کئی دنوں سے یہ بات زباں زد عام ہے کہ سچ لکھنا اور بولنا اسلامی مملکت پاکستان میں جرم ہے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے کیونکہ میرا ذاتی تجربہ ہے جب بھی سچ تحریر کیا یا میدا ن میں حق کے لیے بولا تو موت کی دھمکی ملی لیکن ضمیر کو بیچنے کی بات نہیں کی اور یہی سوچا کہ سچوں کو مانتے ہوتو حق پر ڈٹ جاؤ وارث کربلا کی طرح ،ملک تو خداداد بنا تھا اسلام اور انصاف کے لیے لیکن بے گناہ پھانسی چڑتے او ر جرائم میں ملوث آزاد گھومتے نظر آتے ہیں کیونکہ آئین اور قانون میں فرق ہے امیر اور منہ زور سفارشی کے لیے ایک قانون اور غریب اور مظلوم کے لیے علیحدہ قانون سینکڑوں انسانوں کاقاتل ملک سے آسانی فرار ہوجاتا ہے اور ایک قتل کے الزام میں بے گناہ 18سال کی قید کاٹ کر سزائے موت ہوجاتا ہے اسی طرح کئی منشیات میں ملوث حکومتی عہدہ دار دندناتے پھر رہے ہیں اور ایک چٹانک کے الزام میں پکڑے جانے والے کئی سالوں کے لیے جیل کی کال کوٹھری میں موجود ہیں اس دوغلے قانون کو کب تبدیل کیا جائے گا اور غریب کو کب انصاف میسر ہوگا امیر کی کمر کو درد ہو اور کئی جرائم میں ملوث بھی ہوتو اس کو آسانی سے علاج کے بہانے باہر بھیج دیا جاتا ہے اور غریب کا بچا اگر جیل میں تڑپتا رہے تو اسے ایک گولی میسر نہیں ہوتی اور اسکے گھر والوں کو فون کر کے کہا جاتا ہے آؤ نعش لے جاؤ۔
آج کل سابق جرنیل اور سابق صدر پاکستان کا ذکر ہر چینل پر زوروشور سے ہورہا ہے کہ اس کو کیوں باہر بھیجا گیا ہے اکثریت نے اس الزام کو رد کر دیا کہ جنرل صاحب نے کوئی اکیلے جرم نہیں کیا اس میں شامل وہ عدلیہ کے اعلیٰ جج صاحبان اور دوسرے حکومتی عہدہ داران بھی اسی طرح شامل ہیں جس طرح جنرل صاحب پر الزام لگایا گیا کیونکہ اس وقت کی عدلیہ نے جنرل صاحب کو غیر معینہ مدت کے توسیع دی تھی کہ آپ قانون میں ترامیم کر لیں اور ایسا احتساب کریں اور ملک لوٹنے والوں کے خلاف کاروائی ہوسکے لیکن بد قسمتی سے وہ نہ ہوسکا اور دہشت گردی زور و شور پر شروع ہوگئی جس سے ملک میں افرا تفری کی ہوا چل پڑی اور اسی ہوا کا ایک جھونکا لعل مسجد کی شکل میں سامنے آیا جس میں دن دیہاڑے پاکستان آرمی کے دو افسرا ن اور جوان بھی شہید ہوگئے لیکن ان کی ایف آئی آر کا آج تک پتہ نہیں چلا کہ اُن کے قاتل کا کیا انجام ہوا لیکن سابق جرنیل کو اکیلے ملوث کردیا گیا اور ان پر لفظ غدار کا لقب بھی لگایا گیا حالانکہ ملک پاکستان کے لیے کئی جنگیں لڑنے والا غدار نہیں ہوسکتا غدار وہ ہوتا ہے جو ملک سے لوٹی ہوئی دولت کو دوسرے ممالک میں لے جائے اور وہاں جاکر اپنے محالا ت اور کارخانے بنا لے اور غیر لوگوں کو ان کو ملازمتیں دے وہ اس القاب کے حقدار ہیں اور ملک کے لیے جانے قربان کریں ان کے ساتھ یہ لفظ لگانا ایک جرم کے ذمرے میں آتا ہے بڑا آدمی اگر بہت بڑا جرم کرے تو اس کے خلاف بھی فیصلہ آجائے تو اس کو بچانے کے لیے کئی سالوں بعد بھی نظر ثانی کی درخواست دی جاتی ہے اور غریب کا فیصلہ اگر کسی مقدمہ میں ہوجائے تو 30دن بعد اس کے مقدمہ کی اپیل نہیں منظور کی جاتی کہ وقت زیادہ ہوگیا ہے غریب شخص پر اگر دہشت گردوں کی طرف سے حملہ یا کوئی دھمکی مل جائے تو اس کو سرکاری ایجنسیاں یہ کہہ کر تسلی اس کو دے دیتی ہیں کہ گھر میں بیٹھ کر آرام کریں آپ کو خطرہ ہے اور کوئی تھوڑا سا خود ساختہ بڑا ہو تو اسے موبائل اسکوڈ اور پولیس کی بھاری نفری ساتھ دی جاتی ہے کہ تم نے پہلے ہی ملک کولوٹا ہے اور اب بھی ان کا تیل ، پیٹرول کی مد میں نقصان کرو ۔پاکستان میں 7ویں سکیل کا کرک اور پٹواری جب اپنے دفتر جاتا ہے تو پتہ یہ چلتا ہے یہ کوئی 20ویں گریڈ کا آفیسر آیا ہے کیونکہ کئی کے پاس Paradoگاڑی اور کئی کے پاس 2D ہوتی ہے اور کئی مارکیٹوں اور کوٹھیوں کے مالک ہیں ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ کل تم ایک فقیر کی زندگی گزار رہے تھے اور آج علاقے کے بادشاہ کس طرح بنے اور اسی طرح چو ر ڈاکو جو سرے عام جرائم کر کے ملک سے دولت جمع کی اور کئی محلات مختلف اضلاع میں بنائے اور جائیدایں خریدی جس کی اطلاع ملک کے واحد ادارے نائب کو بھی ہوئی لیکن وہ آسانی سے ملک سے فرار ہوگئے اور جن کے ذمے 10ہزار کا قرضہ تھا انکو علاقہ کے تحصیل دار صاحب پکڑ کر ضلع کی جیل میں بھیج دیتے ہیں حکمرانوں قانون کو درست کرو یہ نہ ہو ملک کے غریب عوام غفلت کی نیند سے بیدار ہوگئے ایسا طوفان آئے گا کہ کچھ بھی نہیں بچے گا اور پھر کسی محب وطن جرنیل کو اس دوغلے قانون کو توڑ کر حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھلانا پڑے گی کیونکہ اس وقت غریب کے بچوں کو NTSکے نام پر بھی لوٹا جارہا ہے جو ٹھیکیداری نظام ہے جو 9سکیل کے لیے ایک درخواست اگر دے تو اس کو ایم اے سے اوپر کے سوالات دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ اس میں ناکام ہو اور امیر لوگوں کی اولادوں کو ان نوکریوں کر تعینات کیا جائے میری ملک کے حکمرانوں ہوش کرو اگر شاعر خاموشاں میں آپکو غریبوں سے اچھا گھر نہیں ملے گا وہ سب کے لیے برابر ہوگا اور تم بھی ہوش کے ناخن لو ۔