تحریر: فرید ساجد لغاری
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
شاعرِ یکتا، ناثرِبے ہمتا،نوائے دلپزیر، شخصیتِ بے نظیر،سُخن سنجِ گرامی،نزاکتِ معانی، گوہرِنکتہ پردازونکتہ بیں، سراپائے عشق، عارفِ رموزِ تصوّف، اشک افزائے صائب، عمدةالمدرسین، زبدةالمحققین، صریرِخامہ کے سُرتال، مؤرخِ بے مثال، اُستاذالاساتذہ، فخرالجہابذہ، مجتہدسُخن ور، جذب واحساس کے پیکر، واقفِ اسرار، نابغۂ روزگار، نالۂ حزن انگیزوفغان، تلمیذالرحمٰن، نجم الدّولہ، دبیرالملک، بہادرنظامِ جنگ، بیت الغزل حضرت اسداللہ خاں غالبالمعروف مرزانوشہ، مرزاعبداللہ بیگ ولدمرزاقوقان بیگ کے بیت الشرف بمقام آگرہ ٢٧ دسمبر ١٧٩٧ء بمطابق ٨ رجب ١٢١٢ ہجری کو پیدا ہوئے۔
١٨٠٢ء میں مرزاغالب کے سرسے والد کاسایہ اُٹھ گیا۔مرزاعبداللہ بیگ خاں (غالب کے والد)ریاست الورمیں فرائضِ منصبی انجام دیتے ہوئے راج گڑھ کی جنگ میں گولی لگنے سے شہیدہوگئے تھے اوراُن کی تدفین راج گڑھ میں ہوئی۔جس کی تصدیق غالب کے شعرہٰذا سے بھی ہوتی ہے۔
کافی بود مشاہدہ شاہدضرورنیست
دَرخاک راج گڑھ پدرم رابود مزار
اور اسی سال(١٨٠٢ء میں غالب اپنے حقیقی چچا نصراللہ بیگ خاں کی سرپرستی میں آئے۔نصراللہ بیگ خاں مرہٹوں کی طرف سے آگرہ کے قلعہ دار تھے۔جب ١٨٠٣ء میں لارڈلیک نے دہلی کوفتح کیاتونصراللہ بیگ خاں نے قلعہ آگرہ لارڈلیک کے حوالے کردیا اوراس طرح وہ چارسو (٤٠٠)سواروں کے رسالدارمقررہوئے۔١٨۔اکتوبر١٨٠٣ء میں انگریزآگرہ پرقابض ہو گئے۔اپریل ١٨٠٦ئ میں مرزانصراللہ بیگ خاں دورانِ جنگ ہاتھی سے گرکرزخمی ہوئے اوراُن کاانتقال ہوگیا۔
٤مئی ١٨٠٦ء کونواب احمدبخش خاںرئیس فیروزپورجھرکا کی سفارش پرانگریزوں کی طرف سے نصراللہ بیگ خاں کے پسماندگان کاوظیفہ دس ہزارروپے(١٠٠٠٠)مقرر ہوا۔اس وظیفے میں نصراللہ بیگ خاں کی والدہ،تین بہنیں،اسداللہ خاں غالباورمرزایوسف علیخاں حصّہ دارمقررہوئے۔مرزا نصراللہ بیگ خاں کی وفات کے بعد مرزاغالباپنے ناناخواجہ غلام حسین کمیدان رئیس آگرہ کی سرپرستی میںآئے۔٧جون ١٨٠٦ء کو دوسرے شقہ میں وظیفہ دس ہزارسے گھٹ کرپانچ ہزارمقررہوا اورغالب کاحصّہ ساڑھے سات سوروپیہ سالانہ مقرر ہوا۔یہ سب خواجہ حاجی کی کارستانی کانتیجہ ہے۔کیونکہ دوسرے شقہ میں خواجہ حاجی کو اس وظیفے میں دوہزارروپے سالانہ کا حصّہ دارقراردیاگیاتھا۔حالاں کہ اُن کامرزا قوقان بیگ کے خاندان سے کوئی تعلق نہ تھا۔
