کہا جاتا ہے کہ دنیا کی تعمیر و ترقی ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں طبع آزامائی اور بالخصوص تعلیمی شعبہ میں مسلمانوں کی کاوشوں کو موجودہ معاشرہ سے نکال دیا جائے تو انسان پتھر اور جنگل کے دور میں پہنچ جائے گا، بلاشبہ اس میں مبالغہ آرائی کا کوئی شائبہ تک نہیں کیوں کہ اس حوالہ سے اگر غیر جانبدارانہ طور پر تاریخ کا جائزہ لیاجائے تویہ حقیقت چھپائے نہیں چھپتی کہ آج مغربی اقوام کی ترقی وخوشحالی دراصل مسلمان سائنسدانوں اور علم دانوں کی مرہون منت ہے،گرچہ کہ حضرت آدم ؑ سے لے کررسول کریم ﷺ کی آمد سے پہلے تک تمام انبیاء کرام نے شرعی لحاظ سے انسان کو جہالت سے نکالنے کے لئے تن ، من ، دھن وار دیامگر ایک ایک قوم پر بیک وقت ایک سے زائد انبیاء کرام منوث فرمائے جانے کے باوجود انسانیت اندھیروں میں بھٹکتی رہی اور پھر خالق کائنات نے ابن آدم کی عافیت و راہنمائی کے لئے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کو بھجوایا، اس میں تو کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ازل سے اندھیروں میں بھٹکتی انسانیت کو ظلمت وجہالت کے گھور اندھیروں سے نکال کر اس کے حقیقی مقام سے سرفراز کیا ،اسے عمل وعرفان سے نواز گیااور ترویج علم کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو کہ قیامت تک جاری رہے گا۔
مدنیہ منورہ میں ایک اسلامی ریاست کے قیام اور فتح مکہ کے ساتھ ساتھ ایک عالم پر فتوحات کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد مسلمان مکمل طور پر علم دین کی طرف متوجہ ہوئے، فروغ علم کا وہ سلسلہ جو آپ ﷺ سے شروع ہوا اسے خلفائے راشدین کے دور میں بھی بھرپور انداز میں جاری رکھا گیا، اس حوالہ سے صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین اور پھر تبہ تابعین بھی دامے، درمے ، سخنے مصروف عمل رہے اور یہ سلسلہ آج بھی بھرپور انداز میں جاری ہے، تاریخ کا مطالعہ کریں تو بخوبی علم ہوتا ہے کہ جب دوسو مربع میل پر اسلامی پرچم لہرارہا تھا تو اس وقت بغداد علم و ہنر اور فن کا گہوارہ تھااور دنیا بھر سے لوگ جستجو علم کے نظریہ سے بغداد آتے تھے، تاریخ کے جھروکوں میں جھانکا جائے تو پتا چلتا ہے کہ 80ھ میں سائنس باقاعدہ شکل میں مسلمانوں میں آگئی تھی، 85ھ میں بنو امیہ کا شہزادہ خالد بن یزد اس حوالہ سے خاصا مصروف عمل رہا ، یہ پہلا مسلم سائنسدان تھا، جس نے علم اور سائنس کی طرف توجہ دی،یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قرآن و حدیث میں علم رکھنے والوں نے ہی دنیاوی علوم میں اپنا لوہا منوایااور اس وقت صرف عالم دین ہی سیائنسدان تھے، ابراہیم بن جندوق157ھ ، جابر بن حیان 198ھ،احمد عبداللہ حبش 211ھ ، عبدالمالک اسماعی ، بنو موسیٰ شاکر 213ھ، حکیم یحیےٰ منصور 214ھ ، حجاج بن یوسف اور عباس بن سعید الجوہری 229ھ سمیت دیگر مسلم سائنسدانوں نے خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کی سرپرستی میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں جس سے دنیا آج بھی مستفید ہورہی ہے خلیفہ مامون الرشید نے اس دورانیہ میں ’’ بیت الحکمہ ‘‘ کے نام سے ایک سائنس اکیڈمی بھی قائم کی ۔
