تحریر : حسیب اعجاز عاشر
زاہد شمسی صاحب کا دعوت نامہ تھا اور معروف شاعرہ، مصورہ، ٹی وی اینکر محترمہ یاسمین بخاری کی دوسری کتاب”حروفِ رقصاں” کی تقریبِ رونمائی،تو ایسے میں انکار کیسے ممکن تھا۔مقررہ وقت پرہال میں پہنچ چکا تھا۔مہمانانِ کے پرتپاک استقبال کے لئے اخلاص و محبت کی خوشبوئوں سے مہکتی شخصیات میزبانِ محفل زاہد شمسی اور یاسمین بخاری مسکراہتے چہروں کے ساتھ ہال کے داخلی راستے پر موجود تھیں۔ سٹیج پر۔۔سفید اورگلابی پھولوں سے سجے میز پر دیدہ ذیب پیکنگ میں حرفِ رقصاں کے ٹائٹل کے سوینیئرز، دونوں اطراف سفید پھولوں سے خوشبوئیں بکھیرتے بڑے گلدان ،سبزململ سے ڈھکی ٹیبل پر ”حرفِ رقصاں”کے ٹائٹل کی شاہکار پینٹنگ ،نہایت اہتمام کیساتھ رکھے گئے گلابی،سفید، جامنی، پیلے اور سرخ پھولوں کے درجن سے زاید گلدستے ،کا منظرقابل دید تھا۔۔۔پھولوں میں ملبوس اِس سٹیج پر گلستانِ ادب کے سدابہار پھول اسلم کمال، ڈاکٹر سید جمال بخاری، کیپٹن(ر) عطا محمد خان،پروفیسر ہمایوں احسان،زاہد شمسی اور اعجاز کنور راجہ بھی یاسمین بخاری کے ہمراہ ادبی فضاکو مزید خوشبودار رکر رہے تھے۔
”حرفِ رقصاں”کی تخلیق کار یاسمین بخاری کے خاندان کا شمار پاکستان کے معتبر ترین ونامور خاندانوں کے صفِ اول میں ہوتا ہے، ان کے والد محترم ڈاکٹر ریاض علی شاہ(مرحوم) بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے معالج تھے۔انکے شریک حیات بریگیڈیر(ر)سجاد بخاری ١٩٦٥ اور ١٩٧١ کے غازی ہیں۔انکے بیٹے ڈاکٹر سید احمد جمال کی علمی خدمات کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر بھی کیا جاتا ہے جبکہ انکی بیٹیوں نے بھی تعلیمی میدان میں بہت جوہر دیکھائے ہیں۔اور اِسی طرح خوش گو،پرمغز اوراعتبارِ فکر تعمیر پسند تخلیق کاراور اعتبارِ ذوق فطری شاعرہ یاسمین بخاری کی ہنرمندیوں کر ذکر کیا جائے تو انہوں نے حمدو نعت میں بڑی عقیدت و احترام سے شانِ وحدت بے نیازی، یکتائی و کبریائی، رحمت و برکت، احسان وکرم کو بڑے ایمان افروز انداز میں بیان کیا ہے۔
انہوں نے اپنے جدت پسندانہ کلام سے میدان ادب میں ایک ایسا ارتعاش پیدا کیا ہے کہ اہلِ ذوق حضرات ا نکے کلام کے بہت معترف ہوئے ہیں۔انکے کلام میں سلاست،زبان کی روانی، سادگی کیساتھ ساتھ اخلاق، گہرائی اور محبت رچی بسی ہے اور انکی تخلیق کی علمی ،عرفانی اور وجدانی سطح بہت بلند ہے۔انکی نظمیں بعنوان ”وصیت”،”سچی باتیں ”شاعرانہ فطرف کی پوری طرح آئینہ دار ہے۔زندگی کے ہر پہلو پر انکی ڈائنامک آپروچ ہے۔کلام میں زمانے کی نیر نگیوں کے مختلف جھلکیاں صاف دکھائی دیتی ہیں۔یہ شاعرانہ اظہار بھی قابل توجہ ہے
جدھر یہ حسن والے جا رہے ہیں
اسی جانب اجالے جا رہے ہیں
مرے اس عہد کے انسان سارے
عجب سانچے میں ڈھالے جارہے ہیں
اِن اشعار کی چاشنی ،حلاوات، شگفتگی اور سوز و ساز سے آپ بھی لطف اندوز ہوئیے
