دویوم قبل وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی تقریر میں اعلان کیا کہ میں نے ایک ریٹائرڈ جج سپریم کورٹ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کا اعلان کر دیاجو الزامات میرے خاندان کے افراد کے خلاف ہیں پروپیگنڈا کرنے والے اُ دھر جاکر اس کمیشن کے پاس اپنے ثبوت اور بیان دیں میں نے چند سنےئر قانون دانوں سے اس کمیشن پر سوال کیا تو پتہ چلا کہ جوڈیشنل کمیشن بنانے کا اختیار وزیراعظم کے پاس تو نہیں ہے یہ اختیار صرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آف پاکستان کا اختیار ہے اگر انکوائری کمیشن بھی بنایا جائے تو عوام پوچھتے ہیں کہ اس کا اختیار کیا ہوگا اور الزام ثابت ہونے پر وہ کیا کاروائی کر سکتے ہیں کیونکہ اس سے قبل بھی کئی کمیشن بنے جن میں الزام ثابت ہوگئے لیکن ان کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی وزیر اعظم صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ چندصحافی حضرات گھسے پٹے الزام لگا کر میرے خاندان کو بد نام کرنے کا تماشا لگا رہے ہیں اگر یہ الزام تھے کو وزیر اعظم صاحب کو ٹیلی ویثرن پر آکر تقریر کر نے کی ضرورت کیا تھی یہ الزام تو دنیا بھر میں مختلف مالک کے سربراہان اور ان کی اولادوں پر لگے ہیں لیکن انہوں نے عوامی مطالبہ پر اپنی حکومتوں سے علیحدہ ہوکر انکوائری کمیشن بنا دئیے جب فیصلہ ہوگا تو جرم ثابت ہونے کے بعد مزید کاروائیاں ہوں گی لیکن میاں صاحب نے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں جس کمیشن کا اعلان کیا نہ ہی اس کی کوئی پاور ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی اختیار کہ وہ کسی کے خلاف کاروائی کرنے کا نوٹس یا آرڈر دیں گے عوام تو یہی کہہ رہے ہیں کہ اگر کسی علاقے کے پولیس کے SHOکے کسی عزیز کے خلاف کوئی درخواست آجائے تو جب تک وہ SHOسیٹ پر تعینات ہو کوئی انکوائری کرنے والا اس کے عزیزوں کو ملزم نہیں ٹھہرائے گا اسی لیے عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر میاں صاحب اپنی سیٹ سے استعفٰی دیں اور اپنی جگہ پر کسی اپنی پارٹی کے دوسرے افراد کو عارضی چارج دیں اور انکوائری کمیشن تحقیقات کریں اس کے بعد جو رپورٹ آئے گی اس میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا روزانہ کی پریس کانفرنسوں میں کئی وزرا نے آکر شورواویلہ کیا اسے سوائے ان کی بدنامی کے عوام کی نظروں میں اور کچھ نہیں تھا کے انہوں نے حقائق کو چھپانے کے لیے اس خیراتی ادارہ جس کی تعریف ملک کا ہر امیر و غریب کر ر ہا ہے کہ عمران خان نے دوسرے ممالک سے چندے جمع کر کے اس کی تعمیر کروائی اور کئی غریبوں کی زندگیا ں بچی اس کے خلاف پروپیگنڈا کرنا عوان کی نظروں میں سوائے کمینہ پن کے اور کچھ نہیں اگر یہی وزراء اور وزیر اعظم جب را کا ایجنٹ کوئٹہ سے گرفتار ہوا تھا تو وزیر اعظم اسی دن TVپر آکر دنیا تو بتاتے کہ ہمارا ملک ہندوستان کی وجہ سے آج دہشت گردی میں ڈوبا ہوا ہے لیکن اس پر نہ ہی کسی وزیر اور نہ ہی ملک کے سربراہ کو توفیق ہوئی کہ آکر بیان دیتے ماسوائے وزیر داخلہ پاکستان جس کے اندر کچھ ملک کی محبت نظر آتی ہے اب ملک کا ہر غریب اپوزیشن کی طرف دیکھ رہا ہے کہ یہ کب حکومت کے خلاف باہر نکلیں گے اور ملک لوٹنے والوں کو مجبور کریں گے جن جن میں ملک سے دولت لوٹ کر غیر ممالک میں پہنچائی ہے واپس کروائیں گے کیونکہ اب ذرائع کے مطابق سویس حکومت کی دوسری قسط کا انتظار ہے کہ وہ جلد آنے والی ہے اور کن کن کے جرائم سے پردہ اٹھے گا اسی لیے ملک کے باشعور عوام پوچھتے ہیں یہ دولت کس طرح ان ممالک میں گئی اورت کن ذرائع سے ادھر جاکر یہ کاروبار عروج پر پہنچے اسی لیے ملک کے تمام عوام اور سیاستدان ماہر قانون دانوں نے فرانزک آڈٹ کا مطالبہ کر دیا سوچیں کے سیاست کرنی ہے تو حکومت سے علیحدہ ہوکر جوڈیشل کمیشن کو فل اختیار دلوائیں جو تحقیقات کر کے عوام کے سامنے لائیں ورنہ ایسا طوفان نظر آرہا ہے کہ اس میں ہر بُرائی کرنے والا بہہ جائے گا ۔