مسلمانوں سے شروع ہونے والاتحقیق علم کا یہ سفرجاری رہا، چینیوں، ہندوؤں، ایرانیوں، یونانیوں، مسلمانوں اور آج کے دور میں یورپ و امریکہ نے اس میں برابرکا حصہ ڈالا ہے، علم انسانیت کی مشترکہ میراث ہے جس میں مسلمانوں کا حصہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ہے، سائنس کی تا ریخ میں مسلمانوں نے پانچ سو سالوں کے دوران جو کارنامے سرانجام دےئے ان میں سب سے پہلے روشنی کے قانون دریافت کرنا، قوس و قزح کی سائنسی وجہ ، چیچک اور خسرہ میں فرق، خوردبینی کیڑے یا مائیکروب کا نظریہ، الرجی اور امیو نولوجی کی تشخیص، جراثیم کی دریافت، پھیپھڑوں میں گردش خون کا نظریہ، امرض چشم اور اس کا علاج، سرجری کی باضابط ابتداء، منظم ہسپتال کا نظریہ، فوٹو لینے والے کیمرہ کا خیال، ریاضی میں جدید علم ہندسہ اور صفر کے علاوہ الجبرااور جیومیٹری، سورج پر سن اسپاٹس، بارود کی دریافت، میزائل کی ایجاد، شیشہ کی ایجاد اور گھڑی کی ایجادقابل ذکر ہیں جن کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہے اور محمد زکریا ورک، کنگسٹن، کینڈا نے مرکز فروغ سائنس، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لئے تحریر اپنی کتاب ’’ مسلمانوں کے سائنسی کارنامے‘‘ میں بھی کیا ہے۔
جغرافیہ کے میدان میں بھی مسلمانوں کی تحقیق و جستجو اہل یورپ اور دیگر ترقی یافتہ قوموں کی ترقی کا زینہ بنیں، عرب جغرافیہ دانوں نے دنیابھر کی سیاحت کی، چپے چپے کا حال لکھا، ہر ملک کے پہاڑوں، دریاؤں، جھیلوں، قصبوں، بستیوں اور وادیوں تک کو گن ڈالا، لوگوں کے تمدن، تہذیب، زبان، رسوم اور لباس پر بحث کی، بحر و بر کے نقشے تیار کئے، زمین اور کرہء ہوا کو ماپا،ان کے کرے بنائے گئے، کتابیں لکھیں گئیں اور شہروں کے بڑے بڑے معجم (انسائیکلو پیڈیا) تیار کئے، عباسی خلیفہ مامون کی فرمائش پر اس کے جغرافیہ دانوں نے زمین کو ماپا اوردنیا کو بتایا کہ زمین گول ہے ورنہ اس سے قبل اس حوالہ سے انسانی نظریات یکسر مختلف تھے ،اس موقع پر یہ بھی بتایا گیا کہ اس کا دور چوبیس ہزار میل اور قطر سات آٹھ ہزار میل کے درمیان ہے، نیز بتایا کہ زمین سے اٹھاون میل کی بلندی تک ہوا ہے اور آگے خلا، عرب جغرافیہ دانوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں، مشہور مو رخ ابو الفدا 1331ء نے اپنے سے پہلے ساٹھ جغرافیہ دانوں کے نام گنے ہیں، ان میں ایک بدوی عرام بن الاصبغ السلمی الاعرابی بھی تھا جس نے عہد مامون میں عرب کا جغرافیہ لکھا تھا، اس کا ایک نسخہ مولانا عبدالعزیز میمن پروفیسر علی گڑھ یونیورسٹی کے پاس موجود تھاجنہوں نے مارچ 1940ء میں ادارۃ المعارف ہند کے عربک کالج دہلی میں منعقد ہ اجلاس کے دوران ابن العرام کی کتاب جغرافیہ پر تقریرمیں بھی اس امر کا اظہار کیا۔
ادریسی، ابو عبداللہ محمد بن محمد بن عبداللہ بن ادریس 1166۔1100ء سپین کا ایک فاضل، جو بعد میں سسلی کے نارمن فرمانروا راجر دوم 1154۔1105ء کے دربار سے وابستہ ہو گیا تھا اور اس کے لئے چاندی کا ایک کرہ بنایا، اس میں پہاڑ، دریا جنگل وادیاں تک دکھائی گئیں، آسمان کا بھی ایک کرہ بنایا گیا، 1154ء میں ’’کتاب الرجاری یانزھۃ المشتاق فی اختراق الآفاق‘‘ لکھی جو جغرافیہ کی وہ مشہور کتاب ہے کہ جو یورپ کی درسگاہوں میں تین سو برس تک شامل نصاب رہی، اس کتاب میں ستر نقشے ہیں،اس کے نسخے آکسفورڈ اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں موجود ہیں اور ان کا 1619ء کو روما میں طالوی ترجمہ بھی شائع کیا گیا، اسی طرح بصرہ کے ایک تاجر سلیمان بصری نے نویں صدی میں ہند و مشرق بعید کا سفر کیا اور 851ء میں ہندو چین کا سفرنامہ لکھا، اس کا فرانسیسی ترجمہ موسیورینان نے 1845ء میں کیا، بغداد میں سکونت پذیر تاجرالمسعودی، ابوالحسن علی بن حسین نے ( 956ء)میں تحصیل علم اور سیر کائنات کے لئے ایران، ہند، سیلون، چین اور شام وغیرہ کا سفر کیا اور مروج الذہب و معادن الجواہر، اخبار الزمان، کتاب الاوصاف اور کتاب التبنیہ والاشراف سمیت کئی کتابیں لکھیں، ان میں سے مروج الذاہب کو یورپ میں بڑی شہرت حاصل ہوئی، اس کا ایک عمدہ ایڈیشن حال ہی میں لیڈن سے شائع ہوا ہے، یہ ہے تو تاریخی کتاب لیکن اس میں جغرافیائی مواد اس قدر ہے کہ تذکرہ نگار مسعودی کو جغرافیہ دانوں میں بھی شمار کرتے ہیں۔