١٨٠٧ء میں مرزا نوشہ نے شعر گوئی کا آغاز کیا اور تخلص میں اپنے اصلی نام اسد کا استعمال مناسب سمجھا۔(دوسری روایت کے مطابق مرزانے١٨٠٩ء میں شعرگوئی کاآغازکیا اوررنگِ بیدل میں لکھنے لگے)یہ دوسری روایت نادرست ہے کیونکہ ١٨٠٩ء میں مرزا نے اسد تخلص ترک کرکے تخلص میں غالب استعمال کرنے لگے وجہ یہ تھی کہ ایک اور شاعر میر حانی (مانی)اسد تھے جن کامبتذل اور ناقصانہ کلام مرزااسد کے نام سے منسوب ہورہاتھا۔مرزا اسداللہ بیگ خاں کو مولوی محمدمعظم کے مکتب آگرہ میں ١٨١٠ء کوحصولِ تعلیم کے لیے بٹھادیاگیا۔١٩۔اگست ١٨١٠ء کومرزاغالب کی شادی الٰہی بخش خاں معروف کی چھوٹی بیٹی اُمراؤ بیگم سے ہوئی۔الٰہی بخش خاںمعروف ،خان نواب احمدبخش خاں والیٔ فیروزپور،جھرکا کے چھوٹے بھائی تھے۔معروفمعروف شاعرتھے۔بوقت نکاح غالب کی عمرتیرہ سال تھی اوراسی سال نواب حسام الدین حیدرنے غالب کاکلام اُستادشاعرمیرتقی میر کودکھایا۔١٨١١ء کو مرزا غالب نے پارسی نژادعبدالصمدکی شاگردی اختیارکی کیونکہ وہ ژندوپاژند کے بہت بڑے عالم تھے۔ ١٨١٣ء مرزاغالبکی دلّی آمداورقیام کاسال ہے۔١٨١٦ء کومرزاغالبنے اپنی پہلی مہرتیارکرائی اورمُہرمیں(اسداللہ خاںعرف مرزنوشہ١٢٣١ھ)لکھوایا۔اس وقت غالب کی عمراُنیس سال تھی۔ یہ غالب کی عیش وعشرت کازمانہ تھا۔دریں بارہ اسی سال غالب نے اپنی دوسری مُہر(اسداللہ غالب١٢٣١ھ)تیارکرائی ١٨١٨ء میں غالب کومغل جان طوائفہ سے عشق ہوگیاتھا۔اسی حوالے مرزاحاتم علی مہر کولکھاہے کہ ”ایک طوائفہ مغل جان سے اکثر پہروں اختلاط ہواکرتے تھے ”اور اسی خط میںغالبنے اپنے مرشدکامل کی یہ بات بھی دہرائی کہ”کھاؤ پیو مزے اُڑاؤمگریادرکھو کہ مصری کی مکھی بنوشہدکی مکھی نہ بنو” ١٨٢١ء کلامِ غالب کی اشاعت کاسال ہے۔
