جرمنی (انجم بلوچستانی) برلن بیورو و مرکزی آفس برلن MCBیورپ کے مطابق پوری دنیا میں ٤ اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو شہید کے یوم شہادت کی یاد میںپیپلز پارٹی کے جیالوں،پروانوں اورہمدردوں نے جلسے،جلوس اور اجتماعات کا اہتمام کیا۔ پاکستان اور پاکستان سے باہربھٹو شہید کی جمہوریت کیلئے جدوجہد،اسلامی ممالک کے اتحاد کی کوششوں اور پاکستان کے لئے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والوں اور سر عام کوڑے کھانے والوں کاذکر کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قیصر ملک کی رپورٹ کے مطابق چار اپریل، بروز پیربھٹو شہید کا یوم شہادت پاکستان پیپلز پارٹی جرمنی کے سینئر رہنما وسابق صدر برلن، ظہیر اداس کی رہائش گا ہ پر انتہائی عقیدت احترام سے منایا گیا ۔پیپلز پارٹی کے سینئر رہنمائوں اور پاکستان عوامی تحریک کے ذمہ داران نے شرکت کی۔ تقریب کا آغازخضرحیات تارڑ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔
ظہیر اداس نے سب سے پہلے شہید بابا کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی ۔پاکستان میں دہشت گردی کے دوران شہید ہونے والے تمام افراد کیلئے،خصوصاً سانحہء لاہور کے جملہ شہداء کے درجات کی بلندی کیلئے دعا اور زخمی ہونے والے افراد کی صحت یابی کیلئے اللہ تعالی کے حضور دعاکی کہ” اپنے حبیب پاک ۖکے صدقے تما م شہدائے کرام کے درجات بلند کرے ، زخمیوں کو صحت کاملہ اور شہداء کے تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے ۔آمین۔”
اسکے بعد ظہیر اداس نے قائد عوام بھٹوشہید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ”آج سے کئی سال قبل قائد عوام نے اس وقت کی ضیائی عدالت میں کھڑے ہو کر ان سب خطرات سے آگاہ کیا تھا جو آج پاکستان کو درپیش ہیں۔قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹوشہید کی آج سے ٣٨سال پہلے کہی گئی ہر بات سچ ثابت ہو رہی ہے۔ قائد عوام نے بار بار ضیاء شاہی کو بتایا تھاکہ جس آگ سے تم کھیل رہے ہو وہ ایک دن پاکستان ہی کو نقصان پہنچائے گی۔
انہوں نے دنیا کے بدلتے حالات کا اس وقت جو نقشہ پیش کیا تھا، وہی آج ہو رہا ہے، مگر اسوقت جنرل ضیاء نے بھٹو کو شہید کرنے کا جو ذمہ سامراج کے سامنے اٹھایا تھا، اسکو وہ ہر حالت میں پورا کرنا چاہتا تھا،۔اسکو علم تھا کہ بھٹو کے بغیر میں جتنی دیر چاہوں اقتدار میں رہ سکتا ہوں، مگر اسکو یہ علم نہیں تھا کہ جو بدمعاش اس سے بھٹو کو شہید کرنے کا کام لے رہے ہیں، وہ اس کی بھی پروا نہیں کرتے،لہٰذا جب وہ کام مکمل ہو گیا تو جنرل ضیاء بھی ہوا میں بکھر گیا۔”
اسکے بعد ملک ایوب اعوان نے شہید باباکو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ” آج بھٹوشہید کی جتنی پاکستان کو ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ اگر آج ہمارے قائدزندہ ہوتے تو پاکستان کی یہ حالت کبھی نہ ہوتی ۔جنرل ضیاء کے دور میں جس ا نداز میں جرمنی میں جدوجہد ہوئی دنیا میں کسی اور جگہ نہیں ہوئی۔ ہمیں اپنے اختلافات دور کرنے ہوں گے اور پیپلز پارٹی کو جرمنی اور برلن میں دوبارہ منظم کرنا ہوگا۔”
اسکے بعدمیاں اکمل لطیف نے کہاکہ ” آج پیپلز پارٹی کو قائد عوام ذوالفقار بھٹو شہید کے اصولوں پر چلا کر ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری صاحب کو اپنے نانا کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور پارٹی میں نامزدگی کے بجائے کارکنوں کو یہ حق دینا ہوگا کہ وہ اپنے اپنے حلقہ میں اپنی تنظیموں کا انتخاب آزادانہ طور پر خودکریں،تب ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔”