حسرتوں کے غبار میں مرا دل
بجھ گیا انتظار میں مرا دل
رات دن بین کرتا رہتا ہے
حسرت بے قرار میں مرا دل
حسن عسکری کاظمی انکے مجموعہ کلام ”حرفِ رقصاں” کے حوالے سے اپنے تاثرات میں لکھتے ہیںکہ اس شعری گلدستے میں حرف و صوف، موسیقی اور مصوری کے بے مثال نمونے یکجا دکھائی دیتے ہیں، بھانت بھانت کے پھول، رنگوں کی بہار، اور بساط لالہ و گل پر تتلیوں کی اڑانیں اور کومل غزلوں میں رقص مجنونانہ اور موسیقی کی جل ترنگ، مختصر یہ کہ فنونِ لطیفہ اپنے معراجِ کمال پر نظر آتے ہیں۔ نامور مصور و سماجی شخصیت اسلم کمال کی ذیرِصدارت”حرفِ رقصاں” کی تقریبِ رونمائی کو الحمرا آرٹس کونسل اور پریذیڈنٹ آرٹ اینڈ لائف انٹر نیشنل سوسائٹی کی معاونت سے منعقد کیا گیا تھا ۔ اہل ادب و صحافت کی اہم شخصیات کی شرکت بھی تقریب کے وقار کو خوب بلند کر رہی تھیں۔
نظامت کے فرائض بہت نفاست سے شعر و ادب کی معتبر شخصیت جناب زاہد شمسی نے سنبھالے اور اپنے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ موسمِ بہار کے پہلو میں بیٹھے ہیں ،نئی کونپلیں کھل کھلا رہیں ہیں،فضائیں گنگنا رہیں ہیں، ہوائیں جھوم رہیں ہیں اور یوں احساس ہو رہا ہے کہ آج موسمِ بہار کا یہ منظر الحمرہ ہال میں سمٹ گیا ہو۔یہ رشتوں کی شگفتی ہی ہے کہ ادب کی نمایاں شخصیات تخلیق اور تخلیق کار سے اپنی محبت و رشتوں کا اظہار کرنے، خوشیوں میں شریک ہونے کیلئے یہاں موجود ہیں۔اِس عزت افزائی پر تمام شرکاء کا تہہ دل سے ممنون ہوں ۔عبدالحکیم چشتی نے اپنی پرسوز آواز میں تلاوتِ قرآن پاک پیش کر کے محفل کے بابرکت آغازکی سعادت حاصل کی۔
زاہد شمسی نے ان نعتیہ اشعار”پہلے درود پڑھ کر ستارے سے بات کی ۔۔پھر اس کے بعد میں مدینے میں رات کی” کے ساتھ محمد ہمایوں رانجھا کو نعت رسول مقبولۖ پیش کرنے کی دعوت دی ۔فرماتے ہیں
آقا میری جانب بھی رحمت کی نظر ٹھہرے
کچھ نخلِ تمنا کی شاخوں پے ثمر ٹھہرے
فراصت بخاری منظوم خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں۔۔
حرفِ رقصاں کی لکھاری یاسمین بخاری
شخصیت بہار و بہاری یاسمین بخاری
آفتاب جاوید نے اپنے گیان”محمد کہنے سے ۔۔اگر ہونٹ مل سکتے ہیں۔۔تو دل کیوں نہیں” سے دلوں کو جیت لیا ،تین گیان مزید سماعتوں کی نذر کئے اور خوب داد وصول کی۔خوش لحن شاعرشاہین بھٹی کے کلام سے بھی سامعین بہت محظوظ ہوئے ،کہتے ہیں
زمین کا حسن ہے آرائشِ گلستان ہیں
غمِ زماں کا جو کرتے قلم سے درماں ہیں
محمد عارف گل نے یاسمین بخاری کانعتیہ کلامِ اپنی دھیمی سحرانگیزآواز میں پیش کیا اور سماعتوں کو راحت بخشی ۔ملاحظہ فرمائیے۔۔
کچھ ایسے اندر کہ ظلمتوں کے نشاں تیرا مٹا رہا ہوں
میں سبز گنبد کی روشنی سے چراغ دل کا جلا رہا ہوں
علی رضا کاظمی اور اقبال راہی نے بھی یاسمین بخاری کی قلمی و سماجی خدمات کو منظوم خراجِ تحسین پیش کیا جبکہ سید زوار حسین نے بھی یاسمین بخاری کا لکھا ہوا حمدیہ کلام