اس سال آپ کے اردوکلام کی تدوین بہ ترتیب ردیف دیہی ”دیوانِ غالب”نسخہ ”بھوپال”کی تاریخ کتابت کا سال ہے۔دراصل مرزانے اصل دیوان سے انتخاب کرکے اپنااردودیوان تیار کررکھا تھا۔اتّفاق سے اس کا ایک نسخہ میاں فوج دار خاں بہادربھوپال کے کتاب خانے میں محفوظ تھا ۔ یہی” نسخۂ بھوپال”(نسخہ حمیدیہ ) کے نام سے شائع ہوا۔مولیٰنا غلام رسول مہراپنے مرتبہ ”دیوانِ غالب”موسوم بہ (نوائے سروش)کے صفحہ نمبر١٣ پررقم طرازہیں ”نسخہ حمیدیہ”میں جوکلام ہے وہ فی الجملہ پچیس برس کی عمرتک کاہے۔یعنی اس کی آخری تاریخ ١٨٢٢ء سمجھنی چاہیے اوریہی ١٨٢٢ء غالبکی فارسی شاعری کاآغازبھی ہے۔١٨٢٣ء میں غالب نے اپنی تیسری مُہرمیں صرف(محمداسداللہ خاں١٢٣٨ھ)تحریرکرایا۔١٨٢٥ء کو خواجہ حاجی جو غالب کی پینشن میں ناجائزحصّہ دارتھے مرضِ جذام سے انتقال کرگئے اوراسی سال غالبکی فارسی زبان میںپہلی نثری تصنیف”پنج آہنگ”کی اشاعت ہوئی۔چونکہ اس کتاب کے پانچ باب تھے۔(١۔آداب و القاب٢۔فارسی لغات کی مصطلحات ومصادر٣۔دیوانِ غالب کے منتخب اشعار٤۔تقاریظِ غالب٥۔فارسی مکاتیب)اسی لیے مذکورہ تصنیف کانام ”پنج آہنگ”رکھاگیا۔دسمبر١٨٢٥ء مرزایوسف علی خاں کی شدیدبیماری اوردیوانگی کاہے۔
٢٦۔ ١٨٢٥ء ہی کو قرض خواہوں نے غالب کے ناک میں دم کررکھا تھا۔غالب کے سسرالٰہی بخش کی وفات کا سال بھی ١٨٢٦ء ہے۔ اردو دیوان کے انتخاب کی تدوین کاسال بھی یہی ہے۔١٢۔اکتوبر١٨٢٦ء کو نواب احمدبخش خاں فیروزپور،جھرکا اور لوہارو کی حکومت سے دستبردارہوئے تونواب شمس الدین احمدخاں کو والیٔ ریاست مقرر کیا گیا۔مرزا غالب نے دسمبر ١٨٢٦ء کو نواب احمدبخش کی معیت میں کلکتہ کے سفر کاآغاز کیا۔اس طرح وہ نواب احمدبخش خاں کے ہمراہ جھرکا آئے۔ مقصدپینشن کی بحالی کے لیے سرچارلس مٹکاف سے ملنا تھا۔لیکن نواب موصوف نے غالب کی سرچارلس مٹکاف سے ملاقات نہ کرائی۔اس طرح فیروز پور جھروکاسے کلکتہ کاسفر شروع ہوگیا۔اچانک گورنرجنرل کے آمدکی خبرکانپورکی پھیلی۔چناںچہ غالب یہاں سے فرخ آباد اورکانپورروانہ ہوئے۔کانپورپہنچتے ہی غالبسخت بیمارہوگئے۔پالکی میں لکھنؤ چلے آئے۔جب لکھنؤ پہنچے عمرکا ایک سال بیت چکا تھا۔لکھنؤ کی آب وہواراس نہ آئی۔تقریباًپانچ مہینے تک لکھنؤمیں قیام کیا۔پھر یہاں سے باندہ آئے لگ بھگ چھ مہینے نواب باندہ کے مکان پر رہے اورشفاپائی۔پھرباندہ سے خشکی کے راستے گھوڑے کی سواری سے ہمراہ تین ملازمین کلکتے کاسفرکیا۔مرشدآباد میں آپ کونواب احمدبخش کی رحلت کی خبرہوئی۔٢١فروری ١٨٢٨ء کومرزاغالب کلکتے پہنچے اوراسی روز شملہ بازارمیں گروتالاب کے نزدیک مرزاعلی سوداگرکی حویلی میں رہنے کومکان مل گیا۔یہ دورمعرکۂ حامیانِ قتیل کا آغازتھا۔
