تحریر: شفقت اللہ
ارسطو نے کہا تھا کہ قانون ایک مکڑی کا بنایا وہ جالا ہے کہ جس میں چھوٹے جاندار یعنی حشرات تو پھنس سکتے ہیں لیکن بڑے جانور آسانی اس جالے کو سے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا؟ کہ مسلمانوں کیلئے ایک الگ سرزمین میں علیحدہ اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے کہ جس میں اسلامی اقتدار کا نفاذ، اسلامی قوانین پر عمل، اسلامی نظریہ حیات، مساوات اور انصاف کی فراہمی بلا کسی امتیاز کے فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بنیوں ،بے ایمانی، جھوٹ، ناپ تول میں کمی جیسے گناہ کبیرہ سے نجات حاصل کرنا تھی اور ان نظریات کے پیش نظر لاکھوں لوگوں نے پاکستان کو وجود میں لانے کی خاطر قربانیاں دیں۔
اگر ہم اس وقت بھارت کے ساتھ پاکستان کی کارکردگی کا موازنہ کریں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بہت سی چیزیں مشترک ہیں ۔جیسا کہ یہاں بھی عام آدمی کو انصاف نہیں ملتا اسکو انصاف کے حصول کیلئے اتنے دھکے دئیے جاتے ہیں کہ وہ بیچارہ یا تو رشوت کا سہارا لینا پر مجبور ہو جاتا ہے اور یا پھر اسکی زندگی ختم ہو جاتی ہے یعنی یہاں بھی جسکی لاٹھی اسکی بھینس کا قانون رائج ہے ۔یہاں پر اقتدار بھی غنڈہ عناصر کی بدولت حاصل کیا جاتا ہے جب بھی الیکشن ہوتا ہے تو ہارنے والی پارٹی دھاندلی کا رونا روتے روتے چپ کر جاتی ہے لیکن انکی کوئی شنوائی نہیں کی جاتی اور یہی حال آپ بھارت میں بھی دیکھ سکتے ہیں ہمیشہ ہم دیکھتے آئے ہیں کہ سمندر میں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگل جاتیں ہیں۔
خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات آئے روز کبھی ٹی وی چینلز پر تو کبھی اخبارات میں زینت بنتے ہیں اور پاکستان میں انکی روک تھام اور آنے والے وقت میں تعداد میں اضافہ ہونے والے خطرات کے پیش نظر ایک کہانی بھی فلمائی جا چکی ہے جس نے آسکر ایوار ڈ جیت لیا اور یہی کچھ ہمیں بھارت میں بھی نظر آتا ہے لیکن کیونکہ وہ اسلامی ملک نہ ہے لیکن پھر بھی وہاں مسلمان یہاں سے زیادہ آباد ہیں میں ایسے واقعات معمولی بات ہیں اور با لکل اسی طرح لبرل پاکستان میں ان واقعات کا ہونا یا نہ ہونا برابر شمار کیا جانے لگا ہے ۔ہر طرف چوروں اور ڈاکو ؤں کا راج ہے چپڑاسی سے لے کر وزیر اعظم تک سبھی کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔مال مفت دل بے رحم کچھ ایسا ہی رویہ عوام کے پیسوں کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اسکی بندر بانٹ کی جاتی ہے چاہے عوام نے جیسے بھی بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر ٹیکس ادا کیا ہو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔تعلیم ،صحت اور انصاف جیسی بنیادی سہولیات میں بھی کرپشن کی مثالیں قائم کی جاتیں ہیں یہی وجہ ہے کہ 69 سال آزادی کے گزرنے کے با وجود بھی عوام ان تما م سہولیات سے محروم ہے۔