”میرے سوزِ دل کی ہے پہچان تو
میری ڈھرکنوں کا ہے آرمان تو”
ایسے پُر عقیدت انداز میں پڑھا کہ شرکاء حبِ الہی کے سمندر میں ڈوب گئے۔محترم زاہد شمسی نے یاسمین بخاری کی شخصیت و فن کے شایانِ شان موتیوں میں پروئے حرف حرف لفظ لفظ سے چمکتا دمکتا اپنامنفرد کلام بعنوان ” دعا کو دیکھا ہے”
میں نے چلتی پھرتی وفا کو دیکھا ہے
تم نے سنا ہے میں نے دعا کو دیکھا ہے
لہجہ جیسے اُوس گری ہو پھولوں پر
لفظ کے جیسے مرہم رکھیں زخموں پر
سماعتوں کی نذر کیا تو حاضرین نے دل کھول کر داد و تحسین لٹائی، دل موہ اور قابل رشک کلامِِ شمسی سے یاسمین بخاری ایسی متاثر ہوئیں کہ اظہارتشکر کے لئے فوراً مائیک کی جانب بڑھیں۔ادبی محفل میں دھنوں کا رنگ بھرنے کے لئے معروف موسیقار انجم شیرازی ہمراہ طبلہ نواز کو سٹیج پر مدوح کیا گیا،بعدازاں تقریب کے مہمانِ خصوصی جناب عطا محمد خان نے اپنے اظہار خیال میں کہا خواب وہ نہیں جو سوتے ہوئے آئے بلکہ خواب تو وہ ہوتے ہیں جو سونے نہیں دیتے،حقیقتوں میں جینے کے لئے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے اور یہی یاسمین کی شاعری ہے۔
انکا پیغامِِ شاعری بہت معتبر اور اول و آخر واضح ہے کہ ضرب کھا کر سہنے کی بات کرنی ہے،دھو پ سہہ کر چھائوں کی بات کرنی ہے،ہار میں امید کو محور بنا کرزندگی کی بات کرنی ہے۔تقریب میں تمام نامور احباب کی شرکت انکی حسین شاعری کی شہادت ہے۔تقریب کا ردھم پھر بدلااور سجاد طافو نے اپنے فن سے حاضرین کے دلوں پے خوب راج کرتے نظر آئے۔اظہارِ خیال کرتے ہوئے تقریب کے مہمانِ خصوصی پروفیسر ہمایوں احسان نے کہا کہ پہلی بار اتنے خوبصورت سامعین سے مخاطب ہوں۔یاسمین نے اپنی شاعری میں تصویروں کی نمائش، پینٹنگ، ڈئزاینگ، درویشانہ انداز میں سادگی اور جدت کو ملا کر گردش میں رکھا ہے ”ٹو مینی تھنگز اِن وَن پرسن”، انکا مقصدِ شاعری”نیشن بلڈنگ اور سوسائٹی بلڈنگ”ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو زور،دھونس اور دولت کی طاقت سے اپنی تہذیب مسلط کرتے ہیں معاشرے کے دشمن ہیں۔ ہمیں معاشرے کو حساس بنانا ہے تو ہمیں درس و تدریس میں قدم اُٹھانے، ہاتھ ملانے اور نظر اُٹھانے کا طریقہ سیکھانا ہو گا اور یہ سب یاسمین بخاری کی کتاب”حرفِ رقصاں” میں موجود ہے نرم کتاب میں جبر بھی ہے جو قطرہ قطرہ خوشبو خوشبو سے قاری میں حساسیت پیداکرتی ہے۔
یاسمین بخاری کی صاحبزادیوںشاہ ذادے بخاری اور عائشہ برلاس نے اپنے جذباتی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ماں نے ہمیں سب کچھ دیا ،سوچ دی، فکر دی،ہمیں انکی بیٹی ہونے پر فخر ہے،ہم کہتے ہیں سبھی اپنی ماں سے حد درجہ محبت کریں کیوں کہ ماں کو دیکھ کر ہی اللہ تعالی نے صفا مروہ کو حج کا رکن بنا دیا۔ہماری ماں نے اپنے پر پھیلائے اور آج اپنے خوابوں کی تعبیر کی دنیا میں پہنچ گئیں۔ہم انہیں ان کی دوسری کتاب کی اشاعت پر دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