٢٨۔ اپریل ١٨٢٨ء کوغالب نے پنشن کی درخواست دائرکی ۔درخواست میںیہ حوالہ بھی دیا کہ بندہ تادمِ تحریربیس ہزارروپے کامقروض ہے۔دہلی میں مراجعت تین برس بعدیعنی ٢٩نومبر١٨٢٩ء کوہوئی ۔مراجعت کے چنددن بعدانتخابِ کلامِ فارسی واردو موسوم بہ ”گلِ رعنا”کی تدوین بفرمائش مولوی سراج الدین ہوئی۔(حمیداللہ شاہ ہاشمی نے اپنی مرتبہ کتاب ”گفتۂ غالب ” میں ”گلِ رعنا” کی تاریخ تصنیف ١٨٢٨ء غلط درج کی ہے کیونکہ غالب کی مراجعت ١٨٢٨ء کے آخرمیں ہے) ولیم بنٹنگ نے ١٨٣١ء کو غالب کی پنشن کادعویٰ خارج کردیاتھا۔١٨٣٢ء کوغالب کے مروّجہ دیوان کاانتخاب شائع ہوا۔ شیفتہ کی غالبسے پہلی ملاقات ١٨٣٣ء میں ہوئی۔١٨٣٥ء کوولیم فریزرقتل ہوئے۔فریزرکے قتل کے الزامِ اعانت میںنواب شمس الدین احمدخاں کو گرفتارکیاگیا۔بالآخر ١٨۔اکتوبر١٨٣٥ء کونواب شمس الدین احمدخاںکو بہ الزام اعانت مجرمانہ پھانسی ہوئی۔جب کہ ٢٦۔اگست ١٨٣٥ء میں ولیم فریزرکے قتل کے جرم میں کریم خان کی پھانسی کی سزا پرعمل درآمدہوچکاتھا۔اس طرح فیروزپور،جھرکا کاعلاقہ انگریزوں نے واپس لے لیااوراسی سال غالب نے اپنی کتاب کلیاتِ فارسی موسوم بہ”میخانۂ آرزو”مرتب کی۔کلیاتِ غالبفارسی کی تدوین کاسال ١٨٣٧ء ہے۔یہی سال سراج الدین بہادرشاہ ظفرکی تخت نشینی کاہے۔٢٠نومبر١٨٣٧ء ہی میں مغل دربارسے فارسی زبان بہ حیثیت دفتری زبان خارج ہوئی۔٣٠جنوری ١٨٤٠ء کوغالب اپنی والدہ کی دعاؤں سے محروم ہوگئے۔ایک فارسی تحریرمیں وہ ٣٠جنوری تک زندہ تھیں۔عین ممکن ہے کہ مرحومہ کاانتقال مذکورہ روزکے آخری لمحات میں ہوا ہو۔مرزاغالب کودہلی کالج کے لیے بہ حیثیت پروفیسرفارسی کی پیشکش١٨٤٠ء کوہوئی لیکن آپ نے انکارکردیاتھا۔ اگست ١٨٤١ء کوقماربازی کے الزام میں غالب کوگرفتارکیاگیااوراس طرح یہ پہلی بازپُرس تھی اوراسی موقع پرایک قرض خواہ نے نالش کی کہ مرزا مجھ سے شراب اُدھارپرلے گئے ادائیگی کرنے میں لیت ولعل کررہے ہیں۔قاضی مفتی صدرالدین آزردہ (جج)کے سوال کرنے سے پہلے غالب نے موقع کی مناسبت سے فی البدیہہ شعرسنایاکہ!