ملکی معیشت کا ان لالچی اور اقتدار کے بھوکے لوگوں نے بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے کہ یہ تو عوام کے پیسوں کو خرد برد کر کے اپنا کالا دھن بنانے میں مصروف ہیں اور ملک کی معیشت کو قرضے لے کر چلا رہے ہیں کچھ عرصہ قبل پاکستان میں قرض اتارو ملک سنوارو کے نام سے ایک مہم چلائی گئی جس میں کروڑوں پاؤنڈز کی امداد ملی لیکن اب تک اسکا کوئی حساب موجود نہیں اور ہر سال آئی ایم سے نیا قرض اس لئے جاتا ہے کہ اس کے قرض کی پہلے والی قسط دی جائے یعنی سود کا پیدا چکایا جائے باقی قرض جوں کا توں کھڑا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ پہلے دن سے ہی ایک لاکھ کے قریب کی خطیر رقم کا قرض دار ہے جو کہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کی معیشت کا بھی زمبابوے جیسا حال ہو گویا ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہر صورت میں اسلامی اصولوں کا جناز نکالا گیا اور لبرل بن کر پاکستان کی آزادی کے نظریات بھول گئے ہیں اور پاکستان اور بھارت میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ہاں !!! البتہ ! اگر فرق نظر آتا بھی ہے تو یہ کہ بھارتی حکمرانوں نے پاکستان میں اپنے کاروبار نہیں بنائے جبکہ ہمارے حکمرانوں نے انڈیا میں خوب دل کھول کر سرمایا کاری کی ہے۔
بھارتی عوام اور حکمران پاکستان کے خلاف کوئی موقع جھوٹا یا سچا ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جبکہ پاکستان کے حکمران پاکستان کے حکمران امن کی آشا کا راگ ٹھوس ثبوت ہونے کے با وجود الاپتے رہتے ہیں ان لوگوں پر کرپشن ہونے کے با وجود کم سے کم وہ محب وطن تو ہیں نہ کہ ہمارے حکمرانوں کی طرح ۔ایگزیکٹ کمپنی کے خلاف برطانوی اخبار نے خبر لگائی تو راتوں رات ہی سرکاری مشینری حرکت میں آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے کمپنی کا تمام ریکارڈ قبضہ میں لے کر کمپنی کو بھی سیل کر دیا گیا اور اس کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی بھی عمل میں لائی گئی۔
اسی طرح برطانوی خبر ایجنسی نے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ شریف خاندان کے کالے دھن کے بارے میں رپورٹ شائع کی لیکن اس بار بے شمار مسلحتیں سامنے آ گئیں ہیں اور نہ انکا پہلے کچھ بگڑا تھا اور نہ ہی اب کچھ بگڑنے والا ہے با لکل اسی طرح انڈیا کے جن سیاستدانوں اور حکمرانوں کے کالے دھن کا انکشاف کیا گیا ہے ان کے خلاف کوئی بھی کاروائی ممکن نظر نہیں آتی۔ایک اور غیر ملکی رپورٹ کے مطابق پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب کے پروگرام کی مد میں بہت سے ملکوں سے پاکستان میں امداد دی گئی جسکا شمار کروڑوں ملین پاؤنڈز میں ہوتا ہے کا کوئی ریکارڈ موجود نہ ہے اور سب کا سب خرد برد کر لیا گیا ہے اسی رپورٹ کے مطابق سندھ میں پانچ ہزار گھوسٹ سکول اور چالیس ہزار کے قریب گھوسٹ اساتذہ کا انکشاف کیا گیا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کی مد میں ملنے والے کروڑوں پاؤنڈز میں حد درجہ کی کرپشن کی گئی جس پر فنڈز دینے والی تنظیموں نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور ہو سکتا ہے اگر کرپشن ثابت ہو جائے تو یہ تنظیمیں آئندہ پاکستان کو فنڈز کی فراہمی کا سلسلہ معطل کر دیں۔ان تمام باتوں کو بالائے طاق نہ رکھتے ہوئے اگر سوچا جائے تو پاکستان اور بھارت میں اب کچھ بھی مختلف نہیں رہا اگر حدود کسی طور باقی ہیں تو وہ صرف اس وجہ سے کہ بھارتی عوام او ر حکمران ملکی سالمیت کے حوالے سے کوئی سمجھوتا نہیں کرتے جبکہ پاکستان کی حالت ان سے کچھ مختلف ہے۔
تحریر: شفقت اللہ