ابن حوقل، ابو القاسم محمد بغدادی 968ء مشہور عرب سیاح اور کتاب المسالک والممالک کا مصنف ہے، اس کتاب میں متعدد نقشے بھی ہیں، نضر بن شمیل بصری، خلیل بن احمد بصری (نحوی 791۔714ء) کا شاگرد، 740ء میں کتاب الصفات لکھی، جس میں عرب کا جغرافیہ تفصیل سے دیا گیا، المقدسی، شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن احمد بن ابی بکر 1000۔946ء یروشلم کا رہنے والا تھا، جس نے جغرافیہ پر ایک کتاب ’’احسن التقویم فی معرفۃ الاقالیم‘‘ کے عنوان سے 895ء میں مکمل کی، ابو عبداللہ یاقوت بن عبداللہ حموی 1229۔1179ء ایشیائے صغیر کا ایک غلام جو بغداد میں فروخت ہوا، آقا نے اسے بہترین تعلیم دلوائی اور وہ دنیائے اسلام کا سب سے بڑا جغرافیہ دان بن گیا، چھ جلدوں پر مشتمل معجم البلدان (جغرافیہ)کے علاوہ معجم الادباء، معجم الشعراء، اخبار الشعرا، کتاب الدول، کتاب المبداء والمآل اور ارشاد الاریب اس کی مشہور تصانیف ہیں، معجم البلدان کو ایک جرمن عالم و سٹن فیلڈ نے ایڈیٹ کر کے لپ زگ (جرمنی) سے 1866ء میں شائع کیا اور معجم الادباء کو پروفیسر مارگولیتھ نے گب میموریل کی خاطر ایڈٹ کیا، سٹرینج لی گوائے (Gey Le Strange) نے اپنی کتاب ’’فلسطین مسلمانوں کے تحت‘‘ کے دیباچے میں مسلم جغرافیہ پر عمدہ بحث کی گئی، ایک اور فاضل گوئجے ڈی(De Goeje) نے ابن خلکان، ابن حوقل، مقدسی اور اصطخری کی تصانیف ایڈیٹ کیں جو 1870ء میں لیڈن سے شائع ہوئیں۔
طنجہ (افریقہ) کا مشہور سیاح ابن بطوطہ، محمد بن عبداللہ بن ابراہیم ابو عبداللہ 1377۔1304ء جو شام، فلسطین، عراق، ایران، موصل، عرب مشرقی افریقہ، ارض روم، کریمیا، قسطنطنیہ، بخارا، افغانستان، ہند، سیلون اور سیام میں برسوں گھومتا رہا، واپس آ کر اپنا سفرنامہ ’’النظار فی غرائب الامصار و عجائب الاسفار‘‘ کے عنوان سے لکھا جس کے یورپ کی مختلف زبانوں میں کئی ترجمے ہو چکے ہیں، جے ایچ کریمر (Kramer) نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے پاس سمندروں اور ساحلی ممالک کے مکمل نقشے تھے، جب 1498ء میں واسکوڈیگاماملیندا (شرقی افریقہ) کے مقام پر پہنچا تو وہاں ایک عرب ملاح احمد بن ماجد (اندازاً 1500ء) نے اسے ہندوستان کا راستہ بتایا، احمد نے ایک کتاب’’ کتاب الفوائد‘‘ کے عنوان سے لکھی ، جس میں ان ملاحوں کے لئے مکمل ہدایات تھیں جو بحرہند، خلیج فارس اور بحر الکاہل میں جہاز رانی کرتے تھے، اس میں تمام مقامات خطر، اچھے اور برے موسموں نیز پانی کی گہرائی وغیرہ کا ذکر تھا، یہی احمد قطب نما کا موجد سمجھا جاتا ہے، بلاشبہ مسلم حکمرانوں نے علم و فن کے فروغ کے لئے روایت شکن اور لاذوال کردار ادا کیا مگر ایک ہزار سال تک ہر شعبہ میں ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی اس قوم کو اسلام دشمن عناصر نے دام میں لاکر اس کی اصل سے ہٹادیا، یورپ نے مسلمان سائنسدانوں کی کتابوں کو اپنی زبان میں ترجمہ اور شائع کرکے اپنے تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کیا تاکہ مسلمانوں کے ان تجربات و تحقیق سے فائدہ اٹھایا جاسکے، تاریخ کا مطالعہ کریں تو کوئی ابہام باقی نہ رہے گا کہ اہل یورپ نے مسلمانوں کی اسی علمی میراث کو بنیاد بنا کر ترقی و خوشحالی کی منازل طے کیں اور بے پناہ اندرونی و بیرونی سازشوں کے نتیجہ میں مسلمان علم و فن سے دور ہونے لگے اور آج یہ کیفیت ہے کہ ہم سائنس و ٹیکناجی کے میدان میں کام کرنے کی بجائے مغربی ممالک کے دست نگر بن کر رہ گئے ہیں، عصر حاضر کا تقاضا ہے کہ مسلمان علم و تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں دوبارہ جستجو کرئے تاکہ عظمت رفتہ کا حصول ممکن ہوسکے