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
لیکن عدالت نے قماربازی کے جرم میں سوروپیہ جرمانہ کیا۔ عدم ادائیگی پر چارماہ قید سنائی ۔جرمانہ اداکیاگیا۔(جرمانہ قاضی مفتی صدرالدین آزردہ نے ادا کر دیا تھا) گورنرجنرل لارڈلن برا کے عہدمیںغالب کو خلعت ہفت پارچہ سہ رقم جواہرکا اعزاز١٨٤٤ء میں عطاکیاگیا۔١٨٤٥ء کو دیوانِ غالب فارسی ” میخانۂ آرزو”مطبع دارالسلام دہلی سے شائع ہوا۔١٨٤٧ء کوغالب نے پہلااردوخط بنام منشی ہرگوپال تفتہ لکھا۔مئی ١٨٤٧ء کو غالب کا اردودیوان مطبع دارالسلام دہلی سے شائع ہوااور٢٧مئی ١٨٤٧ء کوغالب دوبارہ قماربازی کے الزام میںشہرکے کوتوال فیض الحسن کے ہاتھوں گرفتارہوکرتین ماہ قیدمیں رہے۔اس قیدمیں نواب مصطفی شیفتہ نے ان کی بڑی امداد کی۔ ع:زنداںمیں بھی خیال بیاباں نورد تھا،کے مصداق قیدمیں غالب کی بذلہ سنجی قائم رہی۔جب ایک رئیس دورانِ حبس غالبکی مزاج پُرسی کوگئے توغالبنے فی البدیہہ یہ شعرپڑھا۔
جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتارِ بلا ہیں
کپڑوں میں جوئیں بخیوں کے ٹانکوں سے سَوا ہیں
لیکن نظامی بدایونی لکھتے ہیں کہ غالب اتفاقاً قیدہوگئے تھے۔اُن کی قیداتنی سخت نہ تھی۔٩مارچ ١٨٤٨ء کو غالبنے دوسرااردوخط نبی بخش حقیرکولکھاتھا۔جولائی ١٨٥٠ء کو بہادرشاہ ظفر سے نجم الدّولہ ،دبیرالملک،نظامِ جنگ کا خطاب ملا اورساتھ ہی خاندانِ تیموریہ کی تاریخ نویسی پرتقرر ہوا۔تاریخ نویسی کے معاوضے میں پچاس روپے تنخواہ ماہوارمقررہوئی اور یہی سال ریختہ گوئی کادورِثانی ہے۔١٨٥١ء میں غالب نے اپنی چوتھی مُہرتیارکرائی جس پر”نجم الدّولہ،دبیرالملک اسداللہ خاںبہادرنظامِ جنگ” تحریرکرایااوراسی سال مرزاجواں بخت کی شادی پرغالب وذوق کی کشیدگی ہوئی۔ زین العابدین عارف کی وفات اپریل ١٨٥٢ء میںہوئی اوراسی سال ”مہرنیمروز”کا پہلاحصّہ مکمل ہوا۔”مہرنیمروز ”کا پہلا حصّہ ابتدا سے لے کرہمایوں کے انتقال تک پرمشتمل تھا۔حصّہ دوم اکبرکی تخت نشینی سے لے کر بہادرشاہ ثانی تک کے حالات قلم بندکرنے کی تجویزتھی۔مومن خاںمومن کاانتقال ١٤مئی ١٨٥٢ء کو ہوا۔١٨٥٣ء میں غالب نے اپنی پانچویں مُہرتیار کرائی جس پر(یااسداللہ غالب) تحریرکرایااوراسی سال ”پنج آہنگ ” کادوسراایڈیشن (مطبع دارالسلام ،دلّی )سے شائع ہوا۔١٨٥٤ء میں حالی پہلی مرتبہ بعمر١٧۔١٨سال دِلّی آئے۔نظم”قادرنامہ”کی اشاعت بھی ١٨٥٤ء میں ہوئی۔
