میڈیا پر خبر بمع فوٹو چلادی جائے تو عوام کا خوشیوں اور نعروں سے بھرپوراتنا بڑا جلوس نعرے لگاتا،باجے بجاتا ہوا نکلے گاکہ نام نہاد پارٹی راہنمایان آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ کرشاید بے ہوش ہی نہ ہو جائیں ۔کہ ان کی باری بھی آئی کہ آئی۔ غریب عوام کے مسائل ،لوگ بھوک سے بلکتے بچوں کے ساتھ خود کشیاں کرنے یا انھیںفروخت کرنے کے لیے چوکوں ،پریس کلبوں کے آگے بیٹھے ہیں۔
مگر بڑی سیاسی جماعتوں کوایسے مسائل کو حل کرنے کی فکر تک نہ ہے۔اور نہ ہی ایسی خبروں سے کوئی دلچسپی۔جماعتی نام نہاد قائدین یا اچھے لفظوں میں ملکی سرمایہ پر قبضہ گروپوںکے کمانڈروں کو صرف”اچھے اچھے”امیدواروں کی تلاش ہے تاکہ وہ آئندہ2018کے انتخابات میں کوئی “کمال “کرسکیں اور مخالف کو چاروں شانے چت گراسکیں ۔ویسے پاکستان میں تونئے سود خور مالداروں ،سرمایہ پرستوں ،صنعتکاروںکی لاٹری نکلی ہوئی ہے کہ خوب منافع تگناچو گنا وصول کرکے بنک بھر رکھے ہیں۔وقت کی تاک میں ہیں کہ کب نام نہاد بڑی پارٹیوں کی ٹکٹوں کی دکان سجے گی اور وہ جمع کردہ حرام سرمایہ دے کر وہاں سے ٹکٹ خریدیں گے۔اب نام نہاداوپر والی سطح کی سیاسی جماعتوں میں کوئی خاص فرق نہ رہا ہے۔
عمران ،زرداری ،شریف ،الطاف اورنام نہاد کٹھ ملائیت کے علمبردارسبھی ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ۔کہ مالدار امیدواروں پر ڈورے ڈالوانھیں جیتنے کے بعد بڑے سے بڑا عہدہ،اچھی وزارت کا لالچ دو اور اپنے ساتھ ملائو۔مگر اس سب کچھ کے باوجودخدائے عزوجل جس نے لاکھوں مائوں ،بہنوں ،شیر خوار بچوں اور بوڑھوں کی قربانیوں و شہادتوں کے بعدیہ ملک مسلمانوں کو عنایت کیا تھا۔وہ تقدیر خدا وندی کچھ اور ہی سوچ رہی ہے کہ اتنی قربانیوں اورپاکستان کا مطلب کیا؟لا الہ الااللہکے نعروں کے بعد69سا ل میں پاک سر زمین کا کیوں ایسا حال ہو گیا ہے۔اب تو قائد اعظم کی روح بھی سخت شرماتی ہوگی کہ اس ملک کاان غنڈے لٹیرے ڈاکوئوں وڈیروں نے سیاستدانوں کا روپ دھار کر کیا حشر کرڈالا ہے۔
نام نہاد قائدین کو تو صرف اپنی راتوں کی رنگینیوںاور شراب کباب کے لیے ڈھیر ساری رقوم درکار ہوتی ہیں تقریباً ایک لاکھ فی رات سے کم میں گزارا نہیں ہو سکتا۔اور ایسا مال متال غریبوں ،بے کسوں ،مزدوروں کسانوں کے ساتھ ھیرا پھیریوں اور ان کا خون تک چوسے بغیر کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔تبھی تو ایک مل کے مالک کی سال بعدمل کئی بچے جنتی ہے۔اور نیب وغیرہ کا کام تو صرف یہ رہ گیا ہے کہ لاکھ ترلے منتوں اور پراپیگنڈوں کے بعد کسی ایک نو دولتیے پر ہاتھ ڈالو اور پھر”مک مکا “کی مخصوص عنایت کردہ پالیسی کے تحت کل لوٹے ہوئے مال سے50واں حصہ وصول کرواسے آدھا آدھا بانٹو ۔آدھا سرکار کااور آدھاپکڑنے والے ملازم کااور بس قصہ تمام ہوا۔نیب کی پالیسی لٹیروں کو راس آگئی ہے اور کرپٹ سیاستدانوں کے لیے تو بالکل ہی فٹ بیٹھتی ہے اربوں کمائوگل چھڑے اڑائوصرف کروڑوں واپس کرڈالو۔صاف شفاف بن کردوبارہ لُٹو اور پُھٹو میں مشغو ل ہو جائو۔بھاڑ میں جائیں ملک کے غریب عوام مزدور و کسان۔ممبران اسمبلی کی تنخواہوں کو تین چار گنا بڑھانا ہو توحکومتی اور اپوزیشنی بینچوں کا اتحاد ایک ماں کے جنے ہوئے بچوں کی طرح ہو تا ہے اور عام دنوں میں اسمبلیوں میں بیٹھے ممبران کے کالے کووں کی طرح کاں کاں کرکے عوام کو راضی رکھنے کے فن سے تو سبھی واقف ہیں۔
سود خور نو دولتیو !اور وڈیرو جمع خاطر رکھوآپ کی سیاسی موت اور کفن دفن کا انتظام مکمل ہے۔خود کشیاں کرنے والے افراد کے خاندانوں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے وہ تو صرف بھاگتے چور کی “پوتڑی”ہی سہی کے مصداق آپ سے انتخابات تک بے نظیر سکیم،وطن کارڈ،یلو کیب،یوتھ لون سکیم اور شریفین کی دیگرنام نہاد امدادی سکیموں سے جتنا مال مل سکے بٹورنا چاہتے ہیں۔اور آپ کو الیکشن میں “ٹھوٹھا”دکھانے کو تیار ہیں۔آپ کے پولنگ کیمپوں سے ہی پرچی حاصل کریں گے آپ کی گاڑیوں میں بیٹھ کر ہی پولنگ اسٹیشن آئیں گے مگر ووٹ اپنی مرضی سے اور ہر صورت آپ کے خلاف ڈالیں گے۔اور نئے پاکستان کے نعرے والے بھی یاد رکھیں کہ آپ نے تمام سیاسی پارٹیوں کا “گنداور کچرا”اب اکٹھا کر لیا ہے۔
کوئی نیا چہرہ یا ورکرآپ سے ٹکٹ لے ہی نہیں سکتا۔پارٹی دوسری پارٹیوں کی طرح ترینوں ،قریشیوں ،اعظم سواتیوںکی بن چکی ہے۔الیکشنی معرکہ تیار ہوتے اور سیاسی طبلِ جنگ بجتے ہی آپ آئوٹ ہوجائیں گے۔شریفوں کی سیاست حقوق نسواں بل،اور ممتاز قادری شہید کی پھانسی کے بعدکبھی کی دفن ہو چکی۔ زرداری و گجراتی چوہدری کبھی کے آئوٹ ہو چکے ہیں۔ دہشت گردوں سے اس وقت تک فوج نپٹ چکی ہو گی اور آپ سے عوام انتخابات کے دن نپٹیں گے۔سب کا قصہ ہو گاپاک اور رہے گا صرف نام اللہ کا اور اس کی کبریائی کی علمبردار تحریک اللہ اکبر کا ۔ مسلمانوں کو ہندوستان میں گائے کو ذبح کرنے اور اس کا گوشت کھانے پرقتل کیا جارہا ہے۔اسلیے پاکستانی اسی گائے کے نشان پرمہریں ثبت کرڈالیں گے۔انشاء اللہ۔