تحریر : مقصود انجم کمبوہ
جرمنی ایک انتہائی ترقی یافتہ صنعتی ملک ہے جس کے مراسم اور تعلقات کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے ۔ پرانے دشمن غائب ہو چکے ہیں مگر کئی نئے خطرات و خدشات پیش آ سکتے ہیں ۔ موجودہ دور میں عدم استحکام کو دشمن کہا جاتا ہے ۔ دنیا کے مختلف علاقے مثلاً کوہ قاف ، بلقان ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ ایسے نسلی ، مذہبی اور قومی تنازعات کا گڑھ بنے ہوئے ہیں ۔ جنہوں نے بارہا خوفناک تصادم اور لڑائیوں کو جنم دیا ہے ۔ اگر بنیاد پرستی اور دہشت گردی متحد ہو جائیں اور انہیں عام ہلاکت کے ہتھیاروں پر دسترس بھی حاصل ہو جائے تو خطرات محض متعلقہ خطے تک محدود نہیں رہتے بلکہ ہم سب انکی زد میں آجاتے ہیں ۔ امن صرف اس جگہ قائم رہنا ہے جہاں کے لوگ اس سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ آزادی اور قانون کی بالادستی کے لیے اقتصادی خوشحالی اور سماجی انصاف کا ساتھ ہونا ضروری ہے اور ان سب کے لیے استحکام شرط لازم ہے ۔ قیام امن کا مطلب استحکام لانا ہے۔
آج کل استحکام ، سرد جنگ کے زمانے کی طرح فوجی طاقت میں توازن سے حاصل نہیں ہوتا ۔ بلکہ آج استحکام صرف انسانی حقوق کے احترام سے صحت مند جمہوری معاشرے اور ماحول سے خوشحال معیشت اور سماجی انصاف سے نصیب ہوتا ہے ۔ یورپی ممالک کے ڈھانچے میں جرمنی کو کلیدی حثیت حاصل ہے ۔ ہمارا یورپ کے مراکز میں واقع ہونا ، ہماری اقتصادی قوت اور تمام اہم بین الاقوامی تنظیموں میں ہمارے اثرو رسوخ کی وجہ سے ہمیں ایسا مقام حاصل ہو گیا ہے کہ ہم اپنے براعظم کی صورت گری میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ہمارے ساتھی دوست ملک بھی ہم سے یہی توقع رکھتے ہیں۔
جرمنی میں بہت سے لوگوں کو ابھی اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ بین الاقوامی امور میں جرمنی کی کتنی اہمیت اور اثرورسوخ ہے۔ ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ دوسرے ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں اور انکی وجہ سے ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ لیکن ہم نہ تو سب کچھ کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں کرنا چاہیئے ۔ ہماری ذمہ داری کا دائرہ ہماری صلاحیت تک ہے ۔ ہمیں اپنی ترجیحات کو معقولیت اور قابل عمل ہونے کی حدود میں رکھنا چاہیئے ۔ لیکن ساتھ ہی ہماری ذمہ داریوں کا تقاضہ ہے کہ ہم اس معاملے میں صرف اپنے معیار تک محدود نہ رہیں۔
جرمنی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قیام استحکام کی کوششوں کو صرف اپنے قربُ جوار تک محدود نہ رکھیں ۔ سلامتی کی جدید پالیسی اس کام کے لیے ضروری ڈھانچے مہیا کرتی ہے ۔ کئی دوسرے شعبوں اور عوامل کی طرح فوج بھی ذمہ دارانہ پالیسی میں اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے ۔ وسطی اور مشرقی یورپ میں ہم نے ممبروں کو اتحاد میں شامل کر کے اور دوسرے ملکوں کو تعاون مہیا کر کے استحکام حاصل کر رہے ہیں ۔ جبکہ سابق یوگو سلاویہ میں مقصد کے لیے ہم مسلح افواج استعمال کر رہے ہیں ۔ اور مشرق وسطیٰ میں اس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔
مغرب یورپ میں نیٹو اور یورپی یونین کی کوششوں سے استحکام کا ایسا خطہ وجود میں آ گیا ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی یہ استحکام چھوٹے اور بڑے ملکوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر یکجہتی کے باعث ممکن ہوا ہے ۔ نیٹو نے شمالی امریکہ اور یورپ کو سلامتی کے علاوہ بھی بہت کچھ دیا ہے ۔ نیٹو کے ایک سابق سیکرٹری جنرل اور جرمنی کے وزیر دفاع کی حثیت سے منفرد ورنز نے ایک مربتہ کہا تھا کہ نیٹو کی ایک انتہائی اہم کامیابی یہ ہے کہ اس کی وجہ سے یورپ میں طاقت کی سیاست کا خاتمہ ہو گیا ہے ۔ ان الفاظ کا اظہار جرمنی کے سابق وزیر دفاع فولکر روئی نے اپنے ایک خصوصی مضمون میں کیا ہے۔
اب پاک بھارت کے حکمرانوں کو بھی چاہیئے کہ وہ مفاہمتی عمل کو کامیاب بنانے کے لیے ٹھوس اور جامعہ مذاکرات کریں ۔ بہت ہو چکا جنگ و جدل ۔ اگر دو عالمی جنگوں میں شکست کھانے والوں نے تاریخ سے سبق سیکھ لیا ہے تو پاک بھارت والوں کو بھی چاہیئے کہ وہ بھی تاریخ سے سبق سیکھیں اور اپنے عوام کو سکھ چین سے جینے دیں۔
تحریر : مقصود انجم کمبوہ