یہ نظم غالب نے عارف کے دونوں بچوں کو فارسی اوراُردو پڑھانے کے لیے لکھی تھی۔١٥نومبر١٨٥٤ء کواُستادِ شاہ ،شیخ ابراہیم ذوقکاانتقال ہواتوغالب اُستادِشاہ بنے اور چارسوروپے سالانہ تنخواہ مقررہوئی۔١٨٥٥ء میں غالب کی فارسی نثرکی کتاب” مہر نیمروز”کاپہلاحصہ شائع ہوااورکتاب مذکوراسی سال تین بارشائع ہوئی۔(حمیداللہ شاہ نے کتاب مذکورکی تاریخ اشاعت اپنی مرتبہ کتاب ”گفتۂ غالب”میں غلط درج کی)غالب نے مولیٰنافضل حق خیرآبادی کی تحریک پروالیٔ رام پورنواب یوسف علی خاں کی خدمت میں قصیدہ ٢٨جنوری ١٨٥٧ء کوبھیجا۔٥فروری ١٨٥٧ء کوغالب کاتقرربہ حیثیت استادنواب یوسف علی خاں والیٔ رام پورہوا۔مارچ،اپریل ١٨٥٧ء میں غالبنے والیٔ رام پورنواب یوسف علی خاں کوسیاسی امورپرمشتمل رازدرانہ خطوط لکھے(یہ خطوط غالب کی ہدایت پرتلف کردیے گئے تھے)اسی سال غالب نے اپنااردودیوان ترتیب دے کروالیٔ رام پورکوبھیجاتھا۔١٠مئی ١٨٥٧ ء کومیرٹھ میں ہنگاموں کا آغازہوگیاتھا۔ ١١مئی١٨٥٧ء کودِلّی میں دیسی فوج داخل ہوگئی تھی۔اس طرح انگریزراج کاخاتمہ اوردیسی راج کاقیام ہوا۔اقتدارہٰذا میں غالبکی قلعے کی تنخواہ اورانگریزی پنشن بندہوگئی تھی۔٢٠ستمبر١٨٥٧ء کوانگریزی فوج نے دوبارہ دِلّی پرقبضہ جمایا اور بہادرشاہ ظفرکومعزول کرکے رنگون بھیج دیاگیا۔١٠۔اکتوبر١٨٥٧ء کومرزا یوسف علی بیگ خاںحالتِ جنون میں وفات پاگئے جس سے غالب کوبہت بڑا صدمہ ہوا۔
‘دستنبو” کی اشاعت مطبع مفیدالخلائق آگرہ سے نومبر١٨٥٨ ء کوہوئی۔١٠جولائی ١٨٥٩ء کوغالبنے والیٔ رام پورکومستقل وظیفہ کی درخواست گزاری جس پروالیٔ رام پورنے سَوروپے ماہوار وظیفہ مقررکیاجوکہ تاحیات ملتارہا۔١٨٦٠ء کوغالبنواب کی دعوت پررام پور گئے اورانھی ایّام میں کتاب”قاطع برہان ” کی ترتیب بدست کاتب ناظرحسین ہوئی۔رام پورسے واپسی ٤مارچ ١٨٦٠ء کوہوئی۔مئی ١٨٦٠ء کوانگریزی پنشن کادوبارہ اجرأ ہوا۔تین برس کابقایاساڑھے سات سوروپے سالانہ کے حساب سے٢٢٥٠روپے غالب کو یک مشت ادا کیے گئے۔غالب نے اپنی چھٹی مُہر١٨٦١ء کوتیارکرائی ۔جس پرصرف(غالب) لکھوایا۔یہ غالب کی آخری مہرتھی اور یہ زمانہ غالب کے عروج کازمانہ تھا۔مرزاغالبکوقولنج کی تکلیف بھی اسی سال ہوئی اوراسی سال غالب کااردو دیوان مطبع احمدی دہلی سے شائع ہوا۔”قاطع برہان” کی اشاعت بھی ١٨٦١ء کومطبع نولکشور،لکھنؤ سے ہوئی۔٢مارچ ١٨٦٢ء کو انگریزی دربارمیں کرسی نشینی اورخلعت سے اعزاز کادوبارہ اجراہوا۔(ڈاکٹرگوہرنوشاہی نے اپنی مرتبہ کتاب”مطالعۂ غالب”میںاعزازِخلعت کاسن ١٨٦٣ء غلط درج کیاہے۔دیوان اردوکی چوتھی اشاعت مطبع نظامی کانپور سے جولائی ١٨٦٢ء کوہوئی۔یکم اکتوبر١٨٦٢ء کو غالب نے لاڈوبیگم بیوہ مرزایوسف علی خاں کے لیے حکومت سے وظیفہ کی درخواست گزاری۔