پاکستان پیپلز پارٹی جرمنی کے سینئر رہنما سید مجاہد حسین شاہ نے اپنے قائد شہید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہو ئے ی اس شعر سے ابتدا کی: سینے پہ حوادث کے کھڑے رہتے ہیں ،،، طوفان ظلمت سے لڑے رہتے ہیں،،،، جو لوگ بڑے ہوتے ہیں،،، وہ بڑے رہتے ہیں اسکے بعد انہوں نے کہا کہ” ہماری قیادت کو پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ سے دونمبری لیڈروں کو ایک طرف کرنا ہوگا ، انہوں نے رحمان ملک کی بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونمبر آدمی ہے اور اور دونمبر لوگوں میں آکر پیپلز پارٹی کے بانی شہید بابا اور بی بی شہید کے فلسفہ کی توہین کرتا ہے، جو اس نے تین اپریل کوبرلن میں شہید بابا کی بر سی کا دن منا کر کیا؟” انہوں نے کہا کہ” پیپلز پارٹی جرمنی کے کارکنوں نے متفقہ طور پر اس صدر (سجاد نقوی) کے خلاف عدم اعتماد کر دیا تھا اور یہ اس کو پھر صدر جرمنی کہہ رہا ہے۔ یہ حق رحمان ملک صاحب کو کس نے دیا ؟ ہم چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی جناب بلاول بھٹو زرداری صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ دونمبر لیڈروں پر بیرون ملک پابندی لگائیں کہ وہ کسی تنظیم سازی کا حصہ نہ بنیں۔ہم اس کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہیں۔”
اسکے بعدپیپلز پارٹی جرمنی کے سینئر رہنما قیصر ملک نے جناب فیض احمد فیض صاحب کی نظم جو انہوں نے قائد شہید کے لئے لکھی تھی سنائی کبھی تو سوچنا یہ تم نے کیا کیا لوگو،،،،،، یہ کس کو تم نے سر دار کھو دیا لوگوانہوں نے اپنے شہید بابا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہو ئے کہا کہ” شہید بھٹو جیسا نہ کوئی قائداعظم محمد علی جناح کے بعد آیا اور نہ آئے گا، جس نے پاکستان کو ایک ہاری ہوئی جنگ کے بعد اپنے پائوں پر کھڑا کیا اور مختصر عرصہ میں وہ کام کر دکھائے، جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔مثال کے طور پر برسراقتدار آتے ہی انہوں نے زرعی و معاشی اصلاحات کیں، مزدوروں کے لئے لیبر پالیسی دی۔
قانونی اصلاحات کیں۔پاکستان جیسے بے آئین ملک کو ایک متفقہ ١٩٧٣ عکا آئین دیا،نیشنل بک فائونڈیشن قائم کی،قائد اعظم یونیورسٹی دی ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی دی،پورٹ قاسم دی،پاکستان کو مضبوط کرنے کے لئے اسٹیل مل دی،عالم اسلام کو اکٹھا کرکے اسلامی سربراہی کانفرنس کی، علمی سیرت کانفرنس کی بنیاد رکھی،حج کا کوٹہ ختم کر کے ہر ایک کو حج کا موقعہ فراہم کیا، شناختی کارڈ کا اجرا کیا،جملہ پاکستانیوں کیلئے پاسپورٹ کا حصول ممکن بنایا، پاکستان میں پہلی مرتبہ مذہبی وزارت قائم کی ،شملہ معاہدہ کیا، پاکستان کے ٩٣ ہزار جنگی قیدی رہا کروا کر واپس لائے ۔اور بھی بہت سے کا م ہیں،جن کا سہرا قائد عوام کے سر ہے، مگر سب سے بڑھ کر انہوں نے پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد رکھی۔”
اسکے بعدپاکستان عوامی تحریک جرمنی کے سینئر نائب صدر خضر حیات تارڑ نے بھٹو شہید کے کارنامے یاد کراتے ہوئے انہیں سراہا۔ پھر مہمان خصوصی،مشہور ایشین یورپین شاعر و صحافی ،چیف کوآرڈینیٹر شکیل چغتائی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عوام کی خدمت کیلئے پیپلز پارٹی کو متحد ہونے کا مشورہ دیا اور بھٹو شہید کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔آخر میں جاوید جمنا نے مہمانوں کی تواضع گرم سموسوں اور مزیدار چاٹ سے کی۔اس برسی میں شرکت کرنے والوں میں سید مجاہد حسین شاہ،آصف شہزاد چٹھہ ، سید ریاض شاہ،ملک محمد ایوب، منیر بیگ، میاں اکمل لطیف، خضر حیات تارڈ ،شکیل چغتائی ،امتیاز قادر وائیں،چوہدری قادر، سعیداکمل،محمد ریاض جاوید جمنااور قیصر ملک شامل تھے۔