اعجاز کنور راجہ نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی نے یاسمین بخاری کو خصوصی طور پر نوازا ہے،فن شخصیت کو بناتا ہے اور ہر فن باندھی کیطرح اِن کے سامنے حاضر ہے ۔”حرفِ رقصاں” کھولیں تو ”حروف رقصاں”ملیں گے۔ ہر شعر لاجواب ہے ۔جو غزل بھی پڑھ لی جائے خوب لطف دے گی۔انکی ساٹھ میں سے چھتیس غزلوں میں چھوٹی بحر کا استعمال بہت خوبصورت انداز میں کیا ہے۔جبکہ چودہ نظموں میں بھی چھوٹی بحر اور غزلیہ انداز غالب ہے جو انکے باطنی آہنگ کی بھرپور عکاس ہے ۔انہوں نے اِس موقع پر حرفِ رقصاں سے منتخب اشعار بھی پیش کر کے محفل کو کشتِ زعفران بنا دیا۔صغری صدف نے کہا کہ یاسمین کی شعاری سن کر میں بہت سرشار ہوئی ہوں۔۔ یاسمین بخاری شائستگی اور خوبصورتی کا مجسم ہیں۔وہ محفل باکمال محفل ہوتی ہے جسکی صدارت اسلم کمال کر رہے ہو۔
مہمانِ خصوصی ڈاکٹر سید احمد جمال نے اپنے منظوم خیالات کا اظہار انگلش میں کرتے ہوئے کہا مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے اور مجھے فخر کہ میں اُس ماں کا بیٹا ہوں جو اپنے قلم اور عمل سے معاشرے کی اصلاح کیلئے نئی نئی راہیں تلاش کرنے میں سرگرداں رہتی ہیں۔ یاسمین بخاری کا کہنا تھا کہ اپنے اللہ تعالی کی شکرگزار ہوں جسکی رحمت سے یہاں ہوں، والدین کی شکرگزار ہوں جن کی دعائیں یہ مقام یہ حاصل کیا، اپنے شریکِ حیات کی شکرگزار ہوں جنہوں نے حوصلہ دیا، دوستوں کی شکرگزار ہوں جنہوں نے مجھے ہمت دی، زاہد شمسی کی شکرگزار ہوں جن سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔انہوں نے اپنے مجموعہ کلام ”حرفِ رقصاں” سے منتخب غزلیں پیش کی تو سماعین نے دل کھول کر داد دی ۔ایک منتخب شعر اہل ذوق قارئین کی نذر۔۔
عجب سا روز منظر دیکھتی ہوں
میں قطرے میں سمندر دیکھتی ہوں
چمکتا ہے وہ بن کر ماہِ تاباں
جسے میں دل کے اندر دیکھتی ہوں
لطافت اس میں کتنی یاسمیں ہے
گلوں کو اس سے کم تر دیکھتی ہوں
زاہد شمسی نے ان کلمات کے ساتھ’مسکراہٹیں باٹنے اور زندگیاں بکھیرنے والی شخصیت ”صدرِمحفل کو اظہار خیال کے لئے مدوح کیا کہ اقبال اور فیض آج اسلم کمال کی صورت میں ہمارے درمیان ہیں ،اسلم کمال نے جس انداز میں انکی شاعری میں رنگ بھرا ہے اپنی مثال آپ ہے۔اسلم کمال نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ”حرفِ رقصاں” کے ٹائٹل کی فنی خوبیوں،انفرادیت،جاذبیت کا ذکر کیا اور اس کے پسِ منظر میں رقصِ درویشاں سے حرفِ رقصاں کے باہمی بندھن پر اپنی دلچسپ اور معلوماتی آراء سے تمام حاضرین کو خوب محظوظ کیا۔تقریب کے اختتام پرپرتکلف عشائیہ کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تحریر : حسیب اعجاز عاشر