دسمبر١٨٦٢ء میں دیوانِ اُردو کی اشاعت پنجم مطبع مفیدالخلائق آگرہ سے ہوئی۔”نگارستانِ سُخن”مرتبہ ظہیردہلوی ١٨٦٣ء میں شائع ہوئی۔اس انتخاب میں غالب،ذوق اورمومن کوشامل کیاگیا۔(یادرہے یہ انتخاب مطبع مفیدالخلائق آگرہ سے بہ اہتمام منشی شیونرائن چھپاتھا)غالبکا کلیاتِ فارسی کادوسراایڈیشن بھی ١٨٦٣ء کومطبع نو لکشورسے شائع ہوا۔جولائی ١٨٦٣ء کولاڈو بیگم کا خیراتی وظیفہ بیس روپے ماہوار تادمِ درخواست گزاری سے شروع ہوا۔١٨٦٤ء کومثنوی ”ابرِ گہربار”اکمل المطابع سے شائع ہوئی۔”قاطع برہان ”کے جواب میں (محرق قاطع برہان)مصنّفہ سیّدسعادت کی اشاعت بھی ١٨٦٤ء کوہوئی اور”محرق قاطع برہان” کے جواب میںمیاں دادخان سیاحکی کتاب”لطائفِ غیبی”زیورِ اشاعت سے آراستہ ہوکرقارئین اور مدقّقین کی توجّہ کامرکز بنی۔ کتاب ”دافع ہذیان”مصنّفہ سیّد محمدنجف علی کی تاریخِ اشاعت١٨٦٥ئ ہے اوراسی سال سوالاتِ عبدالکریم مراحلِ اشاعت سے گزرکرمحققین کی دلچسپی کاباعث بنے۔مارچ ١٨٦٥ء میں غالبنے حکومت ِ وقت سے تین مطالبے کیے کہ اُنھیں شاعرِ دربارمقررکیاجائے
پہلے سے اونچی جگہ ملے اور”دستنبو”کو حکومت اپنے خرچ پر شائع کرائے۔تو تحقیقات کا حکم ہوا غالب کارویّہ ہنگامۂ جنگ میں حکومتِ وقت کے خلاف تھا سو مطالبات کی درخواست ردّ ہوئی۔٢١۔اپریل ١٨٦٥ء کو نواب یوسف علی خاں کاانتقال ہوااورنواب کلب علی خاں اُن کے جانشین مقررہوئے۔مولیٰنا عبدالرحیم نے ”قاطع برہان ” کے جواب میں ”ساطع برہان ”لکھی توغالبنے اس کے جواب میں ”نامۂ غالب”اگست ١٨٦٥ء میں شائع کرایا۔دسمبر١٨٦٥ء میں غالب نے رام پورکادوسرا سفرکیااوراِنھی ایام میں ”دستنبو” کادوسرا ایڈیشن مطبع لٹریری سوسائٹی روہیل کھنڈبریلی سے شائع ہوا۔دسمبر١٨٦٥ء کو”قاطع برہان”نظرثانی اوراضافوں کے بعدبعنوان”درفشِ کاویانی” کے نام سے شائع ہوئی۔٢٨دسمبر١٨٦٥ئ کوغالب رام پورسے روانہ سفرہوکر٨جنوری ١٨٦٦ء کو دہلی پہنچے۔ ”قاطع برہان”کے جواب میں ”مویدبرہان”مصنّفہ احمدعلی احمدجہانگیری کی اشاعت مطبع مظہرالعجائب کلکتہ اور”قاطع القاطع”مصنّفہ امین الدین امین دہلوی کی اشاعت مطبع مصطفائی دہلی سے ١٨٦٦ء کوہوئی اوراسی سال آخری انتخابِ کلامِ غالبموسوم بہ”خلدآشیاں”نواب کلب علی خان والیٔ رام پورکی فرمائش پرمنظرعام پرآئی۔غالب کی تصنیف ”دعاصباح”١٨٦٧ء کومطبع نولکشورلکھنؤ سے شائع ہوئی۔(مرزا نے یہ مثنوی اپنے بھانجے مرزاعباس بیگ کی فرمائش پر لکھی۔
