تحریر : مزمل احمد فیروزی
قدیم زمانے میں کم وبیش 800 سال قبل مٹھی ایک بہت بڑا گائوں تھا جو آہستہ آہستہ قابل ذکر تجارتی مرکز کی شکل اختیار کرگیا اس شہر کا نام ایک نیک خاتون جس کا نام” مٹھاں “تھا اس عورت نے اپنی مدد آپکے تحت ایک کنواں کھدوایا اور اس کنویں کی وجہ سے لوگ اس کے آس پاس آکرآباد ہوناشروع ہوگئے اور پھر یہ جگہ” مٹھا ں کے گائوں” کے نام سے مشہورہوگئی اور بعد میںیہ مٹھی بن گیا اور اب مٹھی تھر کا صدر مقا م ہے یہ واقعتا ایک شہرہے یہاں سہولت کی ہر شے میسر ہے پختہ سڑکیں،پکی اورصاف گلیاں ، نئی عمارتیں ان میںسے زیادہ بطور گیسٹ ہائوس استعمال ہو رہی ہے سالوںپراناقدیم مرلی دھرمندر جو 2015 میںمرمت کے بعد آج کے جدید مندر کی شکل اختیار کرگیا ہے اور سب سے بڑھ کر” گڑھی بھٹ”جو کہ ایک تفریحی مقام کی حیثیت رکھتا ہے یہاںپرپارک جیساماحول بناہوا ہے بینچزلگی ہوئی ہیں اور گیسٹ ہائو س بھی ہے۔
ہم تین دن میں دو مرتبہ” گڑھی بھٹ”گئے پہلی باررات میںجس دن ہم تھرپہنچے تھے جہاںسے رات میںپورے مٹھی شہر کانظارہ دیدنی ہوتا ہے اوراسلام آباد کی یاد دلاتاہے جیسے پیرسوہاوا سے آپ پورے اسلام آباد کانظارہ کرسکتے ہیں بالکل اسی طرح مٹھی کے اس مقام سے کر سکتے ہیں جوارباب غلام رحیم نے تعمیر کروایاتھا جو کہ تھرواسیوں کے لئے پہلی تفریح گاہ تھا اوردوسری بارآخری دن شام میںجس وقت مٹھی میںبارش ہو رہی تھی تو اس ٹیلے پرسے مٹھی شہر اجلااجلا،نکھرا اور سرسبز و شاداب لگ رہا تھا وہ منظرکسی بھی طرح اس تھرکانہیںلگ رہاتھا جس کے بارے میںہم گزشتہ دہائی سے پڑھتے اور سنتے آئے تھے۔ مٹھی ہنرمندوں،دستکاروںاور فنکاروں کا شہر ہے یہاں قالین سازی کاکام عروج پر ہے جبکہ سوتی نواڑ جو چارپائیاں بننے میں کام آتی ہے بہت مشہور ہے۔
ہمارامٹھی کے بازاربھی جانا ہوا وہاںکے دوکانداروں کاکہناتھاکہ ہماراکاروباربیرون شہرسے آنے والے لوگوںسے ہوتاہے یہاں کے چنری کے سوٹ خاصے مشہور ہیں جس کی رنگائی حیدراآبادسے کرائی جاتی ہے جو 400سے لیکر 2400تک میں دستیاب ہوتے ہیں جبکہ ہاتھوں کی کڑھائی والے دیدہ زیب گلے ، بیڈشیٹیں ،رلیاں اور پرس وغیرہ مناسب دام پرملتے ہیںہم سب ہی صحافی دوستوں نے اپنے گھر والوں کیلئے دل کھول کر خریداری کی مگرہم نے اندازہ لگایا کہ مقامی اور باہرسے آنے والوں کیلئے دام مختلف ہے۔
ہمارے اس سفرمیںمٹھی پریس کلب کی خوبصورت بلڈنگ عمارتوں میںایک نیااضافہ ہے مٹھی سول ہسپتال کی حا لت بھی پہلے سے بہت بہتر ہو گئی ہے ہمارا رات کے پہر سینئرصحافی حمیرااطہرصاحبہ اور منصورمانی کے ساتھ وہاں جانا ہوا تو ہماری ملاقات ایمرجنسی میںموجود ڈاکٹرسے ہوئی ان سے معلوم چلاکہ 63ڈاکٹرز یہاں کام کر رہے ہیں اور پچھلے گیارہ دنوںمیں 2300مریضوں نے ہسپتال کارخ کیاجس میں زیادہ تر حاملہ عورتیں اور پیٹ کے درد میں مبتلا لوگ تھے پھر ہم سب کو بچوں کاانتہائی نگہداشت کاوارڈدیکھنے کی جلدی تھی ہم نے ڈاکٹرسے عرض کی کہ ہمیں وہاںجانا ہے وہاں16اینکوبیٹرزمیں 12 میںبچے تھے اورچار خراب تھے ان کو اس وقت ایک ڈاکٹرکے ہمراہ تین اسسٹنٹ دیکھ بھال کررہے تھے۔
چندسالوںمیںتھرنے ترقی کی کئی اہم منازل طے کی ہیں بدین سے باہرنکلتے ہی نئی پختہ سڑک جو کسی بھی طرح بڑے شہروںکی شاہراہ سے کم نہ تھی اور ہم سب کیلئے یہ ماننا محال تھا کہ ہم قحط زدہ رتھر کی طرف گامزن ہے بلکہ تیزی سے گزرتے ٹیلے اور چٹیل میدان کسی فلم کے منظر کی عکاسی کررہے تھے ۔ یہ شاہراہ مٹھی تک اور پھروہاں سے ننگرپارکرتک تھریوں کی آمدورفت کوآسان کردیاہے چاہے وہ یہاںآنے والے غیر ملکیوںکے سبب ہی ہوا ہو۔تھر میں عا م علاقوں کی نسبت سڑکوں کی تعمیر پر25سے 30فیصد زیادہ لاگت آتی ہے پانی کیلئے نو کوٹ سے مٹھی تک پانی کی پائپ لائن بچھائی گئی تھی جس سے نہ صرف ان شہروں بلکہ راستے میں آنے والے تمام گوٹھوںمیں مقیم لوگوں اور ان کے مال مویشیوں کوبھی پینے کے پانی کی سہولت دستیاب ہو گئی ہے۔
جبکہ 450واٹرپلانٹ کے ساتھ ساتھ ایشیا کے سب سے بڑے آر او پلانٹ کی مصری شاہ میں تنصیب کے بعد اب مٹھی شہرکوجدید شہروں میں گنا جاسکتاہے ۔ یہ پلانٹ 20لاکھ گیلن پانی صاف کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اب تک اس سے صرف 12لاکھ گیلن پانی صاف کرایا گیاہے اس کی وجہ پانی اسٹور کرنے کی مناسب جگہ کا نہ ہونا ہے صرف 4بڑے ٹینک ہیں جن میں پانی اسٹور کیاجاتا ہے اورپھر48گائوں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
ماروی کے نام سے منسوب کنویں کو اب ماروی کلچرل کمپلیکس میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو ایک بہترین اضافہ ہے (جس کے بارے میںتفصیل سے اگلی تحریر میںملاحظہ کیجئے گا) تھر کی مرکزی شاہراہوں کوچھوڑ کر پورے تھر کا سفر خشکی کے راستوں کا ہے جو زیادہ تر اونٹ پریا پیدل طے کیا جاتاہے اہم شہروںسے دور دراز علاقوںمیںپوٹھوہاری جیپ جس میںسفر کرنے کا اتفاق ہمیں بھی ہوا جب ہم ڈیپلوروڈ سے نمک جھیل کیطرف جارہے تھے تو ہم نے ایک اشوک نامی ہندومہاراج کی پوٹھوہاری جیپ میں سفر کیا جو اس نے آلٹر کروائی ہوئی تھی اسی طرح کیکڑا (تھر کی منفرد سواری) تھرکی رتیلے راستوں پرعام گاڑی نہیں چل سکتی اس لئے پرانے فورویل ڈرائیوفوجی ٹرکوں کوضروت کے مطابق آلٹرکر کے استعمال کیا جاتا ہے۔
تھر کے ہنرمندڈرائیور ان فوجی ٹرکوں میں چوبی تختے جوڑ کر اور اس کی باڈی بنا کر اس کا حلیہ ہی بدل دیتے ہیں اور پھریہ تھرمیں” کیکڑاکوچ” کے نام سے جاناجاتاہے یہ واحدسواری ہے جو انسانوں کے ساتھ ساتھ بڑے مال مویشی کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میںکام آتی ہے ۔صحرائے تھر کے دور افتادہ علاقوں میں آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں جہاں دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے وہاں لوگ غاروں اور پتھروں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
سڑک کے ساتھ واقع شہروں اور قصبوںمیں کسی حد تک بجلی، پانی ،تعلیم اور صحت کی سہولیات تھر واسیوںکومل رہی ہے لوگ وہاں ٹیلی ویژن کیبلزاور انٹرنیٹ سے خوب لطف اندوزہو رہے ہیںمگراندرون تھریہ سب ایک خواب ہے اورانکی پہنچ سے دور ہے اور سیل فون بھی شازو نادرہی کسی کے ہاتھ میںنظر آتاہے۔ تھرکی موسیقی کابھی جواب نہیں جدید دورمیں بھی اس کی لوک موسیقی کی قدر وقیمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہر تھوڑے فاصلے میں مٹھی شہرمیںجھونپڑہ ہوٹل اورموسیقی کے مراکزگہماگہمی کا بہت بڑا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