دراصل یہ منظوم ترجمہ عربی دعا”دعاالصباح ”حضرت علی سے منسوب ہے)اسی سال غالب نے ”مویدبرہان” کے جواب میں”تیغِ تیز” شائع کرائی۔فروری ١٨٦٧ء میں ”نکاتِ غالب ورقعاتِ غالب”فارسی قواعدسے متعلقہ کتاب منظرِ عام پرآئی۔١١،اپریل ١٨٦٧ء کو ”ہنگامۂ دل آشوب”(قاطع برہان کے مناقشے کے سلسلے کے منظومات) مطبع منشی سنت پرشادآرہ سے شائع ہوئے۔”سبدِچین”کی اشاعت مطبع محمدی دلی سے اگست ١٨٦٧ء کوہوئی۔ ٢دسمبر١٨٦٧ء کو مولوی محمدامین الدین امین دہلوی پر ازالۂ حیثیت عرُفی کا مقدمہ درج کرایاگیا۔ ٢٥دسمبر١٨٦٧ء کو”ہنگامۂ دل آشوب ” کی اشاعت دوم سابقہ ادارہ سے ہوئی۔یادرہے کہ حسین علی خاں متبنیٰ نواب احمدبخش کے حقیقی بھائی کی پوتی کی نسبت بھی اسی سال ہوئی تھی۔غالب کی اجازت سے جنوری ١٨٦٨ء کوموصوف کی تین کتابیں(پنج آہنگ،مہرِنمروز اوردستنبو) کو کلیاتِ نثرفارسی میں شامل کرکے مطبع نولکشورلکھنؤ سے شائع کیا گیا۔
٢٣ مارچ ١٨٦٨ء کو مولوی امین الدین امین دہلوی سے راضی نامہ ہوا ۔اس صورتِ حال میں غالب ”ازالۂ حیثیتِ عرفی مقدمہ” سے دستبردارہوئے۔ ”عودِہندی”مجموعۂ مکاتیبِ غالبکی پہلی اشاعت مطبع مجتبائی میرٹھ سے ٢٧،اکتوبر١٨٦٨ء کوہوئی اوراِنھی ایام میں غالب نے والیٔ رام پور سے ادائے قرض کی درخواست گزاری۔١٤فروری ١٨٦٩ء کو غالببوقت ظہربے ہوش ہوگئے۔ تشخیص ہوئی کہ دماغ پرفالج گرا ہے۔اسی حالت میں ١٥فروری ١٨٦٩ء بمطابق ٢ذیقعد١٢٨٥ء بعدنمازظہرپیرکے دن راہیٔ ملکِ عدم ہوئے ۔ع:حق مغفرت کرے عجب آزادمرتھا۔مرحوم کونظام الدین اولیاء کے مزارکے قریب لوہارو کی ہڑواڑ میں دفن کیا گیا۔مرحوم نے بمطابق ہجری سن ٧٣سال ،تین مہینے ،چوبیس دن اوربمطابق عیسوی سن ٧١سال ایک مہینا اور١٨دن عمرپائی ۔اب وہاں سنگ مرمر کا نہایت خوبصورت مقبرہ بنا دیاگیاہے۔یاد رہے والیٔ رام پور سے غالب کا وظیفہ بابت ماہ جنوری ١٨٦٩ء غالب کے انتقال سے ایک گھنٹہ پہلے موصول ہواتھا۔فی الحقیقت عورتوں کی حرمت اورعبداللہ کے گھرپیدا ہونے والا غالب ناصرف تاحیات اُردوادب پرغالب رہے بلکہ جب تک اُردوزبان باقی رہے گی غالب اس پر غالب رہے گا۔
تحریر: فرید ساجد لغاری
03336050949
03467307047
